يہ بات خوب ياد رکھو!
کسي کو اس کے بچوں کي تربيت پر الزام مت دو۔
اگر تم ديکھو کہ اس کے بچے اس کي طرح نہيں ہيں تو اس پر ہنسو مت اور نہ اس کي غيبت کرو۔
يہ حقيقت قرآن و سنت سے سبق لیتی ہے:
حضرت آدم علیہ السلام نے بھي اپنے بيٹوں کي تربيت ميں کوئي کوتاہي نہيں کي، مگر پھر بھي ایک بیٹے نے دوسرے کو قتل کر دیا۔
حضرت نوح علیہ السلام نے بھي اپنے بيٹے کي تربيت ميں کوئي کمي نہيں کي، مگر ان کا ایک بیٹا کافر ہو کر ہلاک ہو گیا۔
حضرت يعقوب علیہ السلام کے بیٹوں نے بھي اپنے بھائی یوسف علیہ السلام کے ساتھ حسد کیا اور انہیں کنوئی میں پھینک دیا۔
اصل حقيقت يہ ہے کہ:
لَا تَهْدِي مَنْ أَحْبَبْتَ وَلٰكِنَّ اللّٰهَ يَهْدِي مَن يَشَاءُ
یعنی تم جسے چاہو ہدايت نہیں دے سکتے، ہدايت دینے کا اختیار صرف اللہ کے پاس ہے۔
اگر اللہ نے تمہیں نیك اور صالح اولاد عطا کی ہے، تو اس کا شکر ادا کرو۔
یہ تمہاری بڑي تربيت کا نتيجہ نہیں بلکہ اللہ کا فضل ہے۔
یاد رکھو، سب سے بہتر انسان حضرت محمد ﷺ ہیں۔
ان کی پرورش ان کے دادا اور چچا نے کی، جو اس وقت ایمان نہ لائے تھے، مگر اللہ نے خود ان کی تعریف کی:
وَإِنَّكَ لَعَلَىٰ خُلُقٍ عَظِيمٍ
یعنی تم بلند اخلاق والے ہو۔
یہ اللہ کی تربیت تھی جس نے اپنے نبی کو پوری انسانیت کے لیے ہادی بنایا۔
لہذا، اپنے بچے کی نیکی کو اپنا کمال مت سمجھو۔
یہ اللہ کی توفیق ہے، اور اگر تمہارا بچہ تمہاری محنت کے باوجود گمراہ ہے، تو خود کو ملامت مت کرو۔
بس دعا کرتے رہو، کیونکہ ہدايت اللہ کے ہاتھ میں ہے اور وہ اسے دیتا ہے جب وہ چاہتا ہے۔
دعا:
رَبَّنَا هَبْ لَنَا مِنْ أَزْوَاجِنَا وَذُرِّيَّاتِنَا قُرَّةَ أَعْيُنٍ وَاجْعَلْنَا لِلْمُتَّقِينَ إِمَامًا
آمين يا رب العالمين
 
 
															 
								 
								 
								
