Daily Roshni News

کیا دیکھا ، کیا سیکھا؟۔۔۔ تحریر۔۔۔جاوید  چوہدری۔۔۔قسط نمبر1

کیا دیکھا ، کیا سیکھا؟

تحریر۔۔۔جاوید  چوہدری

ہالینڈ(ڈیلی روشنی نیوز انٹرنیشنل ۔۔۔ کیا دیکھا ، کیا سیکھا؟۔۔۔ تحریر۔۔۔جاوید  چوہدری) گھنٹے کے مسلسل سفر کے بعد عید سے دو دن قبل اسلام آباد پہنچا، نیوزی لینڈ اور آسٹریلیا میں 25 دن گزرے۔یہ 25 دن مسافر کی زندگی کے 45 سالوں سے کتنے مختلف تھے ؟ یہ وہ سوال تھا جو وہ سارا راستہ اپنےآپ سے پوچھتا رہا۔ جواب واضح تھا۔

مسافر نے نیوزی لینڈ اور آسٹریلیا میں بے شمار ایسی چیزیں دیکھیں جو باقی دنیا سے مختلف تھیں، مثلا آسٹریلیا عیسائی دنیا کا واحد ترقی یافتہ ملک ہے جس میں پرائمری کے بعد لڑکیوں کے اسکول الگ ہو جاتے ہیں۔

ملک میں کو ایجو کیشن کی سہولت بھی موجود ہے، وہ والدین جو اپنی بچیوں کو مخلوط اسکولوں میں پڑھانا چاہتےہیں، وہ بچیوں کو مخلوط اسکولوں میں بھیجوا دیتے ہیں جب کہ باقی والدین لڑکوں کو مردانہ اسکولوں اور بچیوں کو زنانہ اسکولوں میں داخل کرا دیتے ہیں، یہ سہولت

یورپ اور امریکا میں موجود نہیں، اسکول بارہ جماعتوں تک ہوتے ہیں، بارہ درجے پاس کرنے کے بعد طالب علم یونیورسٹیوں میں چلے جاتے ہیں۔

آسٹریلیا اور نیوزی لینڈ تعلیم کو بہت اہمیت دےرہے ہیں۔

آپ ملک میں کوئی بھی کام کرنا چاہیں ، آپ بال کاٹنا چاہیں یا انشورنس ایجنٹ بنا چاہیں یا پھر کشتی چلانا چاہیں آپ کے لیے ڈپلومہ ضروری ہو گا۔ آپ اس پیچھے کے بغیر کوئی کام نہیں کر سکیں گے چنانچہ ملک بھر میں ہزاروں تعلیمی سینٹر کھلے ہیں، یہ سینٹر آرٹی او“ کہلاتے ہیں، یہ ادارے شہریوں کو چھوٹے چھوٹے کورسز کرواتے ہیں، حکومت کورسز کرنے اور کروانے والوں دونوں کو امداد بھی دیتی ہے، کوئینز لینڈ اسٹیٹ میں حکومت آر ٹی اوز “ کوفی اسٹوڈنٹ کے لحاظ سے ادا ئیگی کرتی ہے، کاسٹ آف لیونگ زیادہ ہے چنانچہ آسٹریلین اور نیوزی لینڈ کے شہری اسکول کی تعلیم کے بعد یونیورسٹی جانے کے بجائے پروفیشنل کورس کرتے ہیں اور کام شروع کر دیتے ہیں۔

اعلیٰ تعلیم کے رجحان میں اس کمی کے باعث یونیورسٹیوں میں زیادہ تر طالب علم غیر ملکی نظر آتے ہیں، آپ کسی یونیورسٹی میں چلے جائیں آپ کو وہاں چینی اور بھارتی طلباء کا قبضہ نظر آئے گا… حکومت اس مسئلے کو سیریں لے رہی ہے چنانچہ یہ یونیورسٹیوں سے فارغ ہونے والے طالب علموں کو شہریت دے کر انھیں وہیں رکھ لیتی ہے …. یوں ان کو سکلڈ لوگ بھی مل جاتے ہیں اور شہریوں کی ” ٹیکس منی بھی ضایع نہیں ہوتی …. ان دونوں ملکوں نے چھوٹی اور مشکل جایز اپنے شہریوں کے لیے آسان بنا دی ہیں۔

