Daily Roshni News

کچھ محبت کے بارے میں۔۔۔ انتخاب ۔ محمد جاوید عظیمی

کچھ محبت کے بارے میں……

انتخاب ۔ محمد جاوید عظیمی

ہالینڈ(ڈیلی روشنی نیوز انٹرنیشنل ۔۔۔ کچھ محبت کے بارے میں۔۔۔ انتخاب ۔ محمد جاوید عظیمی) ایک بار کسی تحریر میں ذکر کیا تھا کہ مقدس رومن سلطنت کی 32 سالہ کاؤنٹس این کیتھرین فرانس کی خوب صورت اور کامیاب ترین عورتوں میں شمار ہوتی تھی۔ شوہر اِس ڈر سے اُسے Voré لے گیا کہ پیرس اُسے خراب نہ کر دے۔ وہاں پر سو سالہ فرانسیسی لکھاری فونٹی نیلی (Fontenelle) اُس کے ڈریسنگ روم میں گیا تو حسین کاؤنٹس کو تقریباً برہنہ حالت میں پایا۔ اُس نے کہا: ”کاش میں 80 سال کا ہوتا۔“

ویسے یہ مزاحیہ سی بات لگتی ہے، لیکن دل کو بھی لگتی ہے۔ جب ہم انحطاط کے سالوں کے کنارے پر کھڑے ہوتے ہیں (اور اِس کی کوئی عمر مقرر نہیں، میں نے پینتیس چالیس سال والوں کو بھی انحطاط زدہ دیکھا ہے) تو کوئی دلکش چہرہ لبھا سکتا ہے۔ ایسے میں اپنی یا دوسرے/دوسری کی عمر کو بھول جانا بہت سی حماقتوں اور اُردو شاعری کا سبب بنتا ہے۔ اگر فونٹی نیلی وقت کو بہت زیادہ پیچھے چلانے اورپینتالیس سال کے ہونے کی حسرت کرتا تو وقت کا پہیہ کاؤنٹس کے لیے بھی الٹا چلتا، اور وہ شاید واپس رحم مادر یا محض خیال اور امکان میں واپس چلی جاتی۔ اپنی عمر میں صرف پندرہ بیس فیصد کی کمی کی خواہش ہمیں بے وقار نہیں کرتی، اور دیگر پہلوؤں اور لوگوں کو بھی باوقار رکھتی ہے۔

محبت وقار دیتی ہے، اور اُن لوگوں کا محبت (کم ازکم ہمارے تصور میں موجود تصور) سے کوئی تعلق نہیں ہوتا جن کی بدولت ہم نے محبت کے خیالات سیکھے ہوتے ہیں۔ اردو کے کسی شاعر کو اپنی محبوبہ کی قربت نہیں مل سکی، اور نہ ہی اُن کی شادی ہوئی۔ ہم بھی ابھی تک محبت محبت کرنے اور اِس موضوع پر سیکڑوں فلمیں دیکھنے کے باوجود اِسے ہضم نہیں کر پائے۔ لہٰذا ہماری (اِس خطے کی) 99فیصد فلموں کا اختتام شادی پر ہوتا ہے۔ ہم ایک غیر مناسب جذبے کو شادی کے ڈبے میں بند کر کے قابلِ قبول بناتے ہیں۔ شادی محبت کا انجام نہیں، جھانسہ ہے۔ اسے شادی میں نہیں ڈھونڈنا چاہیے، اور کسی طرح کشید ہو جائے تو شادی تک محدود بھی نہیں کرنا چاہیے۔

(پس تحریر: مردانہ نقطۂ نظر سے بات کروں تو ادھیڑ عمر میں کوئی اچھی لگے تو حریص اور بے وقار نہیں بن جانا چاہیے، بس انتظار کریں) 🙂

نشرِ مکرر

Loading