کثرت ازدواج
حمیراعلیم
ہالینڈ(ڈیلی روشنی نیوز انٹرنیشنل ۔۔۔ کثرت ازدواج ۔۔۔ تحریر۔۔۔حمیراعلیم )مغرب قرآن اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو فیمنیسٹ کہتا ہے کیونکہ جتنے حقوق قرآن نے ہمیں دئیے ہیں وہ مغربی عورت کو آج بھی حاصل نہیں ہیں۔یہ آرٹیکل بھی خواتین کے حقوق کے بارے میں ہی ہے۔اگر خواتین سمجھیں تو۔
اللہ تعالیٰ نے مردوں کو ایک سے زیادہ بیویاں رکھنے کی اجازت دی ہے جیسا کہ فرمایا:
’’اور اگر تمہیں ڈر ہو کہ تم یتیم لڑکیوں کے ساتھ انصاف نہ کر سکو گے تو اپنی پسند کی عورتوں سے دو دو، تین تین یا چار چار سے نکاح کر لو، لیکن اگر تمہیں اندیشہ ہو کہ انصاف نہ کر سکو گے۔ ان کے ساتھ) تو صرف ایک یا (لونڈی) جو آپ کے دائیں ہاتھ ہیں اس طرح آپ کے ساتھ ناانصافی کا امکان کم ہے۔” النساء 4:3
اس سے صاف ظاہر ہوتا ہے کہ کثرت نکاح جائز ہے، اور یہ کہ اسلامی شریعت کے مطابق مرد اپنی پسند کی ایک، دو، تین یا چار بیویوں سے شادی کر سکتا ہے۔
اور چار سے زیادہ شادیاں کرنا جائز نہیں ہے۔ علمائے تفسیر اور فقہاء کا یہی قول ہے؛ مسلمان اس بات پر متفق ہیں اور اس میں کوئی اختلاف نہیں ہے۔
کثرت نکاح کی شرائط
واضح رہے کہ کثرت نکاح کی شرائط ہیں:
انصاف
اللہ تعالیٰ فرماتا ہے: ’’لیکن اگر تمہیں ڈر ہو کہ تم (ان کے ساتھ) انصاف نہ کر سکو گے تو صرف ایک ہی پر اکتفا کرو۔‘‘ النساء 4:3
اس آیت سے معلوم ہوتا ہے کہ عدل کثرت ازدواج کی شرط ہے۔ اگر کسی مرد کو یہ خوف ہو کہ اگر وہ ایک سے زیادہ شادیاں کرے گا تو وہ اپنی بیویوں کے ساتھ انصاف نہیں کر سکے گا تو اس کے لیے ایک سے زیادہ شادیاں کرنا حرام ہے۔ یہاں عدل سے مراد یہ ہے کہ تمام بیویوں کے ساتھ خرچ، لباس، رات گزارنے اور دیگر مادی معاملات میں یکساں سلوک کیا جائے جو اس کے اختیار میں ہیں۔
محبت کے میدان میں انصاف اور مساوی سلوک کے حوالے سے اس کا جوابدہ نہیں ہے کیونکہ یہ اس کے بس میں نہیں ہے۔ اللہ تعالیٰ کے ارشاد سے یہی مراد ہے۔”تم کبھی بھی بیویوں کے درمیان کامل انصاف نہیں کر سکو گے خواہ یہ تمہاری شدید خواہش ہو۔” النساء 4:129 محبت کے بارے میں انصاف ممکن نہیں ۔
چار بیویوں پر خرچ کرنے کے قابل ہونا۔
اس کی دلیل وہ آیت ہے جس میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے:
’’اور جو لوگ شادی کے لیے مالی وسائل نہیں پاتے وہ اپنے آپ کو پاک دامن رکھیں یہاں تک کہ اللہ انہیں اپنے فضل سے غنی کر دے‘‘۔ النور 24:33
جو شخص شادی کرنا چاہتا ہو لیکن اس کی استطاعت نہ رکھتا ہو وہ پاک دامن رہے اسے زنا کی اجازت کسی صورت نہیں۔نگاہ نیچی رکھے اور روزے رکھے تاکہ نفس پر قابو پا سکے۔ شادی کی استطاعت نہ رکھنے کی ایک وجہ مہر، بیوی کو دیا جانے والا جہیز ہے ۔اسلام مہر اور گھر، گھر کے اندر فرنیچر دیگر ضرورت کی اشیاءکو جہیز کہتا ہے جو مرد کی ذمہ داری ہیں۔لڑکی یا اس کے گھر والوں کی نہیں،جو لوگ علی رضی اللہ عنہ کو دئیے جانے والے جہیز کی مثال دیتے ہیں۔انہیں اس حدیث کو پڑھنا چاہیے جس میں تفصیلا درج ہے کہ چونکہ علی رضی اللہ عنہ بچپن سے ہی نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کےساتھ مقیم تھے لیزا شادی کے وقت انہوں نے پیسے نبی کریم کو دئیے کہ وہ گھر کا ضروری سامان خرید دیں۔جس سے انہوں نے ضروری چیزیں خریدیں۔یہ سب نبی صلی اللہ علیہ نے اپنے پیسوں سے خرید کر فاطمہ رضی اللہ عنہا کو بطور جہیزنہیں دیا۔ مہر ادا کرنے یا بیوی پر خرچ کرنے کے قابل نہ ہونا بھی شادی کی استطاعت نہ رکھنا ہے۔ (المفسل فی احکام المرعۃ، ج 6، ص 286)
بعض علماء کا خیال ہے کہ کثرت ازدواج اپنے آپ کو ایک بیوی تک محدود رکھنے سے بہتر ہے۔ شیخ ابن باز رحمہ اللہ سے سوال کیا گیا: کیا نکاح کا بنیادی اصول کثرت سے نکاح ہے یا ایک بیوی سے نکاح؟”شریعت کا بنیادی اصول ان لوگوں کے لیے کثرت سے نکاح ہے جو اس کی استطاعت رکھتے ہیں، اگر ناانصافی کا اندیشہ نہ ہو، کیونکہ اس سے بہت سے مفادات پورے ہوتے ہیں، جیسے اپنے آپ کو اور جن سے وہ شادی کرتا ہے، ان کے ساتھ پاکیزگی، حسن سلوک۔ ان میں سے کثرت سے بچے پیدا کرنا اور امت کی تعداد میں اضافہ کرنا ۔”
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے صحابہ میں سے ایک نے کہا کہ میں گوشت نہیں کھاؤں گا اور دوسرے نے کہا کہ میں نماز پڑھوں گا اور کبھی نہیں سوؤں گا۔ تیسرے نے کہا کہ میں روزہ رکھوں گا اور کبھی افطار نہیں کروں گا اور چوتھے نے کہا کہ میں عورتوں سے شادی نہیں کروں گا۔ جب اس کی خبر ان تک پہنچی تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اللہ کی حمد و ثناء کی پھر فرمایا: تم وہ ہو جس نے ایسے ایسے کہا اللہ کی قسم میں تم سے زیادہ اللہ سے ڈرتا ہوں پر میں کبھی روزہ رکھتا ہوں کبھی نہیں بھی رکھتا( نفلی) میں نماز،بھی پڑھتا ہوں اور سوتا بھی ہوں اور خواتین سے شادی بھی کی ہے۔جو میری سنت سے منہ موڑے گا میرا اس سے کوئی تعلق نہیں۔” یہ حدیث بھی کثرت ازدواج کی دلیل ہے۔ مجلتہ البلاغ شمارہ 1015 فتاوی علم البلاد الحرام صفحہ 386۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک سے زیادہ شادیاں کیں۔مگر 25 سال کی عمر میں جب وہ کنوارے تھے اپنے سے 15 سال بڑی اور دو بار شادی شدہ خاتون خدیجہ رضی اللہ عنہ سے شادی کی اور ان کی زندگی میں دوسری شادی نہیں کی۔ان کے انتقال کے بعد بیک وقت نو ازواج مطہرات آپ کی زندگی میں تھیں جن میں سے واحد عائشہ رضی اللہ عنہا کنواری تھیں۔کئی خواتین سے نکاح کی اجازت نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو بطور نبی حاصل تھی۔عام مسلمان مرد بیک وقت چار بیویاں ہی رکھ سکتے ہیں۔
