کرمنا لوجی
تحریر۔۔۔۔۔ڈاکٹر نگہت حیات(Ph.D)
(قسط نمبر2)
ہالینڈ(ڈیلی روشنی نیوز انٹرنیشنل ۔۔۔ کرمنا لوجی ۔۔۔ تحریر۔۔۔۔۔ڈاکٹر نگہت حیات پی ۔ایچ ۔ڈی۔۔۔قسط نمبر2) حق بجانب سمجھتا ہے بعد میں غلط صحبت کی وجہ سے وہ خود بھی قتل ہو جاتا ہے۔
ایک شقی القلب بھائی چھوٹی بہن کو اس لئے قتل کرتا ہے کہ اسکے کزن کے چھوٹے بھائی نے لڑکی کو گانوں کی کیسٹ کیوں دی ۔ اور بہن کو گھر کے کمرے میں د فن کردیا۔ رشتہ دار اس پر خاموش رہے تو اسے معاشرے کی روایات کا غلبہ کہہ سکتے ہیں۔
قتل کے واقعات میں ان دونوں قتل کے فرق کو سمجھنا بھی کر منالوجی ہے۔ جرم کی وجوہات اور عوامل کے مطا العے کے لئے مقداری طریقوں پر انحصار کرنا پڑتا ہے۔
کر منا لوجی کی اصطلاح ایک اطالوی وکیل نے 1985 میں ایجاد کی ۔ بعد میں فرنچ اینتھر اپالوجسٹ ہال ٹوپی فارڈ نے فرانسیسی اصطلاح کر مینلاگ وضع کی۔
جرم کی تاریخ قدیم ترین ہے ۔ ابتداء میں جب کوئی کام ضرورت نا پسندیدہ طریقے سے سرانجام دیا جاتا تھا مثلاً بھوک لگتے ہی کچھ کھانے کو نہیں ملا تو ضرورتا چوری کرکے کھا گئے بعد میں ان سے معمولی جرم کی بنیاد پڑگئی۔
اقوام عالم کی تاریخ کے صفحات پڑ ھے جائیں تو ہر جگہ طاقت کے مظاہرے کے لئے حاکمیت منوانے کے لئے ، کمزوری چھپانے کے لئے، لالچ اور حرص کی بناء پر ملکیت کو قبضے میں لینے کے لئے خود کو برتر منوانے کے لئے ،حسد نفرت کی وجہ سے ایک دوسرے کے خلاف لڑتے تھے ان سب میں مشترک عنصر دشمنی ہے۔
جب ذاتی دشمنی کا نتیجہ جنگ نکلتا تو مقتول کی فیملی خود کو اس کا پابندسمجھتی تھی کہ مقتول کا بدلہ لے اور یوں یہ سلسلہ نسل در نسل چلتا رہتا۔ آج بھی ایشیاء میں پاکستان اور افغانستان کے دیہاتی علاقوں اور پسماندہ علاقوں میں اس طرح کے قتل اور انتقام جو جرم کا ردعمل ہیں عام ہیں۔
اپنے دشمنوں کو ٹارچر کرنے کے لئے انتہائی تکلیف دہ طریقے اختیار کئے جاتے تھے مثلا خاندانوں کے بچوں کا اغوا، جوانوں کے ، دوسرے کے خاندان کی عورتوں پر بہتان اور بہتان تراشی سے ان خاندانوں کو بدنام کرنا ، صلح کے لئے عورت سے بحیثیت خون بہا انتقام کے لئے شادی کرنا وغیرہ وغیرہ۔
چونکہ جرم سے کئی گھرانے بلکہ پوری سوسائٹی میں بگاڑ پیدا ہوتا ہے۔ اس لئے زیادہ تر لوگ ڈسٹرب ہوتے ہیں۔
ذاتی دشمنیوں میں زیادہ تر وجوہات میں جائیداد دولت اور عورت، ذاتی انا اور حرص کی بنیاد پر ہوتی ہیں۔ اس کے علاوہ یہ تاثر کہ دوسرا حریف انتقام لے گا خوف کو جنم دیتا ہے ۔ اس لئے مقتول کی فیملی بدلہ لینے کو جاری رکھتی ہے اور لڑائی نسل درنسل جاری رہتی ہے۔
