کیا انسان اپنی اگلی نسل کو ’ڈیزائن‘ کرنے کا اختیار رکھتا ہے؟
تحریر۔۔۔بلال شوکت آزاد
ہالینڈ(ڈیلی روشنی نیوز انٹرنیشنل ۔۔۔ تحریر۔۔۔بلال شوکت آزاد )جینیاتی ارتقاء، روحانی کیمیاگری اور ’نسلِ انسانی‘ کی ری-پروگرامنگ: کیا انسان اپنی اگلی نسل کو ’ڈیزائن‘ کرنے کا اختیار رکھتا ہے؟ –
انسانی تاریخ کا سب سے بڑا، سب سے گہرا اور سب سے خاموش المیہ یہ نہیں ہے کہ انسان نے ایٹم بم بنا کر اپنی تباہی کا سامان کر لیا ہے، یا یہ کہ اس نے صنعتی ترقی کے نام پر ماحولیات کا گلا گھونٹ دیا ہے۔
انسانی تاریخ کا اصل المیہ یہ ہے کہ انسان نے اپنی “افزائشِ نسل” (Procreation) کے عمل کو، جو کائنات کا سب سے مقدس اور تخلیقی فعل تھا، محض ایک حیاتیاتی مجبوری اور جانوروں جیسی جبلت کی سطح پر لا کھڑا کیا ہے۔
آج کا انسان ایک مکان بنانے کے لیے تو مہینوں نقشہ بناتا ہے، زمین کا انتخاب کرتا ہے اور میٹیریل کی جانچ پڑتال کرتا ہے، مگر ایک “نئی زندگی” کو وجود میں لانے کے لیے اس کے پاس کوئی منصوبہ، کوئی تیاری اور کوئی وژن نہیں ہوتا۔
دنیا شادی کرتی ہے، ایک سماجی رواج کے تحت تعلق قائم ہوتا ہے، اور بچے “حادثاتی طور پر” پیدا ہو جاتے ہیں۔
یہ عمل “تخلیق” (Creation) نہیں رہا، یہ “پیداوار” (Production) بن چکا ہے۔
لیکن یہاں ایک سوال انسانی شعور کے دروازے پر دستک دیتا ہے: کیا قدرت نے انسان کو “اشرف المخلوقات” کا درجہ صرف اس لیے دیا تھا کہ وہ اپنے جیسے گوشت پوست کے مزید پتلے، مزید صارفین (Consumers) اور مزید پیٹ دنیا میں پھیلاتا رہے؟
یا اس کا مقصد یہ تھا کہ انسان اپنے وجود کی بھٹی میں تپ کر، اپنی روح کو کندن بنا کر، اور اپنے شعور کو بلندیوں پر لے جا کر ایک ایسی نسل کو جنم دے جو اس سے “بہتر”، “برتر” اور “ارتقاء یافتہ” ہو؟
کیا انسان کے پاس یہ اختیار ہے کہ وہ اپنی آنے والی نسل کی روحانی اور ذہنی صلاحیتوں کا تعین پیدائش سے پہلے کر سکے؟
جدید سائنس، جو آج “ایپی جینیٹکس” (Epigenetics) کے نام سے جانی جاتی ہے، اور قدیم روحانیت، جسے “طہارتِ نسل” یا “نقلِ نور” کہا جاتا ہے، اس بات پر متفق ہیں کہ یہ ممکن ہے۔
اگر کوئی انسان بچہ پیدا کرنے سے قبل ایک خاص مدت (دو سے سات سال) تک مسلسل ریاضت، عبادت، گہرے مطالعے اور فکری طہارت کے عمل سے گزرے، تو وہ اپنے ڈی این اے (DNA) کی کوڈنگ کو تبدیل کر سکتا ہے۔
