Daily Roshni News

کتاب اور صاحب کتاب

کتاب اور صاحب کتاب

ہالینڈ(ڈیلی روشنی نیوز انٹرنیشنل )باقی دنیا میں اپنی کتابوں کی اشاعت کے بعد پچھلے پانچ چھ سالوں میں پاکستان میں کتابیں چھپوانے اور فروخت کا میرا تجربہ بہت دلچسپ رہا ہے۔ اگر پاکستان کی پچیس کروڑ آبادی کا .0.001 فیصد بھی باقاعدگی سے کتابیں خریدے تو یہ ڈھائی لاکھ افراد بنتے ہیں۔ اگر ہر سال اتنے لوگ کتابیں خریدیں تو آپ سوچ سکتے ہیں کہ پاکستان میں کتابوں کی اشاعت کا کاروبار کتنا بھرپور اورمستحکم ہو سکتا ہے، کتنی زیادہ کتابیں چھپ سکتی ہیں اور کتنے اچھے نئے مصنف اور محقق سامنے آ سکتے ہیں۔

لیکن ہوتا  یہ ہے کہ یہاں اب تو کسی کتاب کا ایک ہزار تو کیا پانچ سو کا ایڈیشن بھی نہیں چھپتا اور بک پاتا۔ جب اتنی قلیل تعداد میں کتاب چھپے تو کیا پبلشنگ ہو گی، کون لکھنا چاہے گا اور کیا ہی کوئی علم کا بول بالا ہو گا۔ کچھ مصنفین کی کتابیں یقیناً زیادہ بکتی ہیں اور جو چند اچھے، محنتی اور دور اندیش ناشر ہیں وہ اچھی کتابیں چھاپتے ہیں، نام کماتے ہیں اور پیسہ بھی۔ لیکن مجموعی صورتِ حال شرمناک ہے اور دنیا چھوڑیں اس خطے کے بھی چند مخدوش ممالک کے علاوہ ہر ملک کی صورتِ حال سے برعکس۔ ھندوستان، ترکی، ایران، عرب ممالک، مشرقِ بعید ہر جگہ اس سے بہت زیادہ کتابیں چھپ اور بک رہی اور ظاہر ہے پڑھی بھی جا رہی ہیں۔

مانا کاغذ مہنگا ہے اور کتابیں کئی لوگوں کی قوتِ خرید سے باہر ہیں لیکن کتابوں کے کم چھپنے اور بکنے میں بہت سے ناشرین کا بھی قصور ہے جو غلطیوں سے بھرپور، ناقص کاغذ پہ چھپی، بھیانک سرورق والی کتابیں پیدا کرتے ہیں اور مصنف  اور کتاب کی مشہوری پہ ایک روپیہ بھی خرچ کرنا بدعت سمجھتے ہیں۔

اس ماحول میں جب کوئی گلہ کرتا ہے کہ پاکستانی مصنفین کو دنیا کے اعلیٰ ترین ادبی اعزازات کیوں نہیں ملتے تو مجھے ہنسی آتی ہے۔ بھائی ہم خود تو اپنے مصنفین کو نظر انداز کرتے ہیں لیکن باقی دنیا سے یہ چاہتے ہیں کہ ان کی قدر کرے۔ دنیا بھر کے جن بھی مصنفین کو عالمی اعزازات سے نوازا گیا ہے ان کے اپنے ممالک میں ان کی خوب پزیرائی ہوتی ہے اور ہزاروں، لاکھوں کتابیں بکتی ہیں۔ تب ہی دنیا بھر کے لکھاری، نقاد، ناشر اور مترجم ان کی طرف متوجہ ہوتے ہیں۔ اور پھر وہاں کے پڑھنے والے۔

