Daily Roshni News

کیا ایٹمی جنگ قریب ہے؟روحانی بزرگ کیا کہتے ہیں؟(قسط نمبر2

ہالینڈ(ڈیلی روشنی نیوز انٹرنیشنل ۔۔۔ کیا ایٹمی جنگ قریب ہے؟۔۔۔ روحانی بزرگ کیا کہتے ہیں؟۔۔۔۔قسط نمبر1۔۔۔بشکریہ ماہنامہ روحانی ڈائجسٹ اکتوبر2019)ایٹمی جنگ ہوئی تو اس سے دنیا کے ایک ارب سے زائد انسان متاثر ہوں گے ایٹمی  جنگ سے جانی نقصان ہونے کے ساتھ ساتھ آنے والی کئی نسلوں کو جلدی اور ذہنی امراض کا سامنا کرناپڑ سکتاہے۔

جوہری ہتھیار زمین کے مدار کو بھی نقصان پہنچا سکتا ہے جس کے نتیجے میں خلا سے مضر شعاعیں زمین میں داخل ہو کر برقی مقناطیسی ارتعاش پیدا کر سکتی ہیں، ان شعاعوں سے انسان نا صرف مختلف بیماریوں اور وباؤں میں مبتلا ہو گا، دنیامیں چلنے والی تمام برقی مصنوعات بھی کام کرنا بند کر سکتی ہیں۔

اس وقت انسان بجلی کا بہت زیادہ عادی ہو چکا ہے اور ہر چیز ہی الیکٹریکل گرڈ سے منسلک ہے ، برقی مقنا طیسی ارتعاش کی شدت سے زندگی کا ہر شعبہ ہی متاثر ہو گا جیسے بینکنگ، مواصلات اور بنیادی اشیاء جیسے پانی و خوراک کا حصول وغیرہ ۔ ایسا ہوتے ہی دنیا بھر میں کئی نظام منہدم ہو جائیں گے اور دنیا 18 ویں صدی کے زمانے میں واپس پہنچ  جائے گی۔ ایٹمی  جنگ انسانی نسل کے خاتمے اور جدید تہذیب کے مٹ جانے کا بھی سبب بن سکتی ہے۔

دوسری جنگ عظیم کے بعد کسی نے امریکی سائنس وان آئن سٹائن سے پوچھا کہ جناب! تیسری جنگ عظیم ایسی ہو گی؟

آئن سٹائن نے جواب دیا کہ تیسری جنگ عظیم کا مجھے پتہ نہیں لیکن چوتھی جنگ عظیم پتھروں اور لکڑیوں سے ہو گی۔

آئن سٹائن کے اس جواب میں ایک بہت بڑی بات پوشیدہ ہے کہ تیسری جنگ عظیم بہت بڑی تباہی لاۓ گی ان ممالک ایسی پر بادلوں کی د ھول میں آ ٹ جائیں گے کہ پھر

ان کے پاس علم ہو گا نہ فن، سائنس ہو گی یہ جنگ لانے کے ساز و سامان اس لئے وہ لاٹھیوں سے آپس میں لڑیں گے۔

سوایٹمی میزائل چلنے پر

زمین کی کیا حالت ہوگی

 دنیا بھر میں اس وقت 16 ہزار سے زائد فعال جوہری میزائل موجود ہیں اگر ان میں سے صرف100 میزائل ایک ساتھ چل پڑیں تو سوچیے کہ زمین کا کیا حشر ہو گا؟

پہلے ہفتے ہمارے ماحول میں 5 میگاٹن سیاہ کار بن پھیل جائے گا۔ یہ دھواں فضا سے سورج اور زمین کے در میان حائل ہو جائے گا۔

دوسرے ہفتے سیاہ دھویں کی وجہ سے زمین گہرے اندھیرے میں ڈوب جائے گی، بموں میں موجود کیمیائی اجزاوزون تہہ کو کھا جائے گی۔ اس کے بعد سورج اور خلا سے زمین پر آنے والی تابکار شعاعوں میں 120 فیصد اضافہ ہو جائے گا۔

دو ماہ بعد زمین کا درجہ حرارت منفی 25 ڈگری سینٹی گریڈ تک گر جائے گا ۔ بارشوں کی مقدار بھی بے حد کم ہو جائے گی ۔ زمین سے نباتات ختم ہو جائیں گے۔

صرف دو سال کے اندر دوارب افراد غذائی قلت، بھوک اور پھر موت کا شکار ہو جائیں گے۔

پانچ سال بعد ان دھماکوں میں زندہ جانے والے افراد بڑی تعداد میں جلد کے جان لیوا کینسر کا شکار ہو جائیں گے۔

بیس سال بعد زمین کا درجہ حرارت گرم ہونا شروع ہو گا، کچھ پودے بھی اگنا شروع ہو جائیں گے تاہم ان کی افزائش کی رفتار سست ہو گی۔

