Daily Roshni News

کبھی کہا نہ کسی سے ترے فسانے کو۔۔۔پیدائش: 19 اگست 1887ء

کبھی کہا نہ کسی سے ترے فسانے کو

نہ جانے کیسے خبر ہو گئی زمانے کو

پیدائش: 19 اگست 1887ء

 ہالینڈ(ڈیلی روشنی نیوز انٹرنیشنل )اردو کے ممتاز شاعر سید محمد حسین المعروف استاد قمر جلالوی 19 اگست 1887ء میں قصبہ جلالی، ضلع علی گڑھ میں پیدا ہوئے۔ انھوں نے بچپن میں سیّد زندہ علی سے باقاعدہ اردو اور فارسی کی تعلیم حاصل کی۔ ضلع علی گڑھ میں بائیسکل کی دکان تھی، یہی ان کی روزی کا ذریعہ تھا۔ امیرؔ مینائی ان کے روحانی استاد تھے۔ قیام پاکستان کے بعد ہجرت کرکے کراچی میں سکونت اختیار کرلی۔ معاش کے لیے پاکستان کوارٹرز میں سائیکل کی دکان کرلی تھی۔ شاعری کے جملہ اصناف سخن پر قادر تھے۔ ہندوستان اور پاکستان میں آپ کے متعدد شاگرد تھے۔ 24 اکتوبر1968ء کو کراچی میں انتقال کرگئے۔ یہ کلاسیکی روایت کے آخری مقبول شاعر تھے۔ ان کے انتقال کے بعد ان کے قدر دانوں نے ان کی حسب ذیل کتابیں شائع کیں۔ ’عقیدتِ جاوداں‘ (سلام اور مراثی کا مجموعہ)، ’رشکِ قمر‘، ’روحِ قمر‘، ’غمِ جاوداں‘، ’اوجِ قمر‘۔

