Daily Roshni News

کیا بچوں کو ڈرا کر پالنا واقعی تربیت ہے؟ ایک تلخ حقیقت!

کیا بچوں کو ڈرا کر پالنا واقعی تربیت ہے؟ ایک تلخ حقیقت!

ہالینڈ(ڈیلی روشنی نیوز انٹرنیشنل )ہمارے معاشرے میں اکثر یہ سوچ پائی جاتی ہے کہ اگر بچوں کو ڈرا کر، سختی سے یا خوف دلا کر تربیت دی جائے تو وہ “سیدھے راستے” پر آ جائیں گے۔ اسے “فیئر بیسڈ پیرنٹنگ” (Fear Based Parenting) کہا جاتا ہے۔ لیکن کیا واقعی یہ طریقہ کارگر ہے؟ یا پھر اس کے نتائج ہماری نسلوں کے لیے ایک خاموش تباہی کی شکل میں سامنے آ رہے ہیں؟

ماہرینِ نفسیات کی رائے اس بارے میں واضح ہے: *ڈر پر مبنی تربیت بچوں کی ذہنی، جذباتی اور سماجی نشوونما کے لیے زہر قاتل ہے۔*

آئیے جانتے ہیں کہ بچوں کو ڈرا کر پالنے کے کیا خطرناک نتائج ہو سکتے ہیں۔

  1. *نفسیاتی تباہی – اندر سے ٹوٹتے بچے*

جب بچے بار بار ایسی باتیں سنتے ہیں جیسے:

* “چپ ہو جاؤ ورنہ بھوت آ جائے گا”

* “سو جاؤ ورنہ پولیس لے جائے گی”

* “ادھر مت جاؤ، باہر لوگ بچوں کو اٹھا لیتے ہیں”

تو ان کا نازک ذہن ان باتوں کو حقیقت سمجھ کر مسلسل خوف میں جینا شروع کر دیتا ہے۔ رفتہ رفتہ یہی خوف ان کی شخصیت کا حصہ بن جاتا ہے۔

مشہور ماہرِ نفسیات *سلمان آصف صدیقی* کہتے ہیں:

> “بعض والدین بچوں کو اپنے آپ سے ویسے ڈراتے ہیں جیسے اللہ سے ڈرایا جانا چاہیے۔ یہ رویہ نہ صرف غیر فطری ہے بلکہ انتہائی نقصان دہ بھی ہے۔”

یہ خوف بچپن میں تو ان کی خاموشی بن جاتا ہے، لیکن بڑے ہو کر یہی بچے *اعتماد کی کمی، ڈپریشن اور بےچینی* کا شکار ہو جاتے ہیں۔

  1. *اعتماد کا خاتمہ – جب محفوظ پناہ گاہ ہی غیر محفوظ بن جائے*

بچے اپنے والدین کو اپنی سب سے محفوظ پناہ گاہ سمجھتے ہیں۔ جب یہی ماں باپ انہیں مسلسل ڈرائیں، دھمکائیں، یا سزا سے خوفزدہ کریں تو بچے ان سے دور ہونے لگتے ہیں۔

* وہ اپنے دل کی بات چھپانے لگتے ہیں

* وہ خود کو اکیلا محسوس کرنے لگتے ہیں

* انہیں یہ خوف رہتا ہے کہ “اگر میرے اپنے مجھے نہیں سمجھتے، تو باقی دنیا کیا سمجھے گی؟”

ایسے بچے معاشرے میں گھلنے ملنے سے کترانے لگتے ہیں اور کئی دفعہ ان میں *سوشیل فوبیا* (Social Anxiety) پیدا ہو جاتا ہے۔

  1. *جھوٹ بولنے کی ابتدا – سچ کا گلا گھونٹنا*

بچے فطری طور پر غلطی کرتے ہیں، کیونکہ وہ سیکھنے کے عمل میں ہوتے ہیں۔

لیکن اگر ہر غلطی پر انہیں ڈانٹ، سزا، یا ذلت کا سامنا ہو تو وہ سچ بولنے کے بجائے جھوٹ کا سہارا لینے لگتے ہیں تاکہ سزا سے بچ سکیں۔

یہ جھوٹ وقتی طور پر انہیں بچا تو لیتا ہے، لیکن یہی جھوٹ رفتہ رفتہ ان کی *اخلاقی بنیادوں کو کمزور* کر دیتا ہے۔

* وہ اپنی غلطی ماننے سے ڈرتے ہیں

* وہ احساسِ جرم میں جیتے ہیں

* اور سب سے بڑھ کر، وہ اپنی اصل شخصیت کو چھپانے لگتے ہیں

یہ عادت نہ صرف دنیاوی معاملات میں انہیں نقصان دیتی ہے بلکہ ان کی دینی تربیت کو بھی متاثر کرتی ہے۔

نتیجہ: خوف نہیں، محبت اور فہم پر مبنی تربیت دیں

یاد رکھیں، تربیت کا مقصد بچے کو ڈرا کر فرمانبردار بنانا نہیں، بلکہ سمجھا کر باشعور انسان بنانا ہے۔ محبت، ہمدردی، اور مکالمہ ہی وہ ذرائع ہیں جن سے ایک مضبوط اور متوازن شخصیت پروان چڑھ سکتی ہے۔

بچوں کی تربیت میں “خوف” کی جگہ “فہم”، “مار” کی جگہ “بات”، اور “دھمکی” کی جگہ “مثال” کو دیجئے۔

کیونکہ بچہ جیسا سنتا ہے، ویسا ہی بنتا ہے

اور اگر وہ صرف ڈر سنتا ہے، تو وہ صرف خوف میں جیتا ہے ۔

۔

Loading