میرا اپنا تجربہ زیادہ تر خوش آئند رہا ہے۔ مجھے اپنی بساط،  صلاحیت اور خوبی سے زیادہ پڑھنے والے ملے ہیں اور وہ بھی اچھے، حساس اور مہربان پڑھنے والے۔ لیکن سچ بتائوں تو ان میں اکثریت ایسوں کی ہے جو طلبا ہیں یا متمول نہیں ہیں یا چھوٹے شہروں سے تعلق رکھتے ہیں۔ لیکن سب کے سب بیحد مشتاق اور سلجھے ہوے قاری ہیں اور کئی ایک تو ہیسے بچا بچا کر بہت محبت سے کتابیں خریدتے ہیں اور ان کی قدر کرتے ہیں۔ یہ صحیح معنوں میں کتاب  شناس اور علم دوست ہیں۔ میں لکھتا بھی ان ہی کے لیے ہوں۔ یہی وہ نفیس لوگ ہیں جو کتاب اور مصنف کی قدرومنزلت جانتے ہیں اور مصنف کی دل سے عزت کرتے ہیں۔ مفت خورے اس تمام معاملے کو کیا جانیں۔

اس کے برعکس زیادہ تر امیر اور پڑھے  لکھے پاکستانی اب کتابیں نہیں خریدتے۔ بلکہ کتاب خریدنے کے تصور سے خوفزدہ ہو جاتے ہیں۔  اور چاہے ہزاروں دوسری فضولیات پہ لاکھوں خرچ کریں کتاب کا نام آتے ہی اپنے بٹوے یا پرس پہ گرفت مضبوط کر لیتے ہیں۔  اس قدر خصیس ہیں کہ جیسے ہی کوئی ایسامصنف نظر آتا ہے جس کی نئی کتاب منظرِ عام پہ آچکی ہوتی ہے یہ اس سے ڈھٹائی سے فرمائش کرتے ہیں کہ میری کاپی کہاں ہے۔ اور مانگتے بھی ایسے ہیں جیسے الٹامصنف پہ احسان کر رہے ہوں۔ دل جلے مصنف کے من میں تو آتا ہے کہ جواب دے ٹھٹھے کھو میں لیکن اخلاق آڑے آ جاتا ہے۔ اب بھلا بتائیے کہ پہلے تو وہ اپنا خون جلا کر کتاب لکھے اور پھر چھپوائے اور پھر مارکیٹ کرے اور پھر ان مفت خوروں میں بانٹے جو  دو دو ہزار کا برگر ہڑپ کر جاتے ہیں اور ڈکار تک نہیں لیتے۔ ان کے جن دوستوں کی سیمنٹ کے فیکٹریاں،  سینیٹری کی دکانیں اور آٹے کے ڈپو ہیں ان سے کیا یہ مفت سیمنٹ، کموڈ اور آٹا مانگتے ہیں؟ یہ نظرِ التفات صرف کتابیں لکھنے والوں کے لیے ہی کیوں؟

میں جس ماحول میں پلا بڑھا اس میں ہم کتابیں پڑھنا شخصیت کے نکھار اور ایک قابل عزت شخص بننے کے لیے ناگزیر سمجھتے تھے۔ کئی مصنف سلیبریٹی تھے۔ لوگ اپنی لائبریریاں بناتے تھے۔ کتابوں پہ سلجھی ہوی گفتگو ہوتی تھی۔ انٹرنیٹ اور ای بکس کے آنے سے ذریعہ تبدیل ہو سکتا ہے لیکن کتابوں کی افادیت، اہمیت اور انہیں پڑھنے کے لطف میں تو کوئی تبدیلی نہیں آئی۔

کچھ لوگ یہ عجیب و غریب بات کرتے ہیں کہ وہ مطالعہ کرنا چاہتے ہیں لیکن ان کے پاس وقت نہیں۔ حیرت ہے کہ دنیا کی تمام وہ امیر و کبیر اور ممتازشخصیات جن کے اقوالِ زریں اپنی پوسٹوں پہ لگاتے وہ تھکتے نہیں وہ ان سے کم مصروف ہیں چونکہ وہ تو دھڑادھڑ کتابیں پڑھ رہے ہیں۔ کیاباراک اوباما  اور کیا وارن بفٹ، بل گیٹس، مارک ذکر برگ اور ایسے کئی دوسرے۔ کوئی وجہ ہو گی نا کہ کتاب اب بھی ان کے لیے اتنی کلیدی اہمیت رکھتی ہے۔

