Daily Roshni News

کُڑی نینڈرتہالاں دی تے منڈا ڈینیسوواناں دا۔۔۔محبت کی ایک سچی کہانی

کُڑی نینڈرتہالاں دی تے منڈا ڈینیسوواناں دا

محبت کی ایک سچی کہانی

ہالینڈ(ڈیلی روشنی نیوز انٹرنیشنل )ایہہ جس تن نوں لگدی اے او تن جانڑے، محبت دے دل چوں پلیکھے نی جاندے، محبت دے مجبور ویکھے نی جاندے۔ سُچی محبت کی ایک ایسی ہی داستاں جو دو مختلف انسانی نسلوں ہومو ڈینسوان اور ہومو نینڈرتہال کے درمیان پیش آئی۔

نمبر_1 #نینڈرتہال :سوانتے پابو سویڈش جینیاتی ماہر اور نوبل انعام یافتہ سائنسدان ہیں جو ارتقائی جینیات کے شعبے میں خاصی مہارت رکھتے ہیں۔ پیلیوجنیٹکس پیلیو پیتھولوجی کی ہی ایک شاخ ہے’ جس میں ماضی کے جینیاتی مواد کا مطالعہ کیا جاتا ہے۔ اِسی شاخ کے بانیوں میں سے ایک سوانتے پابو  بھی ہیں۔ جنھوں نے نینڈرتھل جینوم پر بڑے پیمانے پر کام کیا اور وہ سوانتے پابو ہی تھے، جنھوں نے اپنی ٹیم کے ساتھ مل کر نینڈرتھل کے جینوم کو ترتیب دیا اور اپنی ریسرچ میں یہ بھی پایا کہ تقریباً 70 ہزار سال قبل افریقہ سے ہجرت کرنے کے بعد ان معدوم Homines میں سے کچھ جینز ہومو سیپینز (یعنی جدید انسانوں) میں منتقل ہوئے تھے۔ جین کا یہ قدیم بہاؤ آج کے انسانوں کے لیے جسمانی مطابقت بھی رکھتا ہے۔ ۲۰۱۰ء کے وسط میں پابو اور اُن کی ٹیم نے سائنس کے جریدے میں نینڈرتھل جینوم کی ترتیب کا مسودہ شائع کیا۔ جس میں اُنھوں نے اور ان کی ٹیم نے یہ نتیجہ اخذ کیا کہ نینڈرتھلز اور یوریشیائی انسانوں (یورپی ہومو سپیئنز) کے درمیان کئی ہزار سال قبل افزائش نسل ہوئی تھی۔(اِس کے علاؤہ سائنسدانوں کی ایک دوسری ٹیم کی ایک اور تحقیق کے مطابق ہمیں پتا چلتا ہے کہ افریقی اوریجن کے لوگوں کو نکال کر باقی ہومو سپیئنز میں نینڈرتھل ڈی این اے کے کچھ حصے پائے جاتے ہیں۔) قدیم اور جدید انسانوں کے درمیان باہمی افزائش نسل کے اس نظریہ کے لیے سوانتے پابو کو سائنسی برادری میں عمومی حمایت حاصل ہوئی، کہ جدید انسانوں میں نینڈرتھل جینز کی یہ آمیزش تقریباً ۵۰ سے ۶۰ ہزار سال قبل مشرق وسطیٰ ( موجودہ اسرائیل اور شام ) میں واقع ہوئی تھی۔

اِن قدیم انسانی نسلوں کی کچھ ہڈیاں جرمنی کی نینڈر ویلی (نینڈرٹل جرمن ریاست نارتھ رائن ویسٹ فیلیا میں دریائے ڈسل کی ایک چھوٹی وادی ہے، جو شمالی رائن ویسٹ فیلیا کے دارالحکومت Dusseldorf سے تقریباً ۱۲ کلومیٹر مشرق میں واقع ہے’ اور یہ لفظ جرمن لفظ نیندر تھل اور نینڈر تہال سے ماخوذ ہے’) جہاں سے ماہرین آثار قدیمہ کو نینڈرتھل کے سب سے پہلے فوسل ملے تھے۔ اِسی وادی کی مناسبت سے اسے “نینڈرتھل مین” نام دیا گیا۔ یعنی وادی نینڈر کے انسان۔ نینڈرتھل باقی ہومو انواع کی طرح ہومو نسب کا ہی ایک معدوم رُکن ہے’ جو اَب تک کی دستیاب تحقیق کے مطابق موجودہ انسانوں سے سب سے آخر میں بچھڑنے والی ہومو نسل تھی اور مزید یہ بھی کہ ہومو نینڈرتھل ہی وہ انسانی نسل تھی جوکہ جدید انسانوں سے کافی قریبی تعلق کا اشتراک بھی رکھتی تھی۔