یہ محض فلم ’لوسی‘ (Lucy) کا فکشن نہیں، بلکہ خلیات (Cells) کی وہ زبان ہے جسے پڑھنا آج کا غافل انسان بھول چکا ہے۔
صدیوں تک حیاتیات کی دنیا میں یہ فرسودہ نظریہ قائم رہا کہ ڈی این اے پتھر پر لکیر ہے۔
یہ مانا جاتا رہا کہ جینیاتی وراثت ایک “جبریت” (Determinism) ہے؛ جو جینز (Genes) والدین سے مل گئے، انسان ان کا قیدی ہے۔ اگر باپ کو غصہ آتا تھا، تو بیٹے کو آئے گا؛ اگر ماں کو شوگر تھی، تو بیٹی کو ہوگی؛ اگر خاندان میں ذہانت کم تھی، تو اگلی نسل بھی کند ذہن ہوگی۔
لیکن اکیسویں صدی میں “ایپی جینیٹکس” کے دھماکے نے اس جبریت کو پاش پاش کر دیا۔
سادہ الفاظ میں سمجھا جائے تو ڈی این اے انسانی جسم کا “ہارڈ ویئر” ہے، اور ایپی جینیٹکس اس کا “سافٹ ویئر”۔
انسان ہارڈ ویئر (آنکھوں کا رنگ، قد کاٹھ، بالوں کی ساخت) تو شاید نہیں بدل سکتا، لیکن وہ سافٹ ویئر (جینز کا اظہار یا Gene Expression) بدلنے پر مکمل قادر ہے۔
سائنس نے دریافت کیا ہے کہ ڈی این اے کے اوپر کیمیکل مارکرز (Methyl Groups) کا ایک غلاف چڑھا ہوتا ہے جو “سوئچ بورڈ” کا کام کرتا ہے۔
ماحول، سوچ، خوراک، اور سب سے بڑھ کر “عبادت، ذہنی کیفیت اور نیت”، ان کیمیکل سگنلز کے ذریعے ڈی این اے کو حکم دیتی ہے کہ کون سا جین “آن” کرنا ہے اور کون سا “آف”۔
یعنی جینز خود فیصلہ نہیں کرتے، بلکہ انسان کا طرزِ زندگی جینز کو کنٹرول کرتا ہے۔
صدمے اور نور کا جینیاتی سفر:
سائنس نے ثابت کیا ہے کہ “صدمہ” (Trauma) ڈی این اے میں منتقل ہوتا ہے۔
ہالینڈ میں 1944 کے قحط (Dutch Hunger Winter) کے دوران جو خواتین حاملہ ہوئیں، ان کی نسلوں میں موٹاپے، ذہنی دباؤ اور بیماریوں کے جینز ایکٹیویٹ ہو گئے، حالانکہ ان نسلوں نے کبھی قحط نہیں دیکھا تھا۔
یہ “خلیات کی یادداشت” (Cellular Memory) ہے۔ اب یہاں ایک منطقی نکتہ ابھرتا ہے: اگر “خوف، بھوک اور صدمہ” ڈی این اے میں ریکارڈ ہو کر اگلی نسل میں جا سکتے ہیں اور ان کی شخصیت کو منفی رخ دے سکتے ہیں، تو یہ کیسے ممکن ہے کہ “ذکر، سکون، علم، نور اور عبادت” ریکارڈ نہ ہوں؟
جب کوئی انسان دو سے سات سال تک مسلسل عبادت اور ریاضت کرتا ہے، تو وہ دراصل اپنے جسم کو ایک “کیمیکل غسل” دے رہا ہوتا ہے۔
