Daily Roshni News

کنارِ راوی

بسم اللہ الرحمن الرحیم

بانگ درا حصہ اول

نمبر شمار 46

کنارِ راوی

سکُوتِ شام میں محوِ سرود ہے راوی

نہ پُوچھ مجھ سے جو ہے کیفیت مرے دل کی

پیام سجدے کا یہ زیروبم ہُوا مجھ کو

جہاں تمام سوادِ حرم ہُوا مجھ کو

سرِ کنارۂ آبِ رواں کھڑا ہوں میں

خبر نہیں مجھے لیکن کہاں کھڑا ہوں میں

شرابِ سُرخ سے رنگیں ہوا ہے دامنِ شام

لیے ہے پیرِ فلک دستِ رعشہ دار میں جام

عَدم کو قافلۂ روز تیزگام چلا

شفَق نہیں ہے، یہ سورج کے پھُول ہیں گویا

کھڑے ہیں دُور وہ عظمت فزائے تنہائی

منارِ خواب گہِ شہسوارِ چغتائی

فسانۂ ستمِ انقلاب ہے یہ محل

کوئی زمانِ سلَف کی کتاب ہے یہ محل

مقام کیا ہے، سرودِ خموش ہے گویا

شجر، یہ انجمنِ بے خروش ہے گویا

رواں ہے سینۂ دریا پہ اک سفینۂ تیز

ہُوا ہے موج سے ملاّح جس کا گرمِ ستیز

سبک روی میں ہے مثلِ نگاہ یہ کشتی

نِکل کے حلقہ حدّ نظر سے دُور گئی

جہازِ زندگیِ آدمی رواں ہے یونہی

ابَد کے بحر میں پیدا یونہی، نہاں ہے یونہی

شکست سے یہ کبھی آشنا نہیں ہوتا

نظر سے چھُپتا ہے لیکن فنا نہیں ہوتا

بسم اللہ الرحمن الرحیم

تفہیم و تشریح

نظم کنار راوی

*سکوتِ شام میں محوِ سرود ہے راوی*

*نہ پوچھ مجھ سے جو ہے کیفیت مرے دل کی*

اس نظم کا منظر نامہ دریائے راوی کا کنارہ ہے ۔ اس مقام پر کھڑے ہوئے اقبال کہتے ہیں کہ ہر جانب شام کا سکوت طاری ہے ۔ لیکن دریائے راوی کی موجوں کا شور نغمگی کا آئینہ دار ہے ۔ اس لمحے میرے دل کی جو کیفیت ہے اس کے بارے میں مجھ سے کچھ نہ پوچھو ۔

*پیامِ سجدہ کا یہ زیر و بم ہوا مجھ کو*

*جہاں تمام سوادِ حرم ہوا مجھ کو

دریا کی موجوں کا زیر و بم میرے لیے تو سجدے کا پیغام بن گیا ہے ۔ میں تو اس عالم جذب میں ہوں کہ ساری دنیا مجھے خانہ کعبہ اور اس کے گردوپیش سے ہم آہنگ نظر آتی ہے ۔

*سرِ کنارہَ آبِ رواں کھڑا ہوں میں*

*خبر نہیں مجھے لیکن کہاں کھڑا ہوں میں*

یہ درست ہے کہ میں بہتے ہوئے اس دریا کے کنارے پر کھڑا ہوں تا ہم اپنے خیالات میں اس قدر مگن ہوں کہ یہ بھی نہیں جانتا کہاں کھڑا ہوں ۔

*شرابِ سرخ سے رنگیں ہوا ہے دامنِ شام*

*لیے ہے پیرِ فلک دستِ رعشہ دار میں جام*

ان لمحات میں شفق کی سرخی شراب کی مانند شام کے دامن کو رنگیں کر گئی ہے اور یوں محسوس ہوتا ہے جیسے قرن ہا قرن سے گردش میں رہنے والے بوڑھے آسمان کے رعشہ زدہ ہاتھ میں شراب کا یہ جام آ گیا ہے ۔

*عدم کو قافلہَ روز تیز گام چلا*

*شفق نہیں ہے، یہ سورج کے پھول ہیں گویا*

دن کا قافلہ عدم کی جانب تیز رفتاری کے ساتھ رواں دواں ہے ۔ مراد یہ ہے کہ آمد شام کے ساتھ دن ختم ہوتا جا رہا ہے ۔ اس لمحے یہ شفق پھولی ہوئی ہے اس کے لیے یہ کہنا بے جا نہ ہو گا کہ اس کی نوعیت تو سورج کے پھولوں کی طرح ہے یعنی سورج کا سفر ختم ہو گیا ہے ۔

*کھڑے ہیں دور وہ عظمت فزائے تنہائی*

*منارِ خواب گہِ شہسوارِ چغتائی*

ا س منظر نامے میں شہنشاہ جہانگیر کے مقبرے کے مینار اپنی عظمت و شان کے ساتھ اس کنج تنہائی میں ایستادہ ہیں ۔ یہی وہ مقبرہ ہے جہاں شہنشاہ جہانگیر ابدی نیند سویا ہوا ہے ۔

*فسانہَ ستمِ انقلاب ہے یہ محل*

*کوئی زمانِ سلف کی کتاب ہے یہ محل*

یہ مقبرہ دیکھا جائے تو انقلابات زمانہ اور ان کے ظلم و ستم کا مظہر ہے ۔ یہی نہیں بلکہ زمانہ ماضی کی تاریخ سے بھی تعبیر کیا جا سکتا ہے ۔

*مقام کیا ہے، سرودِ خموش ہے گویا*

*شجر، یہ انجمنِ بے خروش ہے گویا*

یہ مقبرہ تو حقیقت میں ایک خاموش نغمے کی طرح ہے اور یہاں جو درخت موجود ہیں وہ ایسی محفل کی طرح ہیں جہاں کسی ہنگامے کا عمل دخل نہ ہو ۔

*رواں ہے سینہَ دریا پہ اک سفینہَ تیز*

*ہوا ہے موج سے ملاح جس کا گرمِ ستیز*

اقبال کہتے ہیں کہ سامنے دریا میں ایک تیز رو کشتی رواں دواں نظر آ رہی ے جس کا ملاح لہروں اور تند و تیز موجوں سے بچاتا اسے منزل مقصود کی جانب لیے جا رہا ہے ۔

*سبک روی میں ہے مثلِ نگاہ یہ کشتی*

*نکل کے حلقہَ حدِ نظر سے دور گئی*

انسانی نگاہ کی رفتار جس قدر تیز ہے اسی رفتار سے آگے بڑھتی ہوئی کشتی بالاخر نگاہوں سے اوجھل ہو جاتی ہے ۔

*جہازِ زندگیِ آدمی رواں ہے یونہی*

*ابد کے بحر میں پیدا یونہی، نہاں ہے یونہی*

دریائے راوی کے کنارے اور اس کے گردوپیش کا مشاہدہ کرتے ہوئے اقبال اسے انسانی وجود سے یوں مربوط کرتے ہیں کہ جس طرح یہ کشتی دریائے راوی میں تیز رفتاری کے ساتھ رواں دواں ہے بالکل یہی کیفیت انسان کی ہے ۔

*شکست سے یہ کبھی آشنا نہیں ہوتا*

*نظر سے چھپتا ہے لیکن فنا نہیں ہوتا*

بے شک یہ ایک بڑے تخلیق کار کا کمال ہی ہو سکتا ہے کہ وہ اپنے مشاہدات اور تجربات کے بطن سے بعض ایسی مطلق حقیقتیں برآمد کرتا ہے جن تک کسی دوسرے کی رسائی بلاشک و شبہ نہیں ہوتی چنانچہ یہی امر اقبال کی عظمت اور بڑائی کا بین ثبوت ہے ۔

شارح اسرار زیدی صاحب

Loading