اسلام میں تعدد ازدواج کیوں جائز ہے؟
1. کثرت کی شادی امت ( مسلم کمیونٹی) کی تعداد بڑھانے میں مدد کرتی ہے۔اور تعداد صرف شادی کے ذریعے بڑھائی جا سکتی ہے۔ جب تعداد بڑھے گی تو زیادہ کام کرنے والے ہوں گے معاشی صورتحال بہتر ہو گی، اگر حکمران وسائل کا بہتر استعمال کریں گے تو۔ایسے خدشات بے بنیاد ہیں کہ بڑھتی آبادی کی وجہ سے وسائل کم ہو رہے ہیں۔کیونکہ اللہ تعالٰی نے چار شادیوں کی اجازت دی تو اس کے مالی وسائل میں اضافے کا بھی کہا ہے جو اس نے کائنات میں انسانوں کی ضروریات کے مطابق پیدا فرمائے ہیں۔
آج جو بھی مسائل انسان کو لاحق ہیں ان کی وجہ حکمرانوں، حکومتوں، انتظامیہ اور افراد کے برے انتظام مس مینیجمنٹ ہیں۔
چائنہ کی مثال لے لیجئے دنیا میں سب سے زیادہ آبادی والا ملک ہے لیکن ایک مضبوط معیشت اور انڈسٹری کا مالک ہے۔کوئی ملک اس کی طرف آنکھ اٹھا کر دیکھنے کی جرات نہیں کر سکتا۔
اسٹیٹکس بتاتے ہیں کہ عورتوں کی تعداد مردوں سے زیادہ ہے۔اگر ہر مرد صرف ایک شادی کرے تو زیادہ تر خواتین بنا شادی کے رہیں گی جس کا ان پر اور معاشرے پر برا اثر پڑے گا۔یعنی انہیں ایسا شوہر نہیں ملے گا جو ان کی حفاظت کرے، انہیں گھر اور ضروریات زندگی مہیا کرے، ان پر مال خرچ کرے، ان کے ساتھ بچے پیدا کرے اسے سکون اور خوشیاں مہیا کرے۔ اس طرح وہ گمراہی کا شکار ہو سکتی ہیں سوائے چند ایک کے جن پر اللہ کا رحم ہو۔چند خواتین جسم فروشی کرنے لگتی ہیں جس کے نتیجے میں فحاشی بھی پھیلتی ہے اور ایڈز جیسی بیماریاں بھی۔ اس سے گھر اور خاندان بھی تباہ ہوتے ہیں اور ناجائز بچے بھی جنم لیتے ہیں جنہیں کوئی ایسا شخص میسر نہیں ہوتا جو باپ بن کر ان کی پرورش کر سکے انہیں محبت و تربیت دے سکے۔ جب سوسائٹی انہیں ناجائز بچے کا طعنہ دیتی ہے تو وہ گمراہی کا شکار ہو جاتے ہیں وہ معاشرے سے نفرت کرتے ہیں اور اس کی تباہی کا سبب بھی۔جیسے کہ کئی ممالک میں وہ گینگز بنا کر تباہی پھیلاتے ہیں۔
مردوں کو ایسے واقعات کا سامنا کرنا پڑتا ہے جو ان کی زندگی کو ختم کر سکتے ہیں، کیونکہ وہ خطرناک پیشوں میں کام کرتے ہیں۔ وہ سپاہی ہیں جو جنگ میں لڑتے ہیں، اور عورتوں سے زیادہ مرد مر سکتے ہیں۔ یہ ان چیزوں میں سے ایک ہے جو شوہر سے محروم خواتین کا فیصد بڑھاتی ہے، اور اس مسئلے کا واحد حل کثرت کی شادی ہے۔
2. کچھ مرد ایسے ہوتے ہیں جو شدید جسمانی خواہشات رکھتے ہیں، جن کے لیے ایک بیوی کافی نہیں ہے۔ اگر ایسے آدمی کے لیے دروازہ بند کر دیا جائے اور اسے کہا جائے کہ تمہیں ایک سے زیادہ بیویوں کی اجازت نہیں ہے، تو اس سے بڑا نقصان ہو گا۔لیکن اگر دوسری تیسری شادی کر کے پہلی والیوں کو چھوڑنا ہی ہے یا ان سے قطع تعلق کر لینا اور تو پھر ایک ہی بیوی کے ساتھ رہنا ہے تو کثرت ازدواج درست نہیں۔
3:بیوہ اور مطلقہ کے بچوں کےساتھ ہمدردی کا اظہار کرنے والا یا ان کی صحیح پرورش کرنے والا کوئی آدمی مل جاتاہے۔
1:جب عورت کو ہر ماہ حیض آتا ہے اور جب وہ بچہ پیدا کرتی ہے تو اسے چالیس دن تک خون آتا ہے (اسے بعد از پیدائش خون عربی میں نفاس کہتے ہیں) اس وقت مرد اپنی بیوی سے ہمبستری نہیں کر سکتا، کیونکہ حیض یا نفاس کے وقت قربت حرام ہے اور اس سے جو نقصان پہنچتا ہے وہ طبی طور پر ثابت ہے۔ لہٰذا کثرت سے شادی کی اجازت ہے جب کوئی انصاف کرنے کے قابل ہو۔
2. بیوی بانجھ ہو سکتی ہے، یا وہ اپنے شوہر کی ضروریات پوری نہیں کر سکتی، یا وہ بیمار ہونے کی وجہ سے اس سے ہمبستری نہیں کر سکتا۔ شوہر کو اولاد کی خواہش ہو سکتی ہے، جو کہ ایک جائز خواہش ہے، اور ہو سکتا ہے کہ وہ شادی کر کے پاکیزہ زندگی گزارنا چاہے، جو کہ جائز ہے، اور واحد راستہ دوسری شادی کرنا ہے۔ بیوی کے لیے یہ جائز ہے کہ وہ دوسری بیوی رہنے پر راضی ہو جائے اور اسے دوسری شادی کرنے کی اجازت دے۔اور اگر چاہے تو خلع یا طلاق لے لے اور دوسری شادی کر لے۔
3. عورت مرد کے رشتہ داروں میں سے ہو اور اس کی دیکھ بھال کرنے والا کوئی نہ ہو، اور وہ غیر شادی شدہ یا بیوہ ہو تو اس سے نکاح کیا جا سکتا ہے۔
پچھلی اقوام میں بھی کثرت ازدواج کا رواج رہا ہے۔سلیمان علیہ السلام کی نوے بیویاں تھیں۔ ابراہیم علیہ السلام کی دو بیویاں تھیں۔نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے دور میں کچھ مرد آٹھ یا پانچ بیگمات رکھتےتھے۔ وہ مسلمان ہوئے تو انہیں چار کے سوا سب کو چھوڑنے کا حکم دیا گیا۔
کوئی بیوہ یا مطلقہ خاتون ہو اور مرد یہ سوچے کہ اس کے لیے سب سے بہتر کام یہ ہے کہ وہ اسے اپنی پہلی بیوی کے ساتھ بطور بیوی اپنے خاندان میں شامل کرے۔ دونوں اس کی پاکدامنی کو برقرار رکھیں گی اور وہ ان کا کفیل بنے گے۔ یہ اس کے لیے اس سے بہتر ہے کہ اسے تنہا چھوڑ دے اور صرف اس پر خرچ کرنے پر راضی رہے۔
4. دیگر شرعی مفادات ہیں جو کثرت سے شادی کے لیے کہتے ہیں، جیسے خاندانوں کے درمیان ، ایک رہنما اور اس کے کچھ لوگوں یا گروہ کے درمیان رشتے مضبوط کرنا اور یہ رشتہ ازدواج میں منسلک ہو کتلر، کثیر شادی کے ذریعے بھی ہو سکتا ہے۔
اسلام میں تعدد ازدواج پر اعتراضات
1. بعض لوگ اعتراض کر سکتے ہیں اور کہہ سکتے ہیں کہ کثرت نکاح کا مطلب ایک گھر میں کئی بیویاں ہونا ہے، اور یہ کہ شریک بیویوں کے درمیان جو جھگڑے اور دشمنی پیدا ہو سکتی ہے اس کا اثر شوہر، بچوں اور دوسروں پر پڑے گا اور یہ نقصان دہ ہے۔ اس سے بچنا چاہیے، اور اس سے بچنے کا واحد طریقہ کثرت سے شادی پر پابندی لگانا ہے۔اس اعتراض کا جواب یہ ہے کہ خاندانی جھگڑے اس وقت بھی ہو سکتے ہیں جب صرف ایک بیوی ہو، اور یہ اس وقت نہیں بھی ہو سکتے جب ایک سے زیادہ بیویاں ہوں۔
زندگی مکمل طور پر بری یا پوری طرح اچھی نہیں ہے، لیکن جس چیز کی ہر کوئی امید کرتا ہے وہ یہ ہے کہ اچھائی برائی سے زیادہ ہو جائے گی، اور یہی اصول کثرت سے شادی کی اجازت میں لاگو ہوتا ہے۔مزید یہ کہ ہر بیوی کا حق ہے کہ اسے اپنی الگ رہائش ملے جیسا کہ اسلام میں بیان کیا گیا ہے۔ شوہر کے لیے جائز نہیں کہ وہ اپنی بیویوں کو ایک گھر میں اکٹھے رہنے پر مجبور کرے۔
دوسرا اعتراض یہ ہوتا ہے کہ اگر ہم مردوں کو کثرت سے بیویاں رکھنے کی اجازت دیتے ہیں تو عورتوں کو ایک سے زیادہ شوہر رکھنے کی اجازت کیوں نہیں ہے، عورت کو ایک سے زیادہ شادی کرنے کا حق کیوں نہیں ہے؟
اس اعتراض کا جواب یہ ہے کہ ایک عورت کو ایک سے زیادہ شوہروں سے شادی کرنے کا حق دینے کا کوئی فائدہ نہیں ہے، بلکہ یہ اس کی شان کے نیچے ہے اور اسے بچوں کا نسب معلوم نہیں ہو گاکوئی بھی شوہر بچوں کی کفالت کی ذمہ داری نہیں لے گا۔یوں خاندان ٹوٹیں گے۔ بچوں اور والد کا رشتہ ختم ہو جائے گا
جس کی اسلام میں اجازت نہیں۔اسلام بیوہ مطلقہ کو عدت کا حکم ہی اسی لیے دیتا ہے کہ بچے کی پیدائش کی صورت میں اس کےوالد کا پتہ چل جائے اور اسے وراثت میں سے حصہ ملے۔
المفسل فی احکام المراہ، حصہ 6، ص۔ 290.
اگر کوئی شخص جسمانی اور مالی طور پر دوسری شادی کرنے کے قابل ہو اور وہ دونوں بیویوں کے ساتھ عدل و انصاف سے پیش آسکتا ہو اور دوسری شادی کرنا چاہتا ہو تو اسلام کے مطابق اسے ایسا کرنے کی اجازت ہے۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے:
“… پھر اپنی پسند کی عورتوں سے نکاح کر لو، دو یا تین یا چار…” النساء 4:3
اور یہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ کے صحابہ رضی اللہ عنہم کا عمل تھا، لیکن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے علاوہ کسی کو چار سے زیادہ کی اجازت نہیں ہے۔یہ بات سب جانتے ہیں کہ عورتیں فطرتاً غیرت مند ہوتی ہیں اور اپنے شوہر کو دوسری عورتوں کے ساتھ شیئر کرنے سے گریزاں ہوتی ہیں۔ عورتوں پر اس حسد کی مذمت نہیں کی جا سکتی، کیونکہ یہ سب سے افضل صالح عورتوں، صحابیات، حتیٰ کہ امہات المومنیں میں بھی موجود تھا۔ لیکن عورتوں کو چاہیے کہ وہ حسد کو ان چیزوں پر ترجیح نہ دیں جو اللہ نے مقرر کی ہیں، اور وہ اسے روکنے کی کوشش نہ کریں۔ بیوی کو چاہیے کہ اپنے شوہر کو دوسری عورت سے نکاح کی اجازت دے دے کیونکہ یہ نیکی میں تعاون کرنا ہے. ایک حدیث کے مطابق رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: “جو شخص اپنے بھائی کی ضرورت پر توجہ دیتا ہے، اللہ تعالیٰ اس کی ضرورتوں پر توجہ دے گا۔” متفق علیہ
مرد کے لیے دوسری بیوی کرنے کے لیے پہلی بیوی کی رضامندی شرط نہیں ہے۔ اس بارے میں قائمہ کمیٹی برائے فتویٰ سے سوال کیا گیا تو اس کا جواب اس طرح دیا گیا:
“شوہر پر دوسری شادی کے لیےواجب نہیں کہ پہلی بیوی کی رضامندی حاصل کرے، لیکن اس سے مشورہ کرنا اس کے ساتھ اس طرح برتاؤ کرنا حسن اخلاق اور حسن سلوک ہے۔قدرتی طور پر اس طرح کے حالات میں عورت کے احساسات کا خیال کرتے ہوئے اس کے ساتھ حسن سلوک کرے اور اس سے نرمی اور خوشگوار انداز میں بات کرے اور اس صورت حال کو قبول کرنے کے لیے جو بھی رقم ضروری ہو اس پر خرچ کرے۔”
یعنی اگر پہلی بیوی ان سیکور ہو اور گھر، بزنس یا کوئی مال چاہے تو اسے ادا کرے۔
اگر اس کا شوہر دوسری شادی کرنا چاہتا ہے اور پہلی طلاق کی درخواست کرے تو یہ ایک غلطی ہے۔ لیکن انہیں صورت حال کا جائزہ لینا چاہیے اور اگر وہ واقعی دوسری بیوی برداشت نہیں کر سکتی، تو وہ اس سے خلع کا مطالبہ کر سکتی ہے۔ اگر وہ دوسری کے ساتھ رہ سکتی ہے۔لیکن ایسا کرنے سے تکلیف ہوتی ہے تو اسے چاہیے کہ صبر کرے اور اللہ کی رضا حاصل کرے۔ ثوبان رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
“کوئی عورت اپنے شوہر سے بلا وجہ طلاق نہیں مانگتی، لیکن اس پر جنت کی خوشبو حرام ہے۔” (اسے ابو داؤد وغیرہ نے روایت کیا ہے اور البانی رحمہ اللہ نے اسے صحیح قرار دیا ہے)۔
یعنی بنا کسی وجہ کے طلاق کا مطالبہ کرنے والی عورت پر جنت کی خوشبو بھی حرام ہو جاتی ہے۔
اگر وہ اسے صبر کے ساتھ برداشت کرتی ہے تو اللہ تعالیٰ اس کے لیے آسانیاں پیدا کر دے گا اور اس کا سینہ کشادہ کر دے گا (یعنی اسے سکون و اطمینان عطا کرے گا) اور اس کی تلافی کرے گا. شوہر کو بھی چاہیے کہ وہ اس کے ساتھ حسن سلوک سے پیش آئے، اس کی طرف سے کسی حسد وغیرہ پر اس کے ساتھ صبر کرے اور اس کی غلطیوں کو نظر انداز کرے۔ اور اللہ ہی مددگار ہے۔
مجاہد نے کہا: ان میں سے کسی کے ساتھ جان بوجھ کر برا سلوک کرنے کی کوشش نہ کرو، بلکہ اپنے وقت اور خرچ کی تقسیم کے سلسلے میں برابری کے سلوک پر عمل کرو، کیونکہ یہ وہ کام ہے جو آدمی کرسکتا ہے۔
تفسیر القرطبی، 5/407
ہمارے ہاں اکثر مرد دوسری ، تیسری شادی یہ کہہ کر کرتے ہیں کہ مرد کو اللہ نے فطرت ایسا بنایا ہے کہ وہ زیادہ خواتین کے ساتھ تعلق قائم کرے۔اس لیے چھپ کر مزید شادیاں کر لیتے ہیں۔جب پہلی بیوی کو معلوم ہوتا ہے تو وہ خلع لے لیتی ہے یا شوہر کا جھکاو کسی ایک کی طرف ہی ہو جاتا ہے۔اس صورت میں بھی رہنا ایک ہی بیوی کے ساتھ ہوتا ہے۔اس لیے بہتر ہے کہ پیار محبت سے پہلی بیوی کو دوسرے نکاح سے آگاہ کر کے شادی کی جائے۔
اللہ تعالیٰ نے کثرت ازدواج کے خواہش مند شخص کوبعض چیزوں کا حکم دیا ہے۔ جنہیں اسے دوسری شادی سے پہلے پہلی بیوی کو دینا ہو گا۔
“مرد عورتوں ے نگہبان ہیں اسی وجہ سے کہ اللہ نے ان میں ایک کو دوسرے پر فضیلت دی اور اس وجہ سے کہ مرد عورتوں پر اپنا مال خرچ کرتے ہیں تو نیک عورتیں (شوہروں کی) اطاعت کرنے والی (اور) ان کی عدم موجودگی میں اللہ کی حفاظت و توفیق سے حفاظت کرنے والی ہوتی ہیں ۔” النساء 34
اول تو یہ کہ دونوں کے حوالے سے منصفانہ خرچ کرنے، رات بھر رہنے اور
رہائش فراہم کرنے کے قابل ہو. اگر وہ جانتا ہے کہ وہ ایسا کرنے سے قاصر ہے۔یا یہ امکان زیادہ ہے کہ وہ ایسا نہیں کر سکے گا تو اس کے لیے یہ جائز نہیں کہ ایک سے زیادہ شادیاں کرے۔
شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمہ اللہ فرماتے ہیں: جہاں تک خرچ اور لباس کے معاملے میں عدل کا تعلق ہے تو یہ سنت رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی پیروی ہے۔ وہ اپنی بیویوں کے ساتھ خرچ کرنے کے معاملے میں یکساں سلوک کرتے تھےیہی انہوں نےاپنے وقت کو ان کے درمیان تقسیم کرنے کے بارے میں کیا تھا۔”
مجموع الفتاویٰ، 32/269
ابن قیم رحمہ اللہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ان کے ساتھ رات گزارنے، رہائش فراہم کرنے اور خرچ کرنے کے معاملے میں یکساں سلوک فرماتے تھے۔
لیکن ان کے ساتھ دو چیزوں میں یکساں سلوک کرنا واجب نہیں ہے محبت اور جماع، کیونکہ یہ وہ چیز ہے جس پر آدمی کا اختیار نہیں ہے۔
زاد المعاد، 1/151
حافظ ابن حجر رحمہ اللہ کہتے ہیں: اگر وہ ان میں سے ہر ایک کو مناسب لباس، نگہداشت اور رہائش فراہم کرتا ہے تو اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا کہ وہ ان میں سے کسی کی طرف زیادہ مائل ہونے یا انہیں تحفہ دینے کے بعد کیا کرتا ہے۔
الفتح، 9/391
اللہ تعالیٰ نے ایک سے زیادہ شادیاں کرنے والے پر یہی حکم دیا ہے۔ اگر آدمی ایسا کر سکتا ہے تو اس سے شادی کرنے پر راضی نہ ہونا غلط ہے۔ اگر وہ نہیں کر سکتا ہے تو ہم اس سے نکاح کی نصیحت نہیں کرتے، بلکہ اس کے لیے پہلے نکاح کی تجویز دینا بھی جائز نہیں ہے۔
اگر وہ مذہبی اور اچھے کردار کا مالک ہے اور خواتین خرچے رہائش کے معاملات میں
صبر اور برداشت سے کام لے سکتی ہیں تو اس سے شادی کرنے پر راضی ہو سکتی ہیں ۔اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے۔
“اگر وہ غریب ہوں گے تو اللہ اپنے فضل سے انہیں غنی کر دے گا۔”
النور 24:32
بعض سلف اس آیت کے مطابق رزق کی تلاش میں نکاح کرتے تھے۔ لیکن اگر خاتون کو لگتا ہے کہ وہ زندگی میں کچھ مشکلات برداشت نہیں کر پائیں گی تو اس مرد سے شادی سے انکار کرنے میں کوئی حرج نہیں ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے، جب معاویہ رضی اللہ عنہ نے فاطمہ بنت قیس رضی اللہ عنہا کو شادی کی تجویز پیش کی تو، نصیحت کی:” ان سے شادی نہ کرنا۔ وہ فقیر ہے اور ان کے پاس پیسہ نہیں ہے۔ “سنن مسلم حدیث نمبر 1480
اور شادی کے رشتے کے بغیر کسی بھی نا محرم عورت سے میل ملاقات بات چیت اس سے کوئی رشتہ رکھنا جائز نہیں۔ اس لیے انسان کو روزے رکھ کر اور نگاہ نیچی رکھ کر اپنے نفس پر قابو پانا چاہیے۔نگاہ نیچی رکھنے کا حکم اس لیے کیونکہ اللہ جانتا تھا کہ مسلم خواتین تو پردہ کر ہی لیں گی۔لیکن غیر مسلم نہیں۔خصوصا جب مرد کسی مغربی ملک میں مقیم ہو گا تو کیسے فتنے سے بچے گا۔کیونکہ شریعت الہی صرف مسلم ممالک کے لیے نہیں۔مسلمان کسی بھی خطے میں پیدا ہوا ہو کسی بھی ملک کا رہائشی ہو اسے اسلام کے قوانین و احکام پر ہی عمل کرنا ہے۔کسی مغربی ملک یا مسلم ملک میں وہ یہ اصول بھول کر ہر نیم برہنہ یا برہنہ عورت کو ریپ کر کے جواز یہ نہیں پیش کر سکتا کہ اس عورت کے لباس یا رویے نے مجھے مجبور کیا اس لیے مجھ سے یہ گناہ ہوا قصور سارا اس کا ہے اسے سزا دی جائے۔کیونکہ قرآن و حدیث کے مطابق مرد ہو یا عورت افضل وہی ہے جواپنی عزت کی حفاظت کرے۔
“اللہ کے نزدیک تم میں سب سے زیادہ عزت والا وہ ہے جو تمہارے اندر سب سے زیادہ پرہیزگار ہے۔ یقیناً اللہ سب کچھ جاننے والا اور باخبر ہے ”۔ الحجرات 13
“مسلمان مردوں کو حکم دو اپنی نگاہیں نیچی رکھیں اور اپنی شرمگاہوں کی حفاظت کریں یہ اُن کے لیے بہت اچھا ہے بےشک اللہ کو اُن کے کاموں کی خبر ہے”۔النور 30
“یقیناً ایمان والوں نے فلاح حاصل کرلی . جو اپنی نماز میں خشوع کرتے ہیں . جو لغویات سے منہ موڑ لیتے ہیں . جو زکوٰة ادا کرنے والے ہیں . جو اپنی شرمگاہوں کی حفاﻇت کرنےوالےہیں. بجز اپنی بیویوں اور ملکیت کی لونڈیوں کے یقیناً یہ ملامتیوں میں سے نہیں ہیں. جو اس کے سوا کچھ اور چاہیں وہی حد سے تجاوز کرجانے والے ہیں۔” المومنون
35سورةالمعارج .
اور اللہ تعالی نے فرمایا ” اور جو لوگ اپنی شرم گاہوں کی (حرام سے) حفاظت کرتےہیں . ہاں ان کی بیویوں اور لونڈیوں کے بارے میں جن کے وه مالک ہیں انہیں کوئی ملامت نہیں . اب جو کوئی اس کے علاوه (راه) ڈھونڈے گا توایسے لوگ حد سے گزر جانے والے ہوں گے . اور جو اپنی امانتوں کا اور اپنے قول و قرار کا پاس رکھتے ہیں . اور جو اپنی گواہیوں پر سیدھے اور قائم رہتے ہیں . اور جو اپنی نمازوں کی حفاﻇت کرتےہیں . یہی لوگ جنتوں میں عزت والے ہوں گے . “
عورت کو پردہ کروانے کا حکم دینے سے پہلے مردوں کو خود نگاہ نیچی رکھنے اورشرمگاہ کی حفاظت کا حکم دیا پھر فرمایا:
اور اللہ تعالی نے فرمایا ” مسلمان مردوں سے کہو کہ اپنی نگاہیں نیچی رکھیں، اور اپنی شرمگاہوں کی حفاﻇت رکھیں۔یہی ان کےلئےپاکیزگی ہے،لوگ جوکچھ کریں اللہ تعالیٰ سب سےخبردارہے . مسلمان عورتوں سے کہو کہ وه بھی اپنی نگاہیں نیچی رکھیں اور اپنی عصمت میں فرق نہ آنے دیں اور اپنی زینت کو ظاہرنہ کریں،سوائےاس کےجوظاہرہےاوراپنےگریبانوں پراپنی اوڑھنیاں ڈالےرہیں،اوراپنی آرائش کو کسی کے سامنے ظاہرنہ کریں،سوائےاپنےخاوندوں کےیااپنےوالدکےیااپنےخسرکےیااپنےلڑکوں کےیااپنےخاوندکےلڑکوں کےیااپنےبھائیوں کےیااپنےبھتیجوں کےیااپنےبھانجوں کےیااپنےمیل جول کی عورتوں کےیاغلاموں کےیاایسےنوکرچاکرمردوں کے جو شہوت والے نہ ہوں یا ایسے بچوں کے جو عورتوں کے پردے کی باتوں سے مطلع نہیں۔ اور اس طرح زور زور سے پاؤں مار کر نہ چلیں کہ ان کی پوشیده زینت معلوم ہوجائے، اے مسلمانو! تم سب کے سب اللہ کی جناب میں توبہ کرو تاکہ تم نجات پاؤ . ” ( اس آیت میں نگاہیں نیچی رکھنے کی فضیلت ہے ) ۔
وقال تعالى (( وَالْحَافِظِينَ فُرُوجَهُمْ وَالْحَافِظَاتِ وَالذَّاكِرِينَ اللَّـهَ كَثِيرًاوَالذَّاكِرَات ِأَعَدَّاللَّـهُ لَهُم مَّغْفِرَةً وَأَجْرًاعَظِيمًا ﴿٣٥﴾ )) سورةالأحزاب .
اور اللہ تعالی نے فرمایا ” اپنی شرمگاه کی حفاﻇت کرنےوالےمرداورحفاﻇت کرنےوالیاں بکثرت اللہ کاذکرکرنےوالےاورذکرکرنےوالیاں ان (سب کے) لئےاللہ تعالیٰ نے (وسیع) مغفرت اوربڑاﺛواب تیارکررکھاہے.”
وَأَمَّامَنْ خَافَ مَقَام َرَبِّهِ وَنَهَى النَّفْس َعَنِ الْهَوَىٰ ٤٠ فَإِنَّ الْجَنَّةَهِيَ الْمَأْوَىٰ ٤١ سورةالنازعات .
ہاں جو شخص اپنے رب کے سامنے کھڑے ہونے سے ڈرتا رہا ہوگا اور اپنے نفس کو خواہش سے روکا ہوگا . تو اس کا ٹھکانا جنت ہی ہے.”
وقال تعالى وَلِمَنْ خَافَ مَقَام َرَبِّهِ جَنَّتَانِ سورةالرحمن .
اور اللہ تعالی نے فرمایا ” اور اس شخص کے لیے جو اپنے رب کے سامنے کھڑا ہونے سے ڈرا دو جنتیں ہیں. “
سہل بن سعد رضی اللہ عنہ رسول اللہﷺ سے بیان کرتے ہیں کہ آپﷺ نے ارشاد فرمایا: ’’جو شخص مجھے اپنی زبان و شرم گاہ کی ضمانت دے۔ (کہ ان کو ناجائز استعمال نہیں کرے گا)، تو میں اس کے لیے جنت کی ضمانت دیتا ہوں۔” البخاري | المصدر : صحيح البخاري| الصفحة أو الرقم :6474 | خلاصة حكم المحدث : صحيح .
“جس شخص کو اس کی زبان اور اس کی شرم گاہ کے شر سے بچالیا وہ جنت میں داخل ہوگا‘‘۔
الراوي : أبو هريرة | المحدث : الألباني | المصدر : صحيح الترمذي| الصفحة أو الرقم : 2409 | خلاصة حكم المحدث : حسن صحيح
قصہ یوسف میں فرمایا
“بیشک یہ بہت ہی بے عزت ہوگا . یوسف نے دعا کی کہ اے میرے پروردگار! جس بات کی طرف یہ عورتیں مجھے بلا رہی ہیں اس سے تو مجھے جیل خانہ بہت پسند ہے، اگر تو نے ان کا فن فریب مجھ سے دور نہ کیا تو میں تو ان کی طرف مائل ہو جاؤں گا اور بالکل نادانوں میں جا ملوں گا . ”
ابوہریرۃ رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہﷺ نے ارشاد فرمایا: ’’سات آدمی ہیں، جن کو اللہ سبحانہ وتعالیٰ اپنے سائے میں جگہ دے گا۔ جس دن اس کے سائے کے علاوہ کوئی اور سایہ ہی نہیں ہوگا۔ عدل وانصاف کرنے والا بادشاہ‘‘۔ اسی حدیث میں ہے کہ (ان سات آدمیوں میں سے)’’ ایک وہ آدمی ہوگا جس کو خاندانی و جاہت اور حسن وجمال والی عورت گناہ کی دعوت دے اور وہ جواب میں کہے کہ میں اللہ سبحانہ وتعالیٰ سے ڈرتا ہوں‘‘۔ (لہٰذا میں گناہ کا ارتکاب نہیں کرسکتا ہوں)۔”
ایک اور روایت میں جب دوران سفر تین لوگ غار میں پھنس جاتے ہیں تو اپنی نیکیاں یاد کر کے اللہ سے دعا کرتے ہیں ایک نے(دعا کرتے ہوئے) کہا کہ اے اللہ سبحانہ وتعالیٰ!تو جانتا ہے کہ میں اپنے چچا کی بیٹیوں میں سے ایک عورت سے شدید محبت کرتا تھا۔
جیسا کہ مردوں کو عورتوں سے ہوتی ہے۔ پس اس (عورت) نے کہا: کہ تو اس کے قریب نہیں آسکتا ہے۔ یہاں تک کہ سو دینار اس کو دے۔ پس میں نے کوشش کر کے (سودینار) جمع کرلیے۔ پس جب میں (اپنی نفسانی خواہش پوری کرنے کے لیے) اس کی دونوں ٹانگوں کے درمیان بیٹھ گیا۔ تو اس نے کہا: اللہ سبحانہ وتعالیٰ سے ڈر، اور اس مہر کو ناحق مت توڑ۔ ( اس کی بات نے مجھ پر خوف طاری کردیا) پس میں کھڑا ہوگیا، اور اس کو چھوڑ دیا۔ یا اللہ سبحانہ وتعالیٰ ! اگر میں نے یہ کام تیری رضا کےلیے کیا تھا۔ تو یہ نازل شدہ مصیبت ہم سے دور کر۔ راوی نے کہا وہ مصیبت ان سے دو تہائی دور ہوگئ۔۔‘‘ آخر حدیث تک۔۔
عبدالله بن عمر | المحدث : البخاري | المصدر : صحيح البخاري| الصفحة أو الرقم :2215 | خلاصة حكم المحدث : صحيح .
ابوہریرۃ رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا: ’جب عورت پانچ نمازیں ادا کرے، رمضان المبارک کے روزے رکھے، اپنی شرمگاہ کی حفاظت کرے، اور اپنے خاوند کی اطاعت بجا لائے۔ تو وہ جنت کے دروازوں میں سے جس سے چاہے داخل ہوجائے۔
ان سب آیات و احادیث سے بالکل واضح ہے کہ مرد ہو یا عورت افضل وہی ہے جو اپنی نگاہ نیچی رکھے اور اپنی عصمت کی حفاظت کرے۔اگر اسے کوئی دعوت گناہ دے تو اللہ کے ڈر سے اس سے بچے جیسے یوسف علیہ السلام اور اس شخص نے کیا جو غار میں پھنس گیا تھا۔اگر کوئی اپنے گناہ کا الزام صنف مخالف کے سر دھر کر خود کو بری الذمہ قرار دینے کی کوشش کرتا ہے تو وہ صرف اپنے آپ کو دھوکہ دیتا ہے۔کسی بھی وجہ سےشادی نہ ہونا، کسی عورت/ مرد کا دوستی کی آفر کرنا، معاشرتی بے راہروی ، معاشرے میں غیر اسلامی کلچر کچھ بھی ایسا نہیں جو زنا کو جسٹیفائی کر سکے۔کیونکہ خود اللہ فرماتا ہے کہ ان سب سے بچنے کے لیے نگاہ نیچی رکھو اور روزے رکھو۔عورتیں پردہ کریں زیب و زینت ظاہر نہ کریں۔اور مردوں کو اپنے گھر کی اور دوسری مسلمان خواتین کو پردہ کروانے کا حکم ہے۔اس لیے اپنے گھر کی خواتین کو پردہ کروانے ان کی ذمہ داری ہے۔کیونکہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو مخاطب فرما کر مردوں پر یہ فرض عائد کیا گیا ہے کہ اپنے آپ کو اور اپنے اہل خانہ کو جہنم کی آگ سے بچاو۔
دوسری شادی کے لیے جائز شرعی وجوہات
(نشوز) بیوی کی طرف سے شوہر کی نافرمانی
’’جن عورتوں کے بارے میں تم نافرمانی دیکھو، انہیں نصیحت کرو، بستر الگ کر لو، نہ۔مانیں تو انہیں مارو۔”النساء 34
اس آیت کی تفسیر اور احادیث میں یہ بتایا گیا ہے کہ ایسے نہ مارو کہ جسم پر نشان پڑ جائے چہرے پر نہ مارو۔بلکہ مسواک سے بازو پر ہلکی ضرب لگاو۔یہ آیت صرف نافرمانی کی صورت میں آخری حل کے طور پر بیوی کو ہلکی ضرب لگانے کی اجازت دیتی ہے۔ہر وقت اسے پیٹنے اس پر تشدد کی نہیں۔اور اپنی بیوی کی نا فرمانی یا جسمانی ضرورت پوری نہ کرنے کی وجہ سے کمرہ الگ کرنا یا بات چیت چھوڑنا تین دن سے زیادہ نہ ہو۔
” لیکن اگر وہ فرمانبرداری کی طرف لوٹ جائیں تو ان کے خلاف (غضب کے) ذرائع تلاش نہ کریں۔ بے شک اللہ سب سے بلند اور عظیم ہے”
النساء 34
فتاوٰی لجنۃ الدائمۃ (20/261)
شیخ عبد العزیز ابن باز، شیخ عبد العزیز آل الشیخ، شیخ صالح الفوزان، شیخ بکر ابو زید۔ اختتامی اقتباس
میں اس شخص کے بارے میں ہے جس نے اپنی بیوی کو اس کی نافرمانی کی وجہ سے تین ماہ سے زیادہ چھوڑ دیاجیسے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے چھوڑا تھا، نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک ماہ تک بیگنات سے تنہائی اختیار کی تھی وہ بھی جادو کے زیر اثر آپ سمجھتے تھے کہ ان کے ہاں ہو آئے مگر درحقیقت نہیں جاتے تھے،تو وہ کمرہ الگ کر سکتا ہے
لیکن بات نہ کرنے کے معاملے میں تین دن سے زیادہ ترک کرنا یا اس سے کنارہ کشی کرنا جائز نہیں، کیونکہ حدیث انس میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے صحیح مروی ہے۔ ابن مالک رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ کسی مسلمان کے لیے جائز نہیں کہ” وہ اپنے بھائی سے تین دن سے زیادہ بات چیت چھوڑے”۔ اسے امام بخاری اور مسلم نے اپنی صحیح میں اور احمد نے اپنی مسند میں روایت کیا ہے۔
اگر وہ نافرمانی نہ کرے پھر اس سے کمرہ الگ کرنا حرام یے۔
شوہر کو دونوں بیویوں کے ساتھ وقت کی برابر تقسیم کرنی چاہیے۔اگر وہ ایک سے ناراض ہے تو بھی اسے اس کی باری پر دوسری کے ہاں رہنے کی اجازت نہیں۔چاہے وہ اس کے ساتھ قربت اختیار نہ کرے مگر اس کی باری پر اس کے ساتھ ہی دن گزارے۔
ابن ماجہ (1850) نے حکیم بن معاویہ سے اپنے والد سے روایت کی ہے کہ ایک آدمی نے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے پوچھا: عورت کے شوہر پر کیا حقوق ہیں؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اسے اس طرح کھلائے جیسا کہ وہ خود کھلاتا ہے اور جیسا وہ خود پہناتا ہے اسے پہنائے اور اسے چہرے پر نہ مارے۔
نہ اس پر لعنت بھیجے، اور اسے گھر میں اکیلا چھوڑ کر باہر نہ جائے”۔
البانی نے صحیح ابن ماجہ میں رعایت کی ہے۔
شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمہ اللہ کہتے ہیں: ہمارے اصحاب کا قول ہے: مرد پر واجب ہے کہ وہ اپنی بیوی کے گھر میں چار راتوں میں سے ایک رات رہے۔ یہ رات کا قیام دو چیزوں کی ضمانت دیتا ہے: ایک یہ کہ وہ گھر میں اکٹھے ہوں گے اور دوسری یہ کہ بستر پر اکٹھے ہوں گے۔ اللہ کے الفاظ، “اپنے بستر الگ کر لو”
اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے کہ “چھوڑنا صرف مباشرت سے پرہیز کے معنی میں ہونا چاہیے” اس بات پر دلالت کرتا ہے کہ ایک ہی گھر میں رات گزارنا واجب ہے، چاہے بستر بانٹنے سے انکار ہی کیوں نہ ہو۔