بحوالۂ:پیمانۂ غزل(جلد اول)،محمد شمس الحق،صفحہ:311

متفرق اشعار

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

ذرا روٹھ جانے پہ اتنی خوشامد

قمرؔ تم بگاڑو گے عادت کسی کی

 پوچھو نہ عرق رخساروں سے رنگینئ حسن کو بڑھنے دو

سنتے ہیں کہ شبنم کے قطرے پھولوں کو نکھارا کرتے ہیں

شکریہ اے قبر تک پہنچانے والو شکریہ

اب اکیلے ہی چلے جائیں گے اس منزل سے ہم

آئیں ہیں وہ مزار پہ گھونگھٹ اتار کے

مجھ سے نصیب اچھے ہے میرے مزار کے

 ضبط کرتا ہوں تو گھٹتا ہے قفس میں مرا دم

آہ کرتا ہوں تو صیاد خفا ہوتا ہے

کبھی کہا نہ کسی سے ترے فسانے کو

نہ جانے کیسے خبر ہو گئی زمانے کو

 اس لئے آرزو چھپائی ہے

منہ سے نکلی ہوئی پرائی ہے

دبا کے قبر میں سب چل دیے دعا نہ سلام

ذرا سی دیر میں کیا ہو گیا زمانے کو

 روئیں گے دیکھ کر سب بستر کی ہر شکن کو

وہ حال لکھ چلا ہوں کروٹ بدل بدل کر

 اب آگے اس میں تمہارا بھی نام آئے گا

جو حکم ہو تو یہیں چھوڑ دوں فسانے کو

 اب نزع کا عالم ہے مجھ پر تم اپنی محبت واپس لو

جب کشتی ڈوبنے لگتی ہے تو بوجھ اتارا کرتے ہیں

میں ان سب میں اک امتیازی نشاں ہوں فلک پر نمایاں ہیں جتنے ستارے

قمرؔ بزم انجم کی مجھ کو میسر صدارت نہیں ہے تو پھر اور کیا ہے

 سرمے کا تل بنا کے رخ لا جواب میں

نقطہ بڑھا رہے ہو خدا کی کتاب میں

 سنا ہے غیر کی محفل میں تم نہ جاؤ گے

کہو تو آج سجا لوں غریب خانے کو

 مجھے میرے مٹنے کا غم ہے تو یہ ہے

تمہیں بے وفا کہہ رہا ہے زمانہ

 قمرؔ ذرا بھی نہیں تم کو خوف رسوائی

چلے ہو چاندنی شب میں انہیں بلانے کو

قمرؔ کسی سے بھی دل کا علاج ہو نہ سکا

ہم اپنا داغ دکھاتے رہے زمانے کو

رسوا کرے گی دیکھ کے دنیا مجھے قمرؔ

اس چاندنی میں ان کو بلانے کو جائے کون

مدتیں ہوئیں اب تو جل کے آشیاں اپنا

آج تک یہ عالم ہے روشنی سے ڈرتا ہوں

 وہ چار چاند فلک کو لگا چلا ہوں قمرؔ

کہ میرے بعد ستارے کہیں گے افسانے

ابھی باقی ہیں پتوں پر جلے تنکوں کی تحریریں

یہ وہ تاریخ ہے بجلی گری تھی جب گلستاں پر

 تیرے قربان قمرؔ منہ سر گلزار نہ کھول

صدقے اس چاند سی صورت پہ نہ ہو جائے بہار

جلوہ گر بزم حسیناں میں ہیں وہ اس شان سے

چاند جیسے اے قمرؔ تاروں بھری محفل میں ہے

شب کو مرا جنازہ جائے گا یوں نکل کر

رہ جائیں گے سحر کو دشمن بھی ہاتھ مل کر

 شام کو آؤ گے تم اچھا ابھی ہوتی ہے شام

گیسوؤں کو کھول دو سورج چھپانے کے لئے

نزع کی اور بھی تکلیف بڑھا دی تم نے

کچھ نہ بن آیا تو آواز سنا دی تم نے

 روشن ہے میرا نام بڑا نامور ہوں میں

شاہد ہیں آسماں کے ستارے قمر ہوں میں

 جگر کا داغ چھپاؤ قمرؔ خدا کے لئے

ستارے ٹوٹتے ہیں ان کے دیدۂ نم سے

 بڑھا بڑھا کے جفائیں جھکا ہی دو گے کمر

گھٹا گھٹا کے قمرؔ کو ہلال کر دو گے

 اگر آ جائے پہلو میں قمرؔ وہ ماہ کامل بھی

دو عالم جگمگا اٹھیں گے دوہری چاندنی ہوگی

یہی ہے گر خوشی تو رات بھر گنتے رہو تارے

قمرؔ اس چاندنی میں ان کا اب آنا تو کیا ہوگا

 نشیمن خاک ہونے سے وہ صدمہ دل کو پہنچا ہے

کہ اب ہم سے کوئی بھی روشنی دیکھی نہیں جاتی

 ایسے میں وہ ہوں باغ ہو ساقی ہو اے قمرؔ

لگ جائیں چار چاند شب ماہتاب میں

 نہ ہو رہائی قفس سے اگر نہیں ہوتی

نگاہ شوق تو بے بال و پر نہیں ہوتی

 قمرؔ افشاں چنی ہے رخ پہ اس نے اس سلیقہ سے

ستارے آسماں سے دیکھنے کو آئے جاتے ہیں

 قمرؔ اپنے داغ دل کی وہ کہانی میں نے چھیڑی

کہ سنا کئے ستارے مرا رات بھر فسانہ

 ہر وقت محویت ہے یہی سوچتا ہوں میں

کیوں برق نے جلایا مرا آشیاں نہ پوچھ

 خون ہوتا ہے سحر تک مرے ارمانوں کا

شام وعدہ جو وہ پابند حنا ہوتا ہے

Loading