کل محلے میں ایک دوست شکایت کر رہا تھا:
“ہالینڈ(ڈیلی روشنی نیوز انٹرنیشنل ۔۔۔کل محلے میں ایک دوست شکایت کر رہا تھا۔۔۔ انتخاب ۔۔۔۔ میاں عاصم محمود)یار میرا ابا بڑا ظالم ھے… سامنے والوں کے آگے مجھے برا بھلا کہتا ھے، گالیاں دیتا ھے، کبھی خوش ہی نہیں ہوتا۔”
میں نے ہنس کر کہا:
“چل پتر، سچ بتا… آخری بار ابا کے لئے کوئی تحفہ کب خریدا تھا؟”
وہ منہ بنا کے بولا:
“او بھائی! میرا ابا ھے، کوئی محبوبہ تھوڑی ھے جو تحفے خریدوں!”
میں نے کہا:
“آجا تیرے ابا کو محبوب بنانے کا فن سکھاتا ہوں۔”
مارکیٹ لے گیا، پانچ ہزار میں ایک زبردست سفید کاٹن کا سوٹ خریدا(دوست کے ہی پیسے سے )۔ محلے کے کامن درزی کے پاس گیاجسکے پاس تمام محلےکا ناپ ہوتا ہی ھے ، دو سو روپے اضافی دے کر کہا:
“بھائی، کل صبح تک سوٹ تیار چاہئے۔”
اگلے دن اسے کہا:
“جا پتر، یہ سوٹ ابا کو دے آ، اور کہنا کہ خاص ان کے لئے سلوایا ھے۔”
دوست گیا، ابا کو سوٹ دیا اور بتایا شاہد درزی سے سلوایا۔
ابا نے فوراً پوچھا:
“کتنے کا لیا؟”
بیٹا جذباتی ہو کر بولا:
“ابا… سات ہزار کا۔”
ابا کا خون کھول گیا:
“اوئے خوتے دے پتر! تیرے باپ کی دوبارہ شادی ہونی ہے جو سات ہزار کا سوٹ لایا؟ تین ہزار میں دو آجاتے تھے!”
بیٹا واپس آیا اور بولا:
“دیکھا، میں نے کہا تھا ناں، بڈھا کبھی خوش نہیں ہوتا!”
میں نے کہا:
“ٹھیر جا، اصل فلم ابھی باقی ھے۔”
—
اگلے دو گھنٹے میں کمال ہوا
پورے محلے میں وہی ابا سب کو بتا رہے تھے:
“دیکھو، میرا پتر میرے لئے سوٹ لے آیا ھے۔”
جہاں وہ رشتہ داروں کے گھر جانا بھی چھوڑ چکے تھے، وہاں بھی جا کے فخر سے سینہ تان کر کہہ رھے تھے:
“میرا بیٹا مجھے یاد رکھتا ہے۔”
ابا نے سوٹ پہنا، سفید کپڑوں میں سرخ و سفید رنگت کمال لگ رہی تھی۔ اوپر سے آج کالی خضاب بھی لگا رکھی تھی، اور آنکھوں میں اتنا سرمہ کہ لگ رہا تھا جیسے شادی کے لئے خود دلہا بننے نکلے ہیں۔
دوست نے ابا کی تصویر بھیجی، ساتھ لکھا:
“یار، میرا باپ اتنا بوڑھا لگتا ہی نہیں… بس ڈرامے باز زیادہ ھے۔”
—
سبق
یقین جانو… والدین کو خوش کرنے کے لئے بڑی بڑی قربانیاں نہیں چاہئیں۔
کبھی کبھار ایک چھوٹا سا تحفہ، ایک اچھی بات، اور ایک لمحہ ان کے لئے دنیا کی سب سے بڑی خوشی بن جاتا ھے۔
آج ہی نسخہ آزمائیں اور والدین کو فخر محسوس کروائیں
منقول