کیا ایٹمی جنگ قریب ہے؟
روحانی بزرگ کیا کہتے ہیں؟
(قسط نمبر1)
ہالینڈ(ڈیلی روشنی نیوز انٹرنیشنل ۔۔۔ کیا ایٹمی جنگ قریب ہے؟۔۔۔ روحانی بزرگ کیا کہتے ہیں؟۔۔۔۔قسط نمبر1۔۔۔بشکریہ ماہنامہ روحانی ڈائجسٹ اکتوبر2019)روشن نظر صاحب بصیرت روحانی ہستیاں اکیسویں صدی میں نوع انسانی کی فلاح اور اس زمین کی بقا کے لیے بہت فکر مند ہیں۔ روحانی بزرگوں کے یہاں حاضری دینے والے بعض افراد کی باتوں سے اندازہ ہوا ہے کہ روحانی ہستیاں بار گاہ الہی میں مسلسل دعا گو ہیں کہ انسان ہدایت قبول کرنے اور تباہی کے راستے سے ہٹ کر خیر اور فلاح کے راستے پر گامزن ہو جائے۔
انسانوں کے طرز عمل، دنیا بھر میں ہونے والے واقعات اور حالات کا تجزیہ کرنے والے اصحاب دانش اور صاحب بصیرت روحانی ہستیوں کو نوع انسانی اور اس زمین پر بسنے والی سب مخلوقات کے بارے میں تشویش ہے۔
ایک طرف تو انسانوں کی جانب سے صنعتی ترقی شہروں کےپھیلاؤ ، کاربن ڈائی آکسائیڈ اور دیگر گیسوں کے اخراج میں غیر طبی اضافے سے زمین کے ماحول کو شدید خطرات لاحق ہوئے ہیں۔ دوسری طرف انسانوں کے بنائے ہوئے انتہائی مہلک اور تباہ کن ہتھیاروں کے ہوتے ہوئے بعض حکمرانوں کی انتہا پسندانہ سوچ، نسلی یا مذہبی تفاخر، احساس تکبر اور رعونیت نے زمین پر انسانوں کا مستقبل خطرے میں ڈال دیا ہے۔ ایٹمی طاقت
کے حامل کسی انتہا پسند اور متکبر حکمران کی معمولی سی غلطی سے اس دنیامیں بہت بڑی تباہی آسکتی ہے۔
اسٹاک ہوم انٹر نیشنل ریسرچ انسٹیٹیوٹ کی سالانہ رپورٹ کے مطابق دنیا میں 9ممالک
ہتھیاروں کی مجموعی تعداد 13ہزار 865 تک جا پہنچی اور اس دور میں امریکہ، روس سب سے آگے ہیں۔ جن کے پاس دنیا میں موجود ہ ایٹمی ہتھیاروں کا 90 فیصد حصہ ہے۔ روس کے پاس چھ ہزار 500 اور امریکہ کے پاس چھ ہزار 185ہتھیار ہیں۔ دنیا بھر میں 3750 ایٹمی ہتھیار ہر وقت تیار رہتے ہیں۔ امریکہ ہر وقت 1750 اور روس 1600ہتھیار حملے کے لیے تیار رکھتا ہے۔ برطانیہ نے 120 اور فرانس نے 280 ہتھیار کسی بھی وقت استعمال کرنے کے لیے تیار حالت میں رکھے ہوئے ہیں۔
دانشوروں اور مفکرین کا کہنا ہے کہ کسی بھی دو ملکوں کے در میان کوئی چھوٹا سا غلط فیصلہ بھی کیا رخ اختیار کر سکتا ہے اس بارے میں سوچنا بھی دشوار ہے۔
یہ ایک حقیقت ہے کہ جنگلوں کے نتیجے میں بے دریغ انسانی جانوں کا زیاں ہوتا ہے ، لاکھوں افر او مارےجاتے ہیں، عورتیں بیوہ اور بچے یتیم ہو جاتے ہیں۔ ملکوں میں قحط پیدا ہوتا ہے اور صدیوں تک پسماندگی ان کا مقدر بن جاتی ہے۔ یہاں واضع رہے کہ آج تک دو جوہری طاقتوں کے در میان بھی جنگ نہیں ہوئی اس لیے ایٹمی ہتھیاروں کی تباہ کاری کا اندازہ بھی ممکن نہیں، لیکن اگر خدانخواستہ ایٹمی جنگ ہوئی تو اس کی ہولناکی کو بیان کرنے والا شاید ہی کوئی باقی رہے۔
یوں تو دنیا اس سے پہلے غیر جوہر ی دو عظیم جنگوں کو جھیل چکی ہے۔ پہلی جنگ عظیم میں تین کروڑ اور دوسری جنگ عظیم میں چھ کروڑ لوگ مارے گئے تھے یعنی تیس برسوں میں نو کروڑ کی آبادی کا صفایا ہو گیا۔ لیکن جوہری بم ، عام بموں کی طرح نہیں ہوتے۔ جوہر ی نہ صرف عام بموں کے مقابلے میں کہیں زیاده تباہی مچا سکتے ہیں بلکہ جوہری بموں کے تباہ کن اثرات استعمال کے برسوں بعد بلکہ دہائیوں تک باقی ر ہتے ہیں۔
1986ء میں چر نیو بل میں ایٹمی حادثے کے بعد جو تابکاری تھی وہ ہوا کے ساتھ سینکڑوں ہزاروں میل دور تک پہنچی تھی ، چر نیوبل اور آس پاس کے شہر وں کو توخالی کرایاہی گیا تھا لیکن، تابکاری کی وجہ سے دور دراز کے علاقوں میں اگنے والی نہ سبزیاں کھائی جا سکتی تھیں اور نہ ہی گائے بکری کا دودھ پیا جاسکتا تھا۔ ہیروشیما اور ناگاساکی کے واقعے کو ستر سال سے زیادہ ہو چکے ہیں، جس پر کرائے جانے والے ایٹم بم کے نتیجے میں 3 لاکھ کے قریب لوگ ہلاک ہونے اور اسی کی تابکاری کی وجہ سے ہیروشیما یا ناگاساکی میں برسوں بعد پیدا ہونے والے بچوں میں بھی کوئی نہ کوئی جینیاتی نقص پایا جاتا تھا۔
اگر نیو کلیر جنگ چھڑ گئی
نیو کلر بم کا شمار ان خطرناک اسلحوں میں ہوتا ہے جن کے استعمال سے پورے پورے شہروں کو منٹوں نہیں بلکہ سیکنڈوں میں ختم کیا جاسکتاہے۔
امریکہ اور سوویت یونین کے مابین ہونے والی سرد جنگ کے دور میں معروف سائنسدان کارل سیگان نے وارننگ دے دی تھی کہ دو ممالک کے مابین یہ جنگ دنیا کو بڑی تیزی سے تباہی کی طرف لے جائے گی۔
اسی جنگ چھٹنے کے نتیجے میں دنیاد س سال تک جوہری سردی کا شکار ہو جائے گی۔ ماہرین کے اندازوں کے مطابق، جوہری ہتھیار فائر کرنے (ڈی نیشن) کے نتیجے میں 147 ملین ٹن (150 ارب کلو گرام) زہریلے نیو کلئیر ذرات کا دھواں پیدا ہو گا جو کرہ ارض کی بالائی فضا میں پھیل جائے گا اور زمین پر چلنے والی ہوائیں اس دھویں کو پورے کرہ ارض پر پھیلا دیں گی، یہ دھواں جلد ہی اپنی ایک ٹھوس تہہ بنالے گا، جس سے زمین کو
جوہری موسم سرما (Nuclear Winter) کا سامنا ہو گا۔ دھوئیں کی ٹھوس تہہ زمین تک آنے والی سورج کی روشنی کو اپنے اندر جذب کرنے لگتی ہے ، نتیجے میں زمین پر سورج کی روشنی کی رسائی میں رکاوٹ ہو گی، جس سے دنیا کے ہر علاقے میں اوسط درجہ حرارت 9 ڈگری سینٹی گریڈ تک کم ہو جائے گا۔ زمین پر موجود زندگی سورج کی روشنی سے محروم ہونے لگے گی ، فوٹو سنتھیسز کا عمل نہیں ہو گا تو پودوں کی نشوونمارک جائے گی، اس طرح زراعت متاثر ہو گی، ایسی صورت میں تیزابی بارشوں اور قحط سالی کے امکانات خاصے بڑھ جائیں گے۔
پہلی جنگ عظیم کے بعد انفلوئنزانے پوری دنیا میں تقریبا4 کروڑ لوگوں کا شکار کیا تھا، اس کے علاوہ دنیا میں برڈ فلو، سارس، ایبولا وائرس، سوائن فلو یا پھر ڈینگی بھی انسانی تباہی کا باعث بن چکا ہے، اسی جنگ سے ہونے والے موسمی تغیرات ان وبائی امراض میں اضافے کی وجہ بن سکتے ہیں اور یوں کا ایک بڑا حصہ، پودوں، جانوروں اور انسانوں سے خالی ہو جائے گی۔
جوہری ہتھیاروں کے استعمال کے نتیجے میں پیدا ہونے والا دھواں چھٹنے میں سات سال لگ سکتے ہیں اور روشنی کو معمول کی حد تک آنے کیلئے مزید تین سال کا عرصہ لگے گا۔ جب تک مون سون اور سمندری درجہ حرارت کو کنٹرول کرنے والا نظام تباہ ہو جائے گا اور ایل نینو کی وجہ سے پیدا ہونے والے طوفان بڑھ جائیں گے۔
تابکاری ذرات انسانی جنینیات یعنی انسان کے قدرتی ریکارڈ ڈی این اے میں تبدیلی پیدا کر سکتے ہیں۔ یہ ہمارے سیلز کو توڑ پھوڑ کر رکھ دیتے ہیں۔ جس کی وجہ
سے صرف ایک نہیں بلکہ رہتی دنیا تک آنے والی ہر نسل جنینیاتی تبدیل کا شکار ہو سکتی ہے۔۔۔۔جاری ہے
بشکریہ ماہنامہ روحانی ڈائجسٹ اکتوبر 2019