میں بہت سے تعلیمی  وضائف کے لیے طلبا کے انٹرویو کرتا ہو۔ میرا برسوں کاتجربہ ہے کہ وہ جو کثیر المطالعہ ہوتے ہیں ان کی کارکردگی، تجزیہ کرنے کی صلاحیت ، حاضر جوابی ، اعتماد اور اظہار کی عمدگی ان سے کئی درجہ بہتر ہوتی ہے جو اپنے مضمون کے علاوہ کچھ نہیں پڑھتے۔

ہماری مختلف تقاریب پہ اعزازی شیلڈز اور سوؤینئیر دیے جاتے ہیں جن کا کوئی مصرف نہیں۔ سب کوڑے کی ٹوکری میں جاتے ہیں۔ ان کی جگہ انعام اور اعزاز کے طور پہ کتابیں دیں۔ دوستوں اور احباب کو کتابیں خرید کر بطور تحفہ دیں۔ ہر سال پاکستانی مصنفین کی نئی کتابیں خریدیں اور اپنی لائبریری بنائیں۔ میری نظر میں کوئی بھی ایسی قوم نہیں جو کتابیں خریدنے اور پڑھنے کے توانا کلچر اور ماحول کے بغیر ترقی کر رہی ہو۔  کسی معاشرے میں کتابوں کا غیر اہم ہو جانا اس کی موت کی پیش گوئی ہے۔ ایسے معاشرے میں نہ تو اعلی خیالات اور  اقدار افزائش پائیں گے۔  نہ ہی مۂذب گفتگو پروان چڑھے گی۔ نہ باہمی رواداری پیدا ہو گی۔ اور نہ ہم اپنے مسائل کا حل ڈھونڈ کر اپنے بچوں کو ایک اچھی زندگی دے پائیں گے۔ ایسے معاشرے میں صرف جہالت، احمق پن، ادنیٰ درجے کی تفریح، توہمات اور بد تمیزی کا دور دورہ ہو گا۔

میں دلبرداشتہ نہیں ہوں۔ بلکہ پر امید ہوں۔ پچھلے چند سالوں میں میرا بہت سے ذہین پاکستانی قارئین سے رابطہ ہوا ہے۔ اب ہمارے ہاں دس پندرہ  ادبی میلے ہوتے ہیں۔  انٹرنیٹ اور خاص انسٹاگرام پہ بہت سے نوجوان پاکستانی کتابوں کو اجاگر کرتے ہیں۔ وہ چند ناشر جو عمدہ کتابیں چھاپتے ہیں اور ان کی تشہیر کرتے ہیں وہ کامیاب ہیں۔ وہ لکھاری جو اپنے پڑھنے والوں سے رابطے میں رہتے ہیں ان کو پڑھا جاتا ہے۔ اچھی کتاب جو چھپی بھی اچھی ہوں اور جن کی مناسب تشہیر کی جائے وہ اپنے قاری ڈھونڈ لیتی ہے۔ کئی درسگاہوں میں طلبا کی ادبی مجلسیں بھی خاصی متحرک ہیں۔ سو ذرا نم ہو تو یہ مٹی ۔۔۔۔

لیکن خدارا کتابیں خریدئیے اور پڑھیے۔ ان کا جشن منائیے۔ ان سے محبت کیجئے۔ ایک ہولناک مستقبل سے بچنے کے لیے۔

اور ایسے امیر اور وسائل سے لدے پھندے لیکن بخیل خواتین اور حضرات سے بچ کر رہیے جو مصنفین سے مفت کتابوں کا مطالبہ کرتے ہیں۔ یہ ایک واضح نشانی ہے کہ یہ لوگ کسی کے ساتھ کچھ بھی کر سکتے ہیں۔ اور ان کا کوئی دین ایمان نہیں ہے۔  انہیں دیکھتے ہی فوراً چاروں قل پڑھ کر اپنے پہ پھونکیں اور اس جگہ سے فوراً کوچ کر جائیں جہاں وہ آن دھمکیں۔   چونک یہ بے فیض اور بے برکت لوگ ہیں۔

(اے آئی کی مدد سے بنایا ہو ا عکس۔ زویا صدیق)

Loading