وہ اپنے خون سے کورٹیسول (Stress Hormone) اور ایڈرینالین (Fear Hormone) کو کم کرتا ہے اور ڈوپامائن، سیروٹونین اور اینڈورفنز (Happiness & Peace Hormones) کو متوازن کرتا ہے۔
یہ کیمیکل ماحول اس کے خلیات کے مرکز (Nucleus) میں جا کر ڈی این اے کو ایک نیا پیغام دیتا ہے:
“ہم اب حالتِ جنگ (Survival Mode) میں نہیں ہیں، ہم حالتِ امن اور شعور میں ہیں۔ اپنی بقا کے پرانے، جانوروں والے جینز بند کر دو، اور اعلیٰ شعوری جینز (Higher Consciousness Genes) کو فعال کر دو۔”
ہالی وڈ کی مشہور فلم ’لوسی‘ میں پیش کیا گیا یہ نظریہ کہ
“زندگی کا واحد مقصد معلومات (Information) کو اگلی نسل تک پہنچانا ہے،”
دراصل ایک گہری حیاتیاتی حقیقت ہے۔
جب کائنات کا پہلا خلیہ تقسیم ہوا، تو اس نے اپنی یادداشت اور بقا کا تجربہ اگلے خلیے کو دیا۔
ہم سب دراصل اربوں سالوں کی “معلومات کے کنٹینرز” ہیں۔ مسئلہ یہ ہے کہ آج کا انسان کون سی معلومات منتقل کر رہا ہے؟
ایک عام انسان، جو سارا دن ٹینشن، ہوس، حسد، غیبت اور دنیاوی دوڑ میں مگن ہے، اس کا ڈی این اے ہر لمحہ یہ ریکارڈ کر رہا ہے کہ
“دنیا ایک خطرناک جگہ ہے، وسائل کم ہیں، لڑنا ضروری ہے، چھیننا ضروری ہے۔”
جب یہ انسان بچہ پیدا کرتا ہے، تو وہ اپنی اولاد کو وہی “عدم تحفظ” (Insecurity) اور “جانورانہ جبلت” (Animalistic Instincts) ورثے میں منتقل کرتا ہے۔
وہ بچہ پیدا ہوتے ہی روتا ہے، ڈرتا ہے اور غیر محفوظ محسوس کرتا ہے کیونکہ اس کے جینز میں دنیا کا خوف بھرا ہوا ہے۔
لیکن اس کے برعکس، وہ انسان جو “ریاضت” کے عمل سے گزرتا ہے، جو سالوں تک علم حاصل کرتا ہے، کائنات کے اسرار پر غور کرتا ہے اور اپنے رب کے ساتھ لو لگاتا ہے، اس کے خلیات یہ معلومات ریکارڈ کرتے ہیں کہ
“کائنات ایک منظم جگہ ہے، اس کا ایک مہربان خالق ہے، اور میں اس کائنات کے ساتھ ہم آہنگ (Align) ہوں۔”
یہ وہ “ڈیٹا” ہے جو اگلی نسل کو ایک “تیار شدہ زرخیز زمین” فراہم کرتا ہے جس میں ذہانت، ولایت اور روحانیت کا بیج فوری طور پر اگ سکتا ہے۔
سات سال کا دورانیہ کیوں؟
یہاں سوال پیدا ہوتا ہے کہ دو سے سات سال کا دورانیہ ہی کیوں؟
قدیم حکماء اور جدید میڈیکل سائنس، دونوں اس بات پر متفق ہیں کہ انسانی جسم کے تقریباً تمام خلیات 7 سال کے عرصے میں مکمل طور پر تبدیل ہو جاتے ہیں (Cellular Regeneration)۔
