Daily Roshni News

کرو موپیتھی۔۔۔تحریر ۔۔۔ ڈاکٹر مقصود الحسن عظیمی۔۔۔۔قسط نمبر (1)

کرو موپیتھی

رنگوں کی رنگینی

تحریر ۔۔۔ ڈاکٹر مقصود الحسن عظیمی

قسط نمبر (1)

انتخاب۔۔۔ محمد جاوید عظیمی نگران مراقبہ ہال ہالینڈ

ہالینڈ(ڈیلی روشنی نیوز انٹرنیشنل ۔۔۔ رنگوں کی رنگینی۔۔۔ قسط نمبر1۔۔۔بشکریہ ماہنامہ روحانی ڈائجسٹ اگست 2019 )کائنات اور کائنات میں بسنے والی تمام انواع اور انواع کائنات کے تمام افراد کی تخلیق کا بنیادی مصالحہ اربعہ عناصر یعنی آگ، ہوا، پانی اور مٹی کو مانا جاتا رہا ہے۔ سائنس کی ترقی کے ساتھ ساتھ اس نظریہ میں ترمیم ہوتی رہی اور موجودات یعنی جمادات، نباتات اور حیوانات کے مادی وجود کو ایٹموں سے تشکیل پانے والے عناصر کامرہونِ منت قرار دیا جانے لگا۔ مزید تحقیق سے یہ بات سامنے آئی کہ ناقابل تقسیم جزو یعنی ایٹم بذاتِ خود کئی اجزاء پر مشتمل ہے۔ ان اجزاء کو الیکٹرون، نیوٹرون اور پروٹون کہا گیا۔ تحقیق جاری رہی اور یہ بات سامنے آئی کہ یہ ایٹمی ذرات توانائی کی لہروں سے وجود پاتے ہیں۔ توانائی کی ان لہروں کو کئی اقسام میں تقسیم کر کے اُن کے کئی نام رکھے گئے۔ کاسمک ریز سے لے کر الفاء بیٹا، تھیٹا اور ایکس ریز سے لے کر انفراریڈ اور الٹرا وائلٹ سے لے کر مائکروویو اور ریڈیائی لہروں تک۔ مرئی روشنی کو سات اقسام کی غیر مرئی لہروں کا مجموعہ بتایا گیا اور ان کو سات رنگوں کا نام دیا گیا۔ یہ بات سامنے آئی کہ مادی اور محسوس دنیا انہی سات قسم کی شعاعوں یارنگوں سے تشکیل پاتی ہے۔ تمام مادی عناصر انہی سات قسم کی لہروں سے وجود پاتے ہیں۔ قرآنِ حکیم میں آدم کو مٹی سے تخلیق کیا  جانا بتایا گیا ہے۔

مٹی پر موجود تمام عناصر کے مجموعہ کے طور پر جانی جاتی ہے۔ پانی اور ہوا کے علاوہ سورج کی روشنی کی موجودگی اس مٹی کو نوع بنوع نباتات کی افزائش کی آماج گاہ بناتی ہے۔ پانی انتہائی آتش گیر اور آتش خیز گیسوں کا مجموعہ ہونے کے باوجود آتش برد و سیرابی کا ذریعہ ہے۔ ہوا تمام گیسوں کا مجموعہ ہونے کے باعث نباتات و حیوانات کے تنفس اور عمل احتراق کو قائم رکھنے کے ساتھ ساتھ پانی کے ذرات کو اپنے دوش پر اٹھا کے اُن کو بادلوں کی صورت بارش کی شکل میں برسا کر بناتات و حیوانات کی سیرابی و حیات کے تسلسل کا کام کرتی ہے۔ سورج کی روشنی سات قسم کے رنگوں کے علاوہ لا شمار غیر مرئی شعاعوں سے ایک طرف مادی اشیاء کو دیکھنے کا ذریعہ بنتی ہے اور دوسری طرف کئی قسم کے کیمیاوی تعاملات کے ذریعے نباتات اور حیوانات میں حیات کے بہاؤ کو ممکن بناتی ہے۔ بادلوں میں کڑکتی بجلیاں اور رعد و برق فضا کی آلودگی کو جلانے کے ساتھ ساتھ بالائی فضا کی گیسوں میں ایسے حیات افزاء اجزاء کو تشکیل دیتی ہیں جن سے نباتات و حیوانات میں زندگی کی لہر دوڑتی ہے اور حیات کی کئی ایک صورتیں تشکیل پاتی ہیں۔ بارش کے بعد تالابوں اور جوہڑوں میں مینڈکوں، لا تعداد پتنگوں اور پروانوں کے علاوہ مکھی مچھر اور حشرات کی تعداد میں اچانک اضافہ ہم سب کے مشاہدہ میں ہے۔ رعد و برق بادلوں میں موجود پانی میں کچھ ایسی تبدیلیاں کرتی ہیں کہ وہ پانی فضا میں ان سب . غور کرنے سے یہ بات صاف ہو جاتی ہے کہ تخلیقی نظام میں مٹی کا کردار کس قدراہم اور بنیادی ہے۔ مٹی کی ساخت پر غور کیا جائے تو اُسے تمام رنگوں کا مجموعہ ہی کہا جائے گا۔ سلسلہ عظیمیہ کے امام قلندر بابا اولیا نے فرمایا ہے کہ مٹی کی نیچر خلا ہے۔ مٹی کا ہر ذرہ ایک خلا ہے۔ یعنی مٹی میں ہر قسم کی اطلاعات کو اپنے اندر سمیٹنے اور اُن کو مظہر بنانے کا وصف رکھ دیا گیا ہے۔ مٹی میں تمام مادی عناصر اور ہر قسم کی دھاتیں اور معدنیات پائے جاتے ہیں۔ ان تمام مادی عناصر کی موجود گیسوں سے مل کر مٹی پر برس کر اُس میں زندگی دوڑا دیتا ہے۔ یہ بات ہم سب جانتے ہیں کہ جہاں بارشیں ہوتی ہیں وہاں سبزہ اور ہریالی ہوتی ہے اور جہاں بارشیں نہیں ہو تیں وہاں خشک سالی چھا جاتی ہے۔ جہاں سبزہ اور ہریالی ہوتی ہے وہاں حیوانات بھی زیادہ وجود رکھتے ہیں۔

اصل اساس توانائی ہے۔ مر کی دنیا میں توانائی کی لہریں مختلف رنگوں کی صورت جلوہ گر ہوتی ہیں۔ ہر مادی اور مرئی شے یہ کسی نہ کسی رنگ کا غلبہ ہوتا ہے۔ انہی رنگوں کے فرق کی وجہ سے مادی اشیاء میں امتیاز کیا جاتا ہے۔ سونے کو پرکھنے کے لئے کسوٹی پر رگڑ کر اُس کی رنگت کا خالص سونے کی رنگت سے موازنہ ہی تو کیا جاتا ہے۔ قوس قزح کے سات رنگوں پر غور کرنے سے یہ بات سامنے آتی ہے کہ ان میں سے چھ رنگ اصل میں محض تین رنگوں یعنی پہلے پہلے اور سرخ رنگوں۔۔۔جاری ہے

بشکریہ ماہنامہ روحانی ڈائجسٹ اگست

Loading