Daily Roshni News

کیا بنگلادش کے محمد یونس ٹائپ کا بندہ پاکستان میں ھے۔ آخر کون ہے یہ ڈاکٹر یونس ؟؟

کیا بنگلادش کے محمد یونس ٹائپ کا بندہ پاکستان میں ھے۔ آخر کون ہے یہ ڈاکٹر یونس ؟؟

ہالینڈ(ڈیلی روشنی نیوزانٹرنیشنل )بنگلہ دیش کے نوجوانوں نے عبوری حکومت کے لئے جس ایک شخص کا مطالبہ یا یوں کہیے شرط رکھی ہے اسی سے انکی وطن سے محبت ، ہوشمندی اور مستقبل سنوارنے کا عزم  اور میرٹ کا انتخاب دیکھائی دے رہا ہے

ڈاکٹر محمد یونس بنگلادیش میں موجود گرامین بینک کے بانی ہیں جنہیں 2006ء مائیکرو فنانس بینک کے ذریعے لوگوں کو غربت سے نکالنے پر نوبیل انعام دیا گیا تھا۔

بات ہے 73-1972 کی ۔ جب چٹا گانگ یونیورسٹی کے فنانس ڈیپارٹمنٹ کے پروفیسر محمد یونس نے غریب عوام خصوصاً خواتین کو خط غربت سے نکالنے کے لئے چھوٹے قرضوں ( مائیکرو فنانسنگ) کا ایک اچھوتا پروجیکٹ پیش کیا ۔ نام تھا گرامین بنک ، مطلب دیہاتی بنک ۔

محمد یونس اپنا پروجکٹ لئے ہر حکومتی دروازے تک گیا ، ہر بنک اور بنکار سے مدد مانگی لیکن کسی نے حامی نہ بھری ۔

تب محمد یونس نے فیصلہ کیا کہ وہ خود ہی کسی ایک گاؤں سے اس پروجیکٹ کا آغاز کرے گا ۔  اپنی جیب سے 800 ٹکہ اور دوستوں کی مدد سے 3 ہزار ٹکہ جمع کر کے 1974 میں گرامین بنک کی بنیاد رکھی ۔ جسکی نہ کوئی عمارت ، نہ ملازمین ۔ بس ایک قلم اور رجسٹر اور 3 ہزار ٹکہ۔

یونس نے چٹا گانگ کے ایک قریبی گاؤں سے آغازکیا ۔  5 خواتین کو ایسے چھوٹے کاروبار کے لئے قرضہ دیا جن کے بارے خود خواتین نے فیصلہ کیا کہ وہ بہتر کر سکتی ہیں ۔ مثلآ

پٹ سن سے کپڑا بنانا

ٹوکری/ روٹی والے خوبصورت ڈبے بنانا

مرغی اور بطخ بانی اور انڈے کا کاروبار

کپڑوں کی سلائی اور ان پر کڑھائی

ڈیزائن والی چٹاٹی بنانا

قرضے پر سود بھی تھا ۔ جس نے سو ٹکہ لیا وہ ایک سو دس ٹکہ دے گا ۔ لیکن کاروبار شروع ہو جانے پر اور وہ بھی روزانہ کی بنیاد پر ۔ کم از کم ایک ٹکہ روزانہ ، یا جو آسانی سے دے سکو ۔۔

سائیکل پر ایک بنک آفیسر روزانہ ان خواتیں کے گھر جاتا اور نہ صرف ایک ٹکہ لے آتا ۔ بلکہ مال بیچنے میں ان کی مدد بھی کرتا ۔  قرض پر سود دراصل اسی سائیکل والے بنک آفیسر کی تنخواہ تھی ۔

جب اتنی رقم واپس ا جاتی کہ اگلے گھر کو قرضہ دیا جا سکے تو چھٹا گھر شامل ہو جاتا۔

اس طرح قرضے کے منتظر گھر بھی خیال رکھتے کہ پہلوں کے کاروبار کامیاب ہوں ۔ بروقت قرض واپس ملے تاکہ وہ بھی شامل ہو سکیں ۔

قرض کی شرائط بھی انوکھی تھیں

@ قرض لینے والا بچوں خصوصاً بچیوں کو سکول بھیجنے گا

@ چھوٹی عمر کے بچوں کی شادی نہیں کرے گا

@ شادی پر جہیز لینے یا دینے والوں کا قرضہ منسوخ کر دیا جائے گا

@ قرض لینے والا 10 درخت لگائے گا جس میں پھل دار درخت بھی شامل ہوں ۔

@ گھر ، رسوئی اور باتھ روم کی صفائی لازم ہو گی ۔ ہاتھ دھوئے بغیر کھانے نہیں کھائیں گے ۔ خواتیں ماہواری کے دوران صفائی کا خاص خیال رکھیں گی ۔

@ عورت یا بچوں کو مار پیٹ کرنے والے مرد کو قرضہ نہیں ملے گا

محظ دو سال کے بعد اس گاؤں میں آئی معاشی خوشحالی کی شہرت پھیلنے لگے ۔ مزید چند سالوں میں گرامین بنک درجنوں دیہاتوں میں پہنچ چکا تھا ۔ میڈیا پر چرچے ہونے لگے تو حکومت بھی متوجہ ہوئی ۔

1984 میں حکومت نے گرامین بنک کو ریگولر بنک کا سٹیٹس دے دیا ۔ 

بین الاقوامی شہرت ملی تو بڑھے ادارے دیکھنے پہنچ گئے ۔ ورلڈ بنک نے اس ماڈل کو گود لے لیا اور 64’ممالک میں اس ماڈل کو نافد کرنے کے پلان پر عمل شروع کیا ۔

اسی گرامین بنک سے مستفید خواتیں نے بنگہ دیش کی صنعتی ترقی میں اہم ریسورس کا کردار ادا کرتے ہوئے صنعتی انقلاب کی داغ بیل ڈالی ۔

آج دنیا کی تقریباً ہر بڑی یونیورسٹی میں گرامین بنک کو بطور کیس سٹڈی پڑھایا جاتا ہے ۔

2006 میں پروفیسر ڈاکٹر محمد یونس کو مائیکرو فنانسنگ کے ایسے شاندار ماڈل پر نوبل انعام سے نوازا کیا ۔

ڈاکٹر یونس صرف گرامین بنک تک نہیں رکے ۔ انہیں نے لگ بھگ 50 مزید ادارے اور صنعتیں  بنگلہ دیش کا معاشی ستون بنائے ۔

کیونکہ ڈاکٹر محمد یونس شیخ حسینہ کی پالیسیوں سے اختلاف رکھتے تھے تو شیخ حسینہ نے ڈاکٹر یونس کو بھی نہ بخشا ۔ ان کے خلاف کیس بنائے گئے ۔ ہراساں کیا گیا ۔ جس پر ڈاکٹر یونس ملک چھوڑ گئے ۔

آج بنگلہ دیش میں گرامین بنک کی 2656 برانچیں ہیں اور  یہی ڈاکٹر محمد یونس آج کے بنگلہ دیشی یوتھ کی پہلی ترجیح ہے۔کاپی

Loading