Daily Roshni News

کہکشاں کے دل سے آنے والی پر اسرار روشنی ، آخر یہ ماجرا کیا ہے ؟ انتخاب ۔۔۔۔۔ میاں عاصم محمود

کہکشاں کے دل سے آنے والی پر اسرار روشنی ، آخر یہ ماجرا کیا ہے ؟

انتخاب ۔۔۔۔۔ میاں عاصم محمود

ہالینڈ(ڈیلی روشنی نیوز انٹرنیشنل ۔۔۔ انتخاب ۔۔۔۔۔ میاں عاصم محمود)کیا آپ لوگوں نے کبھی سوچا ہے کہ ہماری کہکشاں، یعنی ملکی وے (Milky Way) کے بیچوں بیچ آخر کیا چھپا ہے؟ وہ مقام جو ہم سے تقریباً 26 ہزار نوری سال دور ہے، پچھلے دس سالوں سے ماہرینِ فلکیات کے لیے ایک ایسا معمّا بنا ہوا ہے جس نے ان کو سر کھجانے پر مجبور کر دیا۔

ناسا کے (Fermi Gamma-ray Space Telescope) نے ایک حیران کن بات پکڑی — ایک عجیب و غریب قسم کی گیما ریز وہاں سے آ رہی ہیں، اتنی طاقتور شعاعیں جنہیں ہماری سائنس بھی مکمل طور پر سمجھ نہیں پائی۔ اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ آخر یہ روشنی کہاں سے آ رہی ہے؟

کچھ سائنسدانوں نے کہا، “یار! یہ تو پلسارز (Pulsars) کا کام ہے۔”

پلسار وہ تیز رفتار گھومنے والے نیوٹرون ستارے ہوتے ہیں جو اپنے محور پر ایسے چکر کاٹتے ہیں جیسے کسی نے ان میں گھومنے کا جنون بھر دیا ہو۔

یہ ستارے اتنی تیزی سے گھومتے ہیں کہ ان سے ہائی انرجی ریڈی ایشن کے بیم نکلتے ہیں۔ تو ہو سکتا ہے کہ وہی ان شعاعوں کا ذریعہ ہوں۔

اب آئیے اصل سائنس فکشن سے بھی زیادہ زبردست خیال کی طرف:

یہ گاما ریز شاید ڈارک میٹر (Dark Matter) کا سگنل ہوں — وہ پراسرار مادہ جو کائنات کے 85٪ ماس پر قابض ہے مگر نظر نہیں آتا۔

اگر یہ نظریہ درست ہو تو اس کا مطلب ہے کہ کہیں کہکشاں کے اندر (Weakly Interacting Massive Particles – WIMPs) ایک دوسرے سے ٹکرا کر فنا ہو رہے ہیں، اور اسی کے نتیجے میں یہ گاما ریز جنم لے رہی ہیں۔

یعنی جیسے دو بھوت آپس میں ٹکرا کر روشنی پیدا کر دیں — نہ شکل، نہ آواز، بس روشنی ہی روشنی! 👻

مگر… کچھ گڑبڑ ہے۔

کچھ سال پہلے سائنسدانوں کا جوش ذرا ٹھنڈا پڑ گیا۔ کیوں؟

کیونکہ نہ تو کسی تجربے میں WIMPs کا سراغ ملا، اور نہ ہی گیما ریز کی وہ شکل دیکھی گئی جو روایتی ڈارک میٹر ماڈلز کے مطابق ہونی چاہیے تھی۔

وہ روشنی گول یا متوازن نہیں بلکہ تھوڑی ٹیڑھی، دبلی پتلی سی شکل میں تھی — جیسے کسی نے یونیورس کا فوٹو شاپ خراب کر دیا ہو۔

مگر اب شروع ہوا ایک نیا کھیل۔۔۔

اب میدان میں آئے مشہور ماہرِ فلکیات Joseph Silk اور ان کی ٹیم۔

انہوں نے سپر کمپیوٹر کے ذریعے ایسے ماڈل بنائے جو ہماری کہکشاں کی قدیم تاریخ کو بھی مدنظر رکھتے ہیں — مثلاً وہ وقت جب ملکی وے نے چھوٹی کہکشاؤں کو “کھا” لیا تھا (ہاں جی! ہماری کہکشاں بھی کبھی کبھار ہضم کرنے والے موڈ میں آ جاتی ہے)

نتیجہ؟

ان سیمولیشنز سے پتا چلا کہ ایسے ٹیڑھے میڑھے، غیر متوازن بادل نما ڈارک میٹر کے ڈھانچے قدرتی طور پر بن سکتے ہیں۔ اور یہی شکل عین اسی گیما رے پیٹرن سے ملتی ہے جو Fermi نے دیکھی تھی۔

مگر، ابھی فیصلہ باقی ہے۔

کچھ سائنسدان اب بھی کہتے ہیں کہ یہ پلسارز ہیں، مگر 2026 میں جب (Cherenkov Telescope Array) کام شروع کرے گا، تب ہم شاید پہلی بار یہ طے کر پائیں گے کہ یہ ڈارک میٹر کا اصلی سگنل ہے یا نہیں۔

تحقیق کا حوالہ:

جوزف سلک اور اُن کے ساتھیوں کی تحقیق، بعنوان

“کہکشاں کے مرکز میں غیر متوازن گاما شعاعوں کی زیادتی اور ڈارک میٹر”

(شائع شدہ: فزیکل ریویو لیٹرز، 2025)

یہ وہ سائنسی مقالہ ہے جس میں ماہرین نے نئی کمپیوٹر سمولیشنز کی مدد سے بتایا کہ کہکشاں کے مرکز میں پائی جانے والی گاما ریز دراصل ایک ٹیڑھے میڑھے، غیر متوازن ڈارک میٹر بادل کی وجہ سے ہو سکتی ہیں — اور شاید یہی وہ راز ہے جو کئی دہائیوں سے فلکیات دانوں کی نیندیں اُڑائے ہوئے ہے۔

کیا خیال ہے آپ کا؟

کیا واقعی ڈارک میٹر ہمیں اشارے بھیج رہا ہے؟ یا یہ سب نیوٹرون ستاروں کی شرارت ہے؟

اپنی رائے کمنٹس میں ضرور بتائیں — کیونکہ کہکشانی رازوں کی یہ کہانی ابھی ختم نہیں ہوئی…

تحریر:  حمزہ زاہد۔

استفادہ: دی سیکرٹس آف دی یونیورس، فیس بک پیج.

نوٹ: اس طرح کی مزید معلوماتی پوسٹس کیلئے مجھے فالو کریں۔ براہِ مہربانی اگر اس پوسٹ کو کاپی پیسٹ کریں تو اصل لکھاری کا نام ساتھ ضرور لکھیں۔

Loading