کرمنالو جی کی تاریخ یہ ہے کہ ابتداء سے ہی جرائم وجود میں آئے۔ پہلے تو ایک دوسرے کی روشمنی میں سامنے آ کر ایک دوسرے کو مار دیا جاتا اور کوئی معمولی سی بات بھی تنازع کا سبب بن جاتی پھر سزا کے طریقہ کار پیش مقرر ہو گئے لیکن کچھ عرصے بعد ہی محسوس ہوئی کہ آیا جس شخص کو سزا دی گئی وہ اس کے جرم کے مطابق ہے یا نہیں اور سب سزائیں ایک جیسی تو نہیں ہوسکتیں۔ جس نے چوری کی کیا اس کی سزا کسی قاتل کے برابر ہوسکتی ہے۔ کیا کھانے پینے کی چوری کرنے والا گھر کی نقدی اور سامان چرانے والے کے مساوی ہوسکتا ہے۔
ہر معاشرہ کے لئے جرم اور مجرمانہ عناصر کا مسئلہ سوہان روح رہا ہے۔ مگر ابتدائی دور سے لوگ جرائم کی طرف راغب ہوتے رہے جب کوئی قانون بنایا جا تا تھا اور اس جرم کی وضاحت کی جاتی تھی اور انہیں قوانین سے سزاؤں کی ابتداء ہوئی کبھی جرم کی سزا کے طور پرخون بہاکے لئے کوئی رقم متعین کر دی جاتی لیکن قبائل اور خاندانی روایات کے خلاف بھی یہ سلسلہ جاری رہا۔ مگر سزا سے پہلے زیادہ تر سزا کے متعلق وضاحت کی جاتی ہے جبکہ
پہلے یہ بتائے بغیر اور یہ طے کئے بغیر کہ مجرم کو جرم کے مطابق سزا دی جائیگی مجرم کوسزادی جاتی تھی۔ 1750 تا 1792 قبل مسیح تک جرم کو مذہب کے حوالے سے دیکھا جاتا تھا۔ مثلا مجرم نے جرم کیا اور اس سے دیوتا نا خوش ہوئے اس لئے دیوتا کو خوش کرنے کے لئے مجرم اور اس کے رشتہ داروں اور دوستوں، واقف کاروں کے لئے
مختلف قسم کی سزائیں تجویز کی جاتی تھیں ۔ اور مجرم کو صفائی پیش کرنے کا موقع نہیں دیا جاتاتھا۔
درحقیقت ابتدائی کوڈ آف لازرومن عہد میں نشوونما پائے آج بھی جدید سسٹم کورومن سسٹم کہا جاتا ہے۔
چونکہ رومن سسٹم زیادہ اثر انداز ہے اس لئے قوانین کی اصطلاحات زیادہ تر لاطینی زبان میں ہیں۔
رومنز نے سیکولر نظر یہ اپنایا اور مجرمانہ ایکشنز کو دیکھتے ہوئے جرائم کو دیوتا کی مخالفت یاسوسائٹی کے مقابل تصور کیا گیا ۔ اسی لئے جرائم کی سزائیں منتخب کرناحکومتی ذمہ داری سمجھی جاتی تھی تا کہ معاشرے کی تنظم ہو سکے۔
مغرب میں سب سے زیادہ قابل قبول نظریہ عیسائیت تھا اس میں ہی کرمنالوجی متعارف بھی ہوئی اور ضرورت نے اسے بڑھایا۔
رومنز کے زوال کے ساتھ ایک مضبوط مرکزی قوت کی ضرورت محسوس ہونے لگی ۔ اس دور میں مجرمانہ افعال کو شیطانی کام سمجھا جاتا تھا اور جرم کو گناہ کے مساوی سمجھا جاتا تھا۔ پرانے وقتوں کے برعکس جب سزائیں دیوتاؤں کو خوش کرنے کے لئے دی جاتی تھی۔ اب کسی بھی جرم کی سزا کو خدا کا کام کہا جانے لگا جتنی سخت سزاہوتی اتنا ہی مجرم شیطان کے غلبے سے آزاد ہو جاتا اور گناہ کے جرم سے آزاد۔
بشکریہ ماہنامہ قلندر شعور اگست2013