تیس سال بعد زمین پر بارشیں بھی کچھ معمول کے مطابق ہونے لگیں گی۔

پچاس سال بعد دوبارہ زمین پر جا بجا خود رو پھول پودے اگ آئیں گے۔ تاہم پچاس سال بعد بھی زمین کے کچھ علاقے تابکاری کی زد میں ہوں گے اور وہاں رہائش رکھنا ناممکن ہو گا۔ یہ تمام خوفناک صورتحال صرف 100 ایٹم بم پھٹنے کی صورت میں ہو گی۔

معروف اسکالر اشفاق احمد تحریر کرتے ہیں۔

انسانی ذہن بہت حد تک بے بس واقع ہواہے حالانکہ اس نے چاند پر قدم رکھنے کا دعویٰ کیا ہے۔ خونخوار جانوروں کو اس نے رام کر لیا ہے اور آواز سے بھی تیز جہاز بنا لیے ہیں۔ انسانوں کی ہلاکت کا وسیع پانے پر سامان اکٹھا کر لیا ہے۔ بڑے ایٹم بم تیار کر لیے ہیں اور ملکوں کی لڑائی کی یہ پہچان بن چکی ہے کہ یہی وہ ایک سیکنڈ میں اتنے لا کھ یااتنے ہزار انسانوں کو موت کے منہ میں دھکیل سکتے ہیں۔ ہمارے بابے کہا کرتے ہیں کہ کسی بھی چیز کی بہتات قوموں یا معاشرے کے لیے بڑی نقصان دہ ہوتی ہے اور جب قومیں کسی ایک چیز کے پیچھے پڑ جاتی ہیں وہ اس وقت گھاٹے کا سودا کر رہی ہوتی ہیں۔ زیادتی کسی بھی چیز کی خرابی کا نقصان بنتی ہے اور عبادت کے معاملے میں بھی یہی حکم ہے کہ اتنی کرو جس قدر روز کا معمول کے مطابق کر سکتے ہو۔ اپنی جانوں کو مصیبت میں ہی  نہ ڈال لو۔

روحانی اسکالر خواجہ شمس الدین عظیمی فرماتے ہیں

آپ غور فرمایئے؟ترقی یافتہ ممالک کا عروج کس بنیاد پر ہے؟ طاقت کی بنیاد پر ہے ، ان کے پاس ایٹم بم ، ہائیڈروجن بم ، نائٹر و جن بم اور کو بالٹ  بم ہے…. ان کے پاس ایسے ہتھیار ہیں جو ایک منٹ میں کئی لاکھ آدمیوں کو صفحہ ہستی سے مٹا سکتے ہیں۔ شہر کے شہرویران کر سکتے ہیں۔ خوبصورت، ر نگین ، باغ و بہار سے مزین ، پرکشش برفانی کہساروں ، موتی کی طرح

چمکتے دمکتے آبشاروں ، آفتاب کی شعاعوں اور چاند کی کرنوں کا مسکن یہ  دنیا اب پھر ہزاروں ایٹم بموں کی زد میں موت کے دہانے پر کھڑی ہانپ رہی ہے۔ یہ کیسی ترقی ہے کہ ہم نے آتش فشاں کو اپنامسکن بنا لیا ہے۔

قانون یہ ہے کہ جب کوئی چیز وجود میں آ جاتی ہے تو کبھی نہ کبھی اس کا استعمال ضرور ہوتا ہے…. ہر انسان کو یہ سوچنا چاہئے کہ جب یہ بم تباہی پھیلائیں گے تو کیا زمین جل کر خاکستر نہ ہو جائے گی؟

دانشوروں اور رحم دل انسانوں کو چاہئے کہ باہم شیر و شکر ہو کر رہیں…. جس طرح ایک شہر میں بہت سارے محلے ہیں…. بہت سارے گھر ہیں اور ایک گھرکے افراد خوش باش زندگی گزارتے ہیں، اسی طرح زمین پر آباد سارے ممالک اپنی  سرحدوں میں ملکی ترقی کیلئے کوشاں رہیں اور اس کی حفاظت کریں۔

روحانی بزرگوں کے اشارے

 روحانی بزرگوں کے ذریعے ملنے والی بصیرت کے حامل بعض اصحاب کا کہنا ہے کہ انسانوں پر حکمرانی کرنے والے افراد میں نسلی یا مادی لحاظ سے تفاخرانہ یا مذ ہبی  انتہا پسندی کے جذبات کا غالب آجانا، انسانوں کی بقا کے لیے شدید خطرہ بن سکتاہے۔

روحانی بزرگ فرماتے ہیں کہ چند انتہا پسند حکمران اپنی طاقت میں اضافے اور اقتدار کی ہوس میں آکر کروڑوں بلکہ اربوں انسانوں کے لیے شدید خطرات کا باعث بن سکتے ہیں۔

روحانی بزرگ فرماتے ہیں کہ اس زمین کے ماحول کے تحفظ اور نوع انسانی کی حفاظت کے لیے اللہ تعالیٰ کے دربار میں یہ دعا کرنی چاہیے کہ وقت کے فرعون یا ہٹلر جیسے حکمرانوں کے ہاتھوں نوع انسانی کسی خطرے سے دو چار نہ ہو۔ (آمین)

بشکریہ ماہنامہ روحانی ڈائجسٹ

Loading