Daily Roshni News

کیا دیکھا ، کیا سیکھا؟۔۔۔ تحریر۔۔۔جاوید  چوہدری

کیا دیکھا ، کیا سیکھا؟

تحریر۔۔۔جاوید  چوہدری

قسط نمبر2

ہالینڈ(ڈیلی روشنی نیوز انٹرنیشنل ۔۔۔ کیا دیکھا ، کیا سیکھا؟۔۔۔ تحریر۔۔۔جاوید  چوہدری) نمبر پر ہیں۔ آسٹریلیا اور نیوزی لینڈ ڈیری پراڈکٹس پیدا کرنے والے دنیا کے دس بڑے ممالک میں شمار ہوتے ہیں۔ یہ ہر سال 24 بلین ڈالر کی ڈیری مصنوعات بیچتے ہیں۔ دنیا کا مہنگا ترین شہر نیوزی لینڈ میں پیدا ہو تا ہے۔ یہ دونوں ملک دنیا بھر کو گوشت بھی سپلائی کرتے ہیں۔

آسٹریلیا میں پانی کم ہے چنانچہ حکومت نے جدید ترین ایری گیشن سسٹم ