Daily Roshni News

کوئی شک نہیں کہ پاکستانی ڈرامے پاکستان سمیت ہندوستان میں بھی بڑے شوق سے دیکھے جاتے ھیں۔

ہالینڈ(ڈیلی روشنی نیوز انٹرنیشنل )کوئی شک نہیں کہ پاکستانی ڈرامے پاکستان سمیت ہندوستان میں بھی بڑے شوق سے دیکھے جاتے ھیں۔ “زندگی گلزار ھے” اور “ھمسفر” جیسے  ڈرامے ہندوستان میں چلائے گئے تو وہاں کی عوام میں بے حد مقبول ھوئے، یہاں تک کے ہندوستان کی پنجابی فلم “لاہورئیے” میں “زندگی گلزار ھے” کا زکر بھی ھوا۔ ھندوستان میں ھمارا ڈرامہ اتنا مقبول کیوں ھے؟ اس لئے نہیں کہ ہم کوئی بے حد زبردست ڈرامہ بناتے ھیں بلکہ اس لئے کہ ان کا اپنا بیڑہ غرق ھے۔ چار ہزار چار سو چالیس اقساط والے جنم جنم اور ساس بہو والے ڈرامے کے مقابلے میں انڈین عوام کو تیرہ سے تیس اقساط والے ڈرامے پسند کرنے کے لئے بہت سی وجوہات میسر ھیں۔

لیکن کیا آج کا پاکستانی ڈرامہ پاکستان کی ساری عوام کی پسند ھے؟ بدقسمتی سے اسکا جواب “نہیں” ھے۔ آج پاکستان میں ڈرامہ تمام پاکستانیوں کو مدنظر رکھ کر نہیں بنایا جاتا بلکہ گھر میں موجود خواتین اور کچھ کیسز میں کالج یونیورسٹی کی لڑکیوں کے لئے پروڈیوس کیا جا رہا ھے۔ پی ٹی وی کے دور میں ڈرامہ مردوں اور عورتوں دونوں میں یکساں مقبول تھا۔ تنہائیاں، دھوپ کنارے، ان کہی، وارث، انا، جنگل اور دھواں جیسے ڈرامے آج بھی یاد کیے جاتے ھیں۔ کیونکہ ان ڈراموں کے لوازمات کمال کے تھے۔

پاکستان میں بنایا جانے والا ڈرامہ بے حد محدود دائرہ رکھتا ھے۔ ایک لڑکا اور دو لڑکیاں اور محبت یا دو لڑکے اور ایک لڑکی اور محبت۔۔۔ یعنی پیار کی ٹرائی اینگل کہانی۔ تین سے چار ڈرامے دیکھنے پر بے حد یکسانیت کا احساس ھوتا ھے۔ ایسا لگتا ھے ریپیٹ ٹیلی کاسٹ دیکھ رہے ھیں وہ بھی پونے دو سال پرانا۔ دوسرا سلسلہ سماجی مسائل کو لیکر ڈرامہ بنانے کا ھے۔ کوئی شک نہیں “اڈاری” چائلڈ ایبوز کو لیکر نہایت عمدہ کاوش تھی لیکن دیگر ڈرامے تو سماجی مسائل کو لیکر “محول” کرتے ھی نظر آتے ھیں۔ “کاش میں تیری بیٹی نہ ھوتی” ، “مبارک ھو رشتہ آیا ھے” ، ” میں ماں نہیں بننا چاھتی” ، ” مبارک ھو بیٹی ھوئی ھے” وغیرہ۔ یہ ڈرامے اپنے نام سے جتنے فضول ھیں اتنے ھی فضول بنائے بھی گئے۔ ان ڈراموں کو سماجی مسائل سے متعلق بتایا گیا لیکن آپ کسی صورت ان سے ریلیٹ نہیں کر پائیں گے۔

ایک اور تجربہ ہارر ڈرامہ بنا کر کیا گیا۔ کوئی دوسری رائے نہیں کہ ہارر ڈرامہ اور فلم کی دلدادہ ایک بڑی تعداد ہر سوسائٹی میں پائی جاتی ھے، لیکن یہاں بھی وہی مذاق کیا گیا۔ “بیلا پور کی ڈائین” اور ” وہ” اور “سایہ” جیسے ڈرامے دیکھ کر ہارر کانٹنٹ سے نفرت محسوس ھونے لگتی ھے۔ ایسا شودہ مذاق کوئی کیسے کر سکتا ھے؟

پاکستان میں فینٹسی مواد کی کوئی جگہ نہیں۔ نہ ھی کسی نے کبھی سنجیدہ کوشش کی۔ “ناگن” نام کا ایک ڈرامہ بنایا گیا جس کو آپ چھ منٹس سے زیادہ نہیں دیکھ سکتے۔ بلاوجہ کی طوالت اور گندے ویزول ایفکٹس رونے پے مجبور کر دیتے ھیں۔

پچھلے دنوں “چیخ” ڈرامہ بنا کر تھرلر ڈراموں کی روایت ڈالنے کی کوشش کی گئی جو قابل قبول رہا۔ رونے دھونے، ساس بہو، اور ظلموں کی ماری معصوم کنیا کی کہانیوں سے کچھ الگ اور بہتر۔ “چیخ” کی کامیابی نے ھمارے ڈرامہ میکرز کو یہ احساس ضرور دلا دیا کہ پاکستانی عوام ” میں بشرا” ، “میں مریم” ، ” لاڈوں میں پلی” ، ” خدا دیکھ رہا ھے” ، ” لاحاصل” ، ” ایک تھی مثال” اور ” حسد” جیسے گھسی پٹی کہانی والے ڈراموں کے علاوہ بھی کچھ نیا دیکھ سکتے ھیں۔

باقی رہی ایکشن ڈراموں کی بات تو ایکشن ابھی ٹھیک سے ھماری فلموں میں نہیں آیا ڈراموں میں کہاں سے آئے گا۔ اور  مجھے اس بات کی سمجھ نہیں آتی کہ اگر کسی سین میں پسٹل سے کوئی کسی کو مارنے لگا ھو گا تو پسٹل کو دھندلا کیوں دیا جاتا ھے؟ اگر ھمارا یہی لیول رہا تو ھم اس وقت ھی کوئی اچھا ایکشن ڈرامہ بنا پائیں گے جب ساری دنیا مریخ پر جا کر بس چکی ھو گی۔

عمیرہ احمد اور ان سے انسپائرڈ لکھاریوں پے لکھنا شائد “سیف” نہیں کیونکہ بہت سے لوگ ڈنڈے اور سوٹے اٹھا کر لے آتے ھیں۔ چلیں عمیرہ جی کے تبلیغی ناولوں اور ڈراموں کو کچھ نہیں کہتے۔ لیکن ایسے عناصر کے ھوتے ھوئے ھماری ڈرامہ انڈسٹری کبھی بھی ورسٹائل ڈرامے نہیں دے پائے گی۔ ھم کنوئیں کے مینڈک ھی بنے رہ جائیں گے۔اس کی مثال صبا قمر کے ” باغی” کی ھے۔ جہاں نہایت اہم نکات کو بے دردی سے کہانی سے نکال پھینکا گیا تھا۔

کامیڈی ڈرامہ کی بات کی جائے تو ھماے پاس ” فیملی فرنٹ” اور “مس فٹ” جیسے ڈرامے موجود ھیں لیکن آج کل رئیل کامیڈی کا فقدان ھے۔ ڈاکٹر یونس بٹ کے رومیو وڈز ھیر نے مایوس کیا۔ بلبلے کی صورت ھمارے پاس کامیڈی کا کینسر ھے۔ بلبلے کی کامیڈی پے بے اختیار رونا آ جاتاھے۔

سائنس فکشن ڈرامے میں ھم نے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ بس کچھ نہیں کیا۔

تحریر و تبصرہ : سانول راجپوت

Loading