کربلا؟؟؟؟
ہالینڈ(ڈیلی روشنی نیوز انٹرنیشنل )یہ صرف ایک واقعہ کا نام یا ماضی ، حال و مستقبل میں حق و باطل کے درمیان سب سے بڑے معرکے کا نام نہیں بلکہ وجہ بقائے اسلام ھے۔
پر ہم نے کیا اس کے وقوع پذیر ہونے کی وجہ کبھی جاننے کی کوشش کی ؟؟ یا اس سے اسلام کو بقا کیسے ملی؟
کوئی عالم تو نہیں بس طالب علم ھوں جس نے اپنے مرشد کریم کی نگاہ کرم سے جو سمجھا وہ بیان کرنے کی کوشش ھے کہ ہم وجہ کربلا کو جان سکیں اور اپنا احتساب کریں کہ کیا ہم اس شہدائے کربلا کی شہادت کی وجہ ہیں یا انکی بقائے اسلام کی کاوش کا نتیجہ؟؟؟
چند مندرجہ ذیل احادیث نبوی ﷺوالہٖ اس واقعہ کربلا کے وقوع پذیر ہونے کی وجہ کو سمجھنے اور ہمارے انفرادی و اجتماعی احتساب بحیثیت امت کے کرنے میں مدد گار ثابت ہونگی:-
نبی کریم ﷺ ایک دن باہر تشریف لائے اور شہداء احد پر نماز جنازہ ادا کی ، جیسے مردوں پر ادا کی جاتی ہے ۔ پھر آپ منبر پر تشریف لائے اور فرمایا کہ میں تمہارے آگے جاؤں گا ، میں تمہارے حق میں گواہ رہوں گا ۔ میں اب بھی اپنے حوض ( کوثر ) کو دیکھ رہا ہوں ۔ مجھے دنیا کے خزانوں کی کنجی عطا فرمائی گئی ہے یا ( آپ نے یوں فرمایا ) «مفاتيح الأرض» یعنی زمین کی کنجیاں دی گئی ہیں ۔ ( دونوں جملوں کا مطلب ایک ہی ہے ) ۔ خدا کی قسم ! میں تمہارے بارے میں اس سے نہیں ڈرتا کہ تم میرے بعد شرک کرنے لگو گے بلکہ مجھے اس کا ڈر ہے کہ تم دنیا کے لیے حرص کرنے لگو گے( یعنی دنیا کی محبت (انا حسد لالچ تکبر طاقت و دولت کی طلب و نشہ) میں گرفتار ھو جاؤ گے۔
Sahih Bukhari#4085
کتاب غزوات کے بیان میں
Status: صحیح
جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ میں نے حج کے موقع پر عرفہ کے دن رسول ﷺوالہٖ کو دیکھا، آپ اپنی اونٹنی قصواء پر بیٹھے خطبہ دے رہے تھے۔ آپ ﷺوالہٖ نے فرمایا: اے لوگو! میں نے تم میں ایسی چیز چھوڑی ہے جسے تم پکڑ لو گے تو گمراہ نہیں ہوگے وہ ہے اللہ کی کتاب اور میرے گھر والے میرے اہل بیت۔
Al-Silsila#2504
علم، سنت اور حدیث نبوی کا بیان
Status: صحیح
’’حضرت زید بن ثابت رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ حضور نبی اکرم ﷺ نے فرمایا : بے شک میں تم میں دو نائب چھوڑ کر جا رہا ہوں. ایک اللہ تعالیٰ کی کتاب جو کہ آسمان و زمین کے درمیان پھیلی ہوئی رسی (کی طرح) ہے اور میری عترت یعنی میرے اہل بیت اور یہ کہ یہ دونوں اس وقت تک ہرگز جدا نہیں ہوں گے جب تک یہ میرے پاس حوض کوثر پر نہیں پہنچ جاتے۔‘‘ اس حدیث کو امام احمد بن حنبل نے روایت کیا ہے۔
الحديث رقم 2 : أخرجه أحمد بن حنبل في المسند، 5 / 181، الرقم : 21618، و الهيثمي في مجمع الزوائد، 9 / 162.
آئیں ہم اپنا احتساب کریں کہ کیا ہم دنیا کی محبت ( انا تکبر بغض کینہ حسد طاقت و دولت کی طلب) میں گرفتار ہیں یا پھر قرآن اور اہل بیت اطہار علیہم السلام کو تھامیں ھوئے انکی پیروی و محبت کرکے آقا کریم ﷺوالہٖ کے حکم کو مان رہیں ہیں؟؟