ہڈیاں، خون، جلد، یہاں تک کہ دماغ کے نیورونز کی کنکشنز بھی بدل جاتے ہیں۔ یعنی آج جو انسان موجود ہے، سات سال بعد وہ جسمانی طور پر وہ شخص نہیں ہوگا؛ اس کا ہر خلیہ نیا ہوگا۔
اگر آج توبہ اور ریاضت شروع کی جائے، تو پرانے خلیات (جو گناہوں، غفلت اور دنیاوی کثافتوں کی یادداشت رکھتے ہیں) مرتے جائیں گے اور ان کی جگہ وہ نئے خلیات لیں گے جو “ذکر اور نور” کی غذا پر پلے ہیں۔
سات سال بعد، انسان کا پورا “بائیولوجیکل سسٹم” پاک ہو چکا ہوگا۔ اس وقت جب یہ نیا، پاکیزہ وجود اولاد کی منصوبہ بندی کرے گا، تو وہ اولاد “ماضی کے گند” سے پاک اور “حال کے نور” سے بنی ہوگی۔
یہ بحث محض سائنس تک محدود نہیں، بلکہ یہ وہ حقیقت ہے جسے اسلام نے چودہ سو سال پہلے “عبادات” اور “معاملات” کی شکل میں کوڈ (Code) کر دیا تھا۔
اسلام کے احکامات محض ثواب کے کام نہیں ہیں؛ یہ نسلوں کی بقا، جینز کی طہارت اور انسانیت کے ارتقاء کے “بائیولوجیکل پروٹوکولز” ہیں۔
قربت کی دعا: روحانی فائر وال (The Spiritual Firewall)
جدید سائنس کی شاخ (Quantum Biology) اور ڈاکٹر مسارو ایموٹو کی تحقیق یہ مانتی ہے کہ پانی اور سیال مادے (Fluids) الفاظ، آواز اور نیت کی تھر تھراہٹ (Vibrations) کو جذب کرتے ہیں۔ انسانی مادہ منویہ (Sperm) بھی ایک سیال ہے۔ اسلام نے حکم دیا کہ میاں بیوی قربت کے وقت یہ دعا پڑھیں:
“بِسْمِ اللَّهِ، اللَّهُمَّ جَنِّبْنَا الشَّيْطَانَ، وَجَنِّبِ الشَّيْطَانَ مَا رَزَقْتَنَا”۔
یہ دعا محض الفاظ نہیں ہیں۔ یہ دراصل “ڈیٹا ٹرانسفر” (Data Transfer) سے پہلے ایک “فائر وال” (Firewall) انسٹال کرنے کا عمل ہے۔
جب یہ دعا شعوری طور پر پڑھی جاتی ہے، تو انسان کا دماغی اور کیمیائی توازن “شہوت” (Lust) سے نکل کر “عبادت” (Devotion) کی فریکوئنسی پر شفٹ ہو جاتا ہے۔
اس لمحے جسم سے نکلنے والے نیورو ٹرانسمیٹرز میں شیطانی وسوسوں اور منفی توانائی (Negative Energy) کا راستہ بند ہو جاتا ہے۔
ایپی جینیٹکس کی رو سے، یہ جینز کو ایک کمانڈ دی جا رہی ہوتی ہے کہ
“اس عمل کے دوران پیدا ہونے والی نسل میں میرے گناہوں، میری غفلتوں اور شیطانی اثرات (Bad Epigenetic Markers) کو ٹرانسفر مت کرو۔”
یہ ایک “فلٹر” ہے جو اس بات کو یقینی بناتا ہے کہ اگلی نسل تک صرف “پاکیزہ کوڈ” ہی منتقل ہو۔
نیک سیرت رفیقِ حیات: جینیاتی لیبارٹری کا انتخاب!