تعمیرات ان دونوں ملکوں میں مہنگا ترین آپ کو اس شعبے میں صرف آسٹریلین اور نیوزی لینڈ کے لوگ نظر آئیں گے ، آپ کو سڑک سے کثیر منزلہ عمارت کی تعمیر تک صرف گورے دکھائی دیں گے لیکن آپ لیبارٹریوں، اسپتالوں، ٹیکس ڈیپارٹمنٹ اور فیکٹریوں میں چلے جائیں۔ آپ کو وہاں غیر ملکی زیادہ نظر آئیں گے، یہ چیز ثابت کرتی ہے، حکومت کو جہاں اعلیٰ تعلیم یافتہ لوگوں کی ضرورت ہوتی ہے یہ وہاں غیر ملکیوں کو شہریت کا لالچ دے کر فٹ ” کر لیتی ہے اور جہاں کم تعلیم اور                       معمولی ہنر سے کام چل سکتا ہے یہ وہاں اپنے لوگوں کو فوقیت دیتی ہے، حکومت نے آبادی اور وسائل دونوں پر کڑی نظر ر کھی ہوئی ہے۔

آسٹریلیا کا رقبہ 76 لاکھ 92 ہزار 24 مربع کلو میٹر ہے، یہ پاکستان سے نو گنا بڑا ملک ہے لیکن آسٹر یلیا کی آبادی صرف دو کروڑ 38 لاکھ ہے گویا یہ آبادی کے لحاظ سے پاکستان سے دس گنا چھوٹا ملک ہے، آسٹریلیا کا نوے فیصد رقبہ بے آباد ہے، یہ اگر چاہے تو یہ اس نوے فیصد رقبے پر پاکستان جیسے دس ملک آباد کر سکتا ہے لیکن یہ جانتا ہے ملکوں کو صرف رقبہ درکار نہیں ہو تا انھیں وسائل بھی چاہیے ہوتے ہیں چنانچہ یہ امیگریشن کے معاملے میں بہت سخت ہیں۔

یہ غیر ہنر مند لوگوں کو ملک میں نہیں گھنے دیتے ہاں البتہ آپ اگر اعلی تعلیم یافتہ اور ہنر مند ہیں اور آپ آسٹریلیا کے شہریوں کے لیے فائدہ مند ثابت ہو سکتے ہیں تو آسٹریلیا کے دروازے آپ کے لیے کھلے ہیں۔ آپ خواہ دنیا کے کسی بھی خطے، کسی بھی نسل اور کسی بھی عقیدے سے تعلق رکھتے ہوں آپ کو آسٹریلیا اور نیوزی لینڈ میں خوش آمدید کہا جائے گا۔ پاکستانی ڈاکٹرز، انجینئر ز اور کمپیوٹر ایکسپرٹس اس سہولت کا جی بھر کر فائدہ اٹھا رہے ہیں۔ آپ کو امریکا کے بعد آسٹریلیا میں سیکڑوں ڈاکٹر ملیں گے۔ حکومت وسائل کو بہت اہمیت دیتی ہے۔ یہ جانتی ہے ہم دنیا کو انڈسٹری میں مات نہیں دے سکیں گے چنانچہ انھوں نے زراعت کو اپنی صنعت بنا لیا۔ یہ لوگ لاکھوں ایکڑ پر گنا، کیلا، کپاس اور پھل اگاتے ہیں۔ آسٹریلین گائے اور بھیڑیں دنیا میں پہلے۔۔۔جاری ہے۔

بشکریہ ماہنامہ روحانی ڈائجسٹ  ستمبر 2015

Loading