امام احمد نے دن کو روزہ رکھنے والے اور رات کو قیام کرنے والے کے بارے میں کہا: اس سے معلوم ہوتا ہے کہ بیوی کے ساتھ رات گزارنا اور اس کے بستر میں شریک ہونا واجب ہے، اور بیوی کی نافرمانی کی صورت میں اس کے ساتھ مباشرت نہ کرے لیکن اسے اس سے آگے نہیں جانا چاہیے۔یعنی گھر ہی نہ چھوڑ جائے۔”
اقتباس المستدرک الاجمع الفتاویٰ (4/217)
سوم:
اگر ہم فرض کر لیں کہ کسی عورت کا شوہر اسے یہ کہہ کر سزا دینا چاہتا ہے کہ وہ کسی اور کمرے میں سونے جا رہی ہے، تو وہ اسے کو نصیحت کرنے کے بعد چھوڑ دے گا، اور ہم اوپر بیان کر چکے ہیں کہ ترک کرنا صرف مباشرت سے پرہیز کرنے سے ہو سکتا ہے۔ اب بھی اپنے گھر میں رات گزارے گا۔ اس بنا پر اس کا شوہر اسے گھر میں چھوڑ کر دوسری بیوی کے ساتھ رات گزار کر غلطی کرے گا۔
اوراگر یہ سزا کی بات نہ ہو۔ بلکہ وہ یہ سوچے کہ عورت بہنوں یا بچوں کے ساتھ رات گزارنا چاہتی ہے ۔
اگر وہ اس وقت گھر سے نکلے جو اس کی بیویوں میں سے کسی کے لیے مختص ہے، اگر وہ دن میں ہو، یا رات کے شروع میں، یا رات کے آخر میں جب لوگ عموماً اٹھ کر نماز کے لیے نکلتے ہیں۔ تو یہ جائز ہے، کیونکہ مسلمان نمازِ عشاء اور فجر کی نماز کے لیے طلوع فجر سے پہلے نکلتے ہیں، اور دن کے وقت روزی کمانے اور کام کرنے کے لیے نکلتے ہیں۔
لیکن اگر وہ دوسرے وقت باہر جاتا ہے، لیکن واپس آنے سے پہلے زیادہ دیر تک باہر نہیں رہتا، تو اس پر قضاء لازم نہیں، کیونکہ قضاء کا کوئی فائدہ نہیں۔لیکن اگر وہ باہر رہتا ہے، تو اس کا مطلب یہ ہے کہ اسے اس بیوی کے ساتھ رات گزارنے کی ضرورت نہیں تھی۔
چوتھا:
شوہر کو ان راتوں کی قضاء کرنی ہوگی جو اس نے اپنی بیوی کے ساتھ بغیر کسی معقول وجہ کے چھوڑی ہیں۔ لہٰذا اسے چاہیے کہ جتنی راتیں اس نے چھوڑی ہیں اس کے ساتھ رات گزارے، اور پھر اپنے وقت کو دونوں بیویوں میں تقسیم کر کے واپس چلا جائے۔
ابن قدامہ رحمہ اللہ نے کہا:
لیکن اگر وہ باہر رہتا ہے تو اسے اس کی ذمہ داری ادا کرنی چاہیے، قطع نظر اس کے کہ وہ کسی جائز وجہ سے رہا ہو، جیسے کام یا نظربند یا کسی اور جائز وجہ سے، کیونکہ اس کی غیر موجودگی کی وجہ سے وہ بیوی حقوق سے محروم رہی۔
المغنی (8/145) کا اختتامی اقتباس
ہماری نصیحت یہ ہے کہ لوگوں کے حقوق کی طرف توجہ کرتے ہوئے مسائل کو محبت اور ہم آہنگی کی فضا میں حل کیا جائے، لیکن اگر ایک بیوی اپنے ان دنوں کے حق سے دستبردار ہوجائے جب وہ اس سے ناراض تھا تو یہ اس کے اور شوہر کے لیے بہتر ہوگا۔ انہیں ایک دوسرے کو معاف کرنا چاہئے اور ایک دوسرے سے بات چیت کرنی چاہئے۔خاص کر چونکہ بعض علماء کا خیال ہے کہ جس بیوی پر ظلم ہوا ہے اس کا حق ادا ہو چکا ہے اور شوہر پر اس کی قضا نہیں ہے۔
اگر بیوی یہ شرط لگائے کہ اس کا شوہر دوسری بیوی نہ کرے تو یہ ایک صحیح شرط ہے اور اسے اس پر عمل کرنا چاہیے۔ اگر وہ دوسری شادی کرتا ہے تو بیوی کو نکاح منسوخ کرنے کا حق حاصل ہے۔
اس کی وجہ یہ ہے کہ بخاری (2721) اور مسلم (1418) کی روایت ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا: وہ شرائط جو پوری ہونے کی سب سے زیادہ مستحق ہیں وہ یہ ہیں۔ جس سے آپ کے لیے قربت جائز ہو جائے۔”
اور اس لیے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’مسلمان ان کے پابند ہیں۔سوائے اس شرط کے جو کسی چیز کو حلال کو حرام یا کسی حرام چیز کو حلال بناتی ہو۔”
اسے ترمذی حدیث نمبر ( 1352 ) اور ابو داود ( 3594 ) نے روایت کیا ہے۔ اسے البانی نے صحیح ترمذی میں صحیح قرار دیا ہے۔
یہ شرط کسی چیز کو حلال کو حرام نہیں بناتی۔ بلکہ یہ مرد کی طاقت کو محدود کرتی ہے اور بیوی کو نکاح فسخ کرنے کا حق دیتی ہے۔ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے زمانے میں بھی ایسے حالات پیدا ہوئے تھے۔
شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمہ اللہ
سے ایک ایسے شخص کے بارے میں پوچھا گیا جس نے ایک عورت سے شادی کی، تو اس نے یہ شرط رکھی کہ وہ دوسری بیوی نہ کرے اور نہ ہی بیوی کو اس کے گھر سے اپنے گھر منتقل کرے، اور وہ اپنی ماں کے ساتھ رہ سکے، اس پر شوہر نے شرائط مان کر نکاح کر لیا۔کیا وہ اس پر عمل کرنے کا پابند ہے اور اگر وہ ان شرائط کے خلاف جائے تو کیا بیوی کو نکاح فسخ کرنے کا حق ہے یا نہیں؟
شیخ نے جواب دیا: ہاں، یہ اور اس سے ملتی جلتی شرائط امام احمد اور دیگر صحابہ و تابعین جیسے عمر بن الخطاب، عمرو بن العاص، شریح القادی کےمذہب کے مطابق صحیح ہیں۔
اوزاعی اور اسحاق ،مالک کےمطابق یہ ہے کہ اگر شوہر دوسری شادی کرے یا لونڈی رکھے تو یہ شرط درست ہے اور بیوی کو حق حاصل ہے کہ وہ نکاح فسخ کردے
احمد کی رائے بھی یہی ہے۔
کیونکہ [بخاری و مسلم] البخاری میں ہے : شرائط جو کہ سب سے زیادہ پورا کرنے کی مستحق ہیں وہ ہیں جو قربت کی وجہ بن جاتی ہے۔( یعنی نکاح نامے میں لکھی گئی شرائط۔اس میں مہر کے علاوہ بھی جولائی لکھی گئی ہوں انہیں پورا کرنا فرض ہے)۔
عمر رضی اللہ عنہ ابن الخطاب نے کہا: حقوق ہیں۔
شرائط سے منسلک ہیں ۔” الفتاوی الکبریٰ، 3/90 سے آخر میں اقتباس۔
دوم:
یہ شرائط صرف اس صورت میں لاگو ہوتی ہیں جب ان پر عقد نکاح کے وقت اتفاق ہو۔ اگر وہ عقد نکاح کے بعد ہو جائیں تو یہ ایک وعدہ ہیں اور بیوی کو نکاح فسخ کرنے کا حق نہیں ، لیکن شوہر کو اپنا وعدہ پورا کرنا ہوگا، کیونکہ قرآن و حدیث وعدہ پورا کرنے کا حکم دیتے ہیں
: “اور پورا کرو عہد۔ بے شک عہد کے بارے میں سوال کیا جائے گا۔” الاسراء 17:34
نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی حدیث ہے:”مجھے چھ چیزوں کی ضمانت دیں اور میں آپ کو جنت کی ضمانت دوں گا
سچ بولو،جب وعدہ کرو تو پورا کرو، امانت دی جائے تو واپس کرو، ا0نی عصمت کی حفاظت کرو اپنی نظریں نیچی رکھواور اپنے ہاتھ روکو۔
(یعنی دوسروں کو نقصان نہ پہنچائیں)۔”
سنن احمد 2225
البانی نے اسے حسن قرار دیا ہے۔
صحیح الجامع (نمبر 1018)”۔ اور
کیونکہ وعدہ خلافی منافقوں کی صفات میں سے ہے۔”
مندرجہ بالا آیات و احادیث و فتاوی سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ مرد چار شادیاں کر سکتا ہے مگر عدل و کفالت پوری کرنے کی شرائط کے ساتھ۔اور اگر عورت نکاح نامے میں مزید شادیاں نہ کرنے کی شرط لکھوا لے اور مرد اس پر راضی ہو کر نکاح کرے اورشادی کے بعد دوسری شادی کر لے تو وہ عہد توڑنے کا مرتکب ہوتا ہے ۔پہلی بیوی چاہے تو نکاح ختم کر سکتی ہے۔
دوسری یا چار شادیاں کرنے کے لیے ضروری ہے کہ مرد جسمانی اور مالی طور پر اس قابل ہو ورنہ نہ تو وہ عدل کر سکے گا نہ ہی کفالت۔ چونکہ مرد پر تمام بیویوں کا نان نفقہ انہیں استطاعت بھر برابر وقت، پیسہ ، گھر وغیرہ دینا فرض ہے اگر مرد یہ شرائط پوری نہیں کرتا تو آیات قرآنی علماء اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی حدیث کے مطابق اسے ایک بھی شادی نہیں کرنی چاہیے۔اس دور میں بھی اور آج بھی بیشترخلع کے کیسیز کی بنیادی وجہ یہی ہوتی ہے کہ مرد اخراجات پورے نہیں کرتا۔اگر والدین کو اپنی بیٹی کی شادی کے بعد اس کے، بچوں، شوہر اور سسرال کے اخراجات بھی پورے کرنے ہیں تو بہتر ہے بیٹی کی شادی ہی نہ کریں۔
کوئی شخص یہ نہیں چاہتا کہ کسی بے روزگار شخص کو اپنی بیٹی اس امید پر دے دے ہ وہ شادی کے بعد غنی ہو جائے ۔ کوئی چھوٹا موٹا کام کر کے اپنا اور اہل خانہ کا خرچہ اٹھانا مرد کی ذمہ داری ہے۔اگر مرد محنت کرتا ہو جاب بزنس کرتا ہو تبھی اس کی روزی میں برکت ہو گی۔ گھر بیٹھے نکاح کر کے یہ توقع رکھنا کہ چھت پھٹے گی اور من و سلوی اترے گا یا بیوی جہیز میں گھر گاڑی بزنس سب لائے ایسا قرآن و حدیث میں کہیں مذکور نہیں۔جہیز کا اسلام میں کوئی تصور نہیں گھر بنانا اس میں ضروریات زندگی مہیا کرنا مرد کی ذمہ داری ہے۔آج بھی بلوچستان اور کے پی میں پشتون بلوچ قبائل میں یہ رواج ہے کہ لڑکا یا اس کے گھر والے پہلے ایک کمرہ کچن باتھ یا اگر استطاعت رکھتے ہوں تو گھر فرنشڈ کر کے لڑکی والوں کو دکھاتے ہیں انہیں پسند نہ آئے تو وہ تبدیلیاں کرواتے ہیں۔پھر بارات کے کھانے سے لے کر دلہن کے جوڑے تک کا سارا خرچہ لڑکا برداشت کرتا ہے۔اور دلہن کی والدہ کو سونے کی کوئی چیز اور بکری گائے اونٹ بھی دیتا ہے۔کسی بھی موقعہ پر لڑکی والے کوئی پیسہ خرچ نہیں کرتے خواہ بچوں کی پیدائش ہو یا کوئی اورایونٹ۔پوری زندگی شوہر کی ذمہ داری ہے کہ ہر چیز مہیا کرے۔اس کے برعکس سندھ اور پنجاب میں آج بھی ہندوانہ کلچر ہے کہ ٹرک بھر کر جہیز، سسرال کے جوڑے زیور بھی دیں اور پھر ہر عید، بچے کی پیدائش، ایونٹ حتی کہ موت پر بھی سارے سسرال کو تحائف دیے جائیں یوں والدین بیٹی پیدا کرنے کا تاوان زندگی بھر بھرتے ہیں۔ جو کہ بالکل غیر اسلامی ہے۔
شادی کا مقصد کوئی کاروبار کرنا نہیں۔اس لیے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی حدیث پر عمل کرتے ہوئے چار چیزیں لڑکے لڑکی میں دیکھی جائے دین کو ترجیح دی جائے۔مہر نان نفقہ اور دیگر کو مرد کی استطاعت کے مطابق سیٹ کیا جائے۔اور ایک دوسرے کی سپورٹ مدد کے ساتھ زندگی گزاری جائے تبھی گھر اور معاشرہ پرسکون ہوں گے۔ جب حقوق ادا نہیں کیےجاتے اور فرائض سے غفلت برتی جاتی ہے تبھی معاشرے میں فساد اور بے سکونی پھیلتی ہے۔اس لیے میری سب کنوارے لڑکے لڑکیوں سے درخواست ہے کہ شادی سے پہلے قرآن ، حدیث، سیرت النبی میں ازدواجی زندگی کے متعلق تفصیل سے پڑھیں کیونکہ یہ کوئی فینٹسی ورلڈ نہیں بلکہ ذمہ داری کا کام ہے۔عورت کو شوہر اور بچوں کی ذمہ داری اٹھانی ہے۔اور مرد کو بیوی بچوں کی کفالت دیکھ بھال کی۔اور جو لوگ شادی شدہ ہیں وہ بھی ان سب کا مطالعہ کریں جہاں کوئی مسئلہ درپیش ہو بجائے والدین، رشتے داروں، دوست احباب کے قرآن حدیث سیرت النبی اور جید علمائے دین سے رجوع کریں۔اور دوسرے فریق کو سہولت پہنچائیں وقت دیں اس کے متعلق حسن ظن رکھیں جھگڑا کر کے ایک دوسرے کے لیے کینہ کدورت دل میں رکھ کر ازدواجی زندگی کو جہنم نہ بنائیں۔