حدیث نبویﷺ میں دیندار عورت کو ترجیح دینے کا حکم محض اخلاقیات نہیں، بلکہ ایپی جینیٹکس کی بنیاد ہے۔
ماں کا رحم (Womb) وہ پہلی درسگاہ اور پہلی لیبارٹری ہے جہاں بچے کا ڈی این اے کھلتا ہے (Unfold ہوتا ہے)۔
ایک دیندار عورت، جو صبر والی ہے، شکر گزار ہے، اور اللہ سے جڑی ہوئی ہے، اس کے جسم میں “کورٹیسول” (Stress Hormone) کا لیول کم ہوتا ہے اور “آکسیٹوسن” (Love Hormone) اور “سیروٹونین” کا لیول متوازن ہوتا ہے۔
اگر ماں خوبصورت ہے مگر بدخلق، ہر وقت ٹینشن زدہ، ناشکری اور غصیلی ہے، تو اس کے خون میں موجود زہریلے ہارمونز (Toxic Hormones) بچے کے جینز پر تباہ کن اثرات مرتب کریں گے۔ وہ بچہ پیدا تو ہوگا، مگر وہ ماں کے پیٹ سے ہی “بے چینی” اور “غصہ” لے کر آئے گا۔
دیندار عورت کا انتخاب دراصل نسل کے لیے ایک “محفوظ اور صحت مند بائیولوجیکل انکیوبیٹر” کا انتخاب ہے۔
بیج (Sperm) کتنا ہی اعلیٰ کیوں نہ ہو، اگر زمین (Womb) زہریلی ہوگی تو فصل تباہ ہو جائے گی۔
توبہ، اسلام اور حج: ڈی این اے کا فیکٹری ری سیٹ (Factory Reset)
یہ سوال اکثر اٹھتا ہے کہ اسلام لانے والا یا حج کرنے والا “نئے پیدا ہونے والے بچے” جیسا کیسے ہو جاتا ہے؟
کیا یہ محض استعارہ (Metaphor) ہے؟
نہیں!
یہ ایک بائیولوجیکل حقیقت ہے۔
ہمارے ڈی این اے کے اوپر کیمیکل کے غلاف (Methyl Groups) چڑھے ہوتے ہیں جو ہمارے گناہوں، بری عادات، ڈپریشن اور غفلت سے گندے ہو جاتے ہیں۔ یہ “گندے مارکرز” بیماریوں اور بری عادات کو جنم دیتے ہیں۔
توبہ (Repentance): جب ایک انسان سچے دل سے توبہ کرتا ہے، روتا ہے، اور اپنے رب کی طرف پلٹتا ہے، تو اس کے دماغ میں ایک شدید “جذباتی زلزلہ” (Emotional Shift) آتا ہے۔ سائنس کہتی ہے کہ شدید جذباتی کیفیات (Intense Emotional States) پرانے نیورل پاتھ ویز کو توڑ سکتی ہیں اور جینز کے اوپر لگے ہوئے ان “گندے مارکرز” کو دھو سکتی ہیں۔ سچی توبہ دراصل ڈی این اے کی “صفائی” (Detox) ہے۔
حج اور عمرہ: حج کا سفر، میدانِ عرفات کی اجتماعی پکار، اور کعبہ کا طواف, یہ سب مل کر انسان کو ایک ایسی “روحانی بھٹی” سے گزارتے ہیں جہاں اس کا “نفس” پگھل جاتا ہے۔ ایپی جینیٹکس کی زبان میں، حج ایک “Grand Factory Reset” ہے۔ یہ خلیات (Cells) کو دوبارہ “فطرتِ اسلام” (Default Settings) پر لے آتا ہے۔ خلیات سے گناہوں کی سیاہی دھل جاتی ہے، اور انسان کا وجود اتنا ہی پاک ہو جاتا ہے جتنا ایک نوزائیدہ بچے کا، جس کے جینز پر ابھی ماحول کا کوئی نشان نہیں ہوتا۔
آج کا المیہ یہ ہے کہ انسان شعوری نہیں، بلکہ “میکانکی” زندگی گزار رہا ہے۔
آج کا نوجوان جوڑا کیا ہے؟