 نینڈرتھل کی ہڈیاں ماہرینِ آثارِ قدیمہ کو پہلی بار ۱۹ویں صدی کے وسط میں ملیں اور اوپر بیان کی گئی ساری پیش رفت بھی نینڈرتھل کی دریافت ہونے والی اِنہیں ہڈیوں کے فاسلز  کیمدد سے، (میرا مطلب ڈی این اے کی ساخت معلوم کرکے حاصل کی گئی۔) سوانتے پابو اور اُن کی ٹیم نے اپنی ریسرچ میں یہ بھی پایا کہ جین کا بہاؤ ہومو نینڈرتھل سے ہومو سیپینز تک ہوا ہے۔ اُن کی اس دریافت سے ہمیں یہ بھی معلوم ہوا کہ بقائے باہمی کے دوران ان دونوں ہومو انواع نے ایک ساتھ اولاد بھی پیدا کی ہونگیں۔ بعض ماہرین حیاتیات کے مطابق انسانوں کی نو کے قریب اقسام تین سے پانچ لاکھ سال پہلے زمین پر نمودار ہوئی تھیں۔ اور ان انواع کا غائب ہونا ہی ایک نئی نسل کے عروج کا نتیجہ ہوسکتا ہے۔ یہ نسلیں ۲.۵ سے ۳.۵ ملین سال قبل جنوبی افریقہ میں ہی پروان چڑھیں جنہیں ماہرین کی جانب سے ہومو  کا نام دیا گیا۔ جدید انسانی نسل بھی اس نوع سے تعلق رکھتی ہے۔ یہ انسان افریقہ سے نکلنے کے بعد رفتہ رفتہ پوری دنیا میں پھیل گئے۔ جرمنی کے میکس پلانک انسٹی ٹیوٹ فار دی سائنس آف ہیومن ہسٹری کی سربراہی میں 2 ملین سال قبل کے ایچیولین کی موجودگی کے شواہد ملے، جو پورے ایشیا میں ہومو سیپینز کے ابتدائی دور کی نشاندہی کرتے ہیں۔

سویڈش سائنسدان پابو اور اُن کی ٹیم نے یہ بھی پایا کہ جدید انسانوں اور نینڈرتھل کے آباؤ اجداد تقریباً 4 سے لے کر 7 لاکھ سال پہلے ہومو ہیڈلبرجینسس سے دو الگ الگ انواع کے طور پر جدا ہوئیں اور الگ الگ ارتقاء کرنے لگیں تھیں۔

نمبر۲_ #ڈینیسووان

    کچھ عرصہ قبل ماہرینِ آثارِ قدیمہ کو روس کے ایک غار میں انسانوں کی دو مختلف اقسام کی ہڈیوں کے فاسلز ملیں۔ فاسلز میں لگ بھگ ۵۰ ہزار سال قبل کی ایک مرد ؤ عورت اور نوجوان لڑکی کی ہڈیوں کے فاسلز شامل تھے۔ سائنسدانوں کی اِس ٹیم کو اُن کے ڈی این اے ٹیسٹ سے یہ بھی معلوم ہوا کہ وہ میاں بیوی تھے اور ان دونوں کی ایک بیٹی بھی تھی اور وہ بیٹی دو مختلف نسلوں کی اولاد تھی۔ اس کی ماں نینڈرتھل نسل سے تھی، جبکہ باپ ڈینیسووان نسل سے تھا (ڈینیسووان اور ہومو نینڈرتھل ایک اجداد سے تعلق رکھتے تھےجو آج سے تقریباً 4 لاکھ سال پہلے (ڈینیسووان اور نینڈرتھل) ایک اجداد سے الگ ہوکر دو الگ الگ شاخوں میں بٹ گئے… ڈینیسووان جو  سائبیریا سے لے کر جنوب مشرقی ایشیا تک پھیلے ہوئے تھے اور ماہرین آثار قدیمہ کے مطابق۔۔ ہو سکتا ہے کہ ڈینیسووان آج سے لگ بھگ ۳۰ سے ۱۰ ہزار سال قبل تک اپنا وجود رکھتے ہوں، جو پھر بعد میں کسی وجہ کے کارن معدوم ہوگئیں) ، یعنی جو (ڈینیسووان) نسل نیچر میں سروائیو نہ کرسکی اور وقت گزرنے کے ساتھ ناپید ہو گئی۔ خیر! اس طرح ان کی بیٹی ہومو کی دو مختلف نسلوں ڈینیسووان اور نینڈرتھل کا مرکب تھی۔ مزید سائنسدانوں کے مطابق اِس وقت بھی غیر افریقی لوگوں کے ڈی این اے کا کچھ حصہ نینڈرتھل نسل سے ملتا ہے۔ جبکہ کچھ غیر افریقی لوگوں کا ڈی این اے بھی کسی حد تک ایشیائی ڈینیسووان نسل سے ملتا ہے۔ کئی نسلوں میں ڈی این اے میں باہمی افزائش اور تبدیلیوں سے یہ واضح ہے کہ مختلف انسانی نسلوں نے آپس میں اولاد پیدا کیں، جس سے ہائبرڈ نسلوں نے بھی جنم لیا۔ جو وقت اور حالات کا سامنا نہ کرپائیں اور معدومیت کا نشانہ بنتی گئیں۔

Bint e Haq

Science ki Duniya 2 سائنس کی دنیا

ترجمہ ؤ تخلیص

بنت حق

۲۴ مارچ ۲۰۲۴

  • ڈینیسووان کون تھے یہ جاننے کے لیے اس لنک کا مطالعہ کریں:

“Denisovans”

 https://www.science.org/content/article/ancient-dna-puts-face-mysterious-denisovans-extinct-cousins-neanderthals#:~:text=of%20the%20extinct-,Denisovans,-%2C%20who%20once%20thrived

ریسرچ کے بارے میں جاننے کے لیے

https://en.wikipedia.org/wiki/Svante_P%C3%A4%C3%A4bo?wprov=sfla1

Loading