فاسٹ فوڈ (کیمیکل) کھانے والا، موبائل اسکرین (نیلی روشنی) پر راتیں جاگنے والا، فحش مواد (Pornography) سے دماغ کو آلودہ کرنے والا، اور ڈپریشن/اینگزائٹی کا شکار۔
جب یہ جوڑا، بغیر کسی تیاری کے، بغیر کسی طہارت کے، محض “مزے” کے لیے ملتا ہے اور بچہ پیدا ہو جاتا ہے، تو وہ بچہ کیا لے کر آتا ہے؟
وہ بچہ اپنے والدین کی “بے چینی” (Anxiety)، ان کی “توجہ کی کمی” (ADHD)، اور ان کی “روحانی بھوک” ورثے میں لے کر آتا ہے۔
پھر والدین شکوہ کرتے ہیں کہ اولاد نافرمان ہے، اولاد دین سے دور ہے۔
حقیقت یہ ہے کہ والدین نے اس کے “سافٹ ویئر” میں دین یا نور ڈالا ہی نہیں تھا، بلکہ اپنی غفلت کا کوڈ انسٹال کیا تھا۔
انہوں نے ایک گندے برتن میں دودھ ڈالا اور اب شکوہ کر رہے ہیں کہ دودھ پھٹ کیوں گیا۔
حل صرف ایک ہے: شعوری افزائشِ نسل (Conscious Procreation)۔
اگر انسان چاہتا ہے کہ اس کی آنے والی نسلیں ذہنی غلام نہ بنیں، اگر وہ چاہتا ہے کہ وہ فلم میں دکھائے کردار “لوسی” کی طرح اپنی دماغی صلاحیتوں کا 100 فیصد استعمال کریں، اگر وہ چاہتا ہے کہ وہ صلاح الدین ایوبی یا محمد بن قاسم جیسی صفات کی حامل ہوں، تو اسے اپنی “بیڈ روم لائف” اور “اسپرچوئل لائف” کو ملانا ہوگا۔
یہ عمل ایک “پروجیکٹ” کا متقاضی ہے:
ٹائم آؤٹ: اولاد کی منصوبہ بندی سے قبل کم از کم 2 سے 5 سال کا وقفہ لیا جائے۔
جسمانی طہارت: حلال اور طیب غذا (جو خون اور نطفہ بناتی ہے) کا اہتمام کیا جائے۔
ذہنی طہارت: گہرا مطالعہ کیا جائے، کائنات پر غور و فکر کیا جائے تاکہ دماغ کے نیورونز میں “علم” کا نقشہ بنے۔
روحانی ریاضت: تہجد، ذکر اور توبہ کے ذریعے اپنے ڈی این اے کو “نور” سے چارج کیا جائے۔
جب اس بھٹی سے گزر کر، کندن بن کر، اللہ سے اولاد مانگی جائے گی، تو یقیناً وہ بچہ عام نہیں ہوگا۔ اس کے خلیات میں وہ “نور” محفوظ ہوگا جو والدین نے سالوں کی محنت سے کمایا ہے۔
اس کی آنکھوں میں وہ چمک ہوگی جو عام بچوں میں نہیں ہوتی۔
وہ “پیدائشی ولی” بننے کی صلاحیت بلکہ یوں کہوں کہ فطرت رکھے گا۔
یہ اداسی یا حادثاتی پیدائش نہیں، بلکہ “ڈیزائنر نسل” کی تخلیق ہوگی جو اقبال کے شاہین کی طرح
“نگہِ بلند اور جاں پُرسوز”
لے کر پیدا ہوگی۔
یہ وہ واحد راستہ ہے جس سے انسان اپنی اگلی نسل کو صرف “زندگی” نہیں، بلکہ “معراج” عطا کر سکتا ہے۔
نوٹ: آپ ی ہ و د ی و ں کو سٹڈی کریں, وہ اس راز سے ہزاروں سال سے واقف ہیں, اور بیشک یہ ایپی جینیٹک تحقیق بھی انہی کی ہے, مزید یہ کہ آج بھی ان کی حاملہ ہونے والی خواتین کا حمل اول دن سے سرکاری دیکھ ریکھ میں چلتا ہے, جس میں یہ لازم ہے کہ ماں کا زیادہ وقت مطالعہ اور ریاضت میں گزرے۔
#سنجیدہ_بات
#آزادیات
#بلال #شوکت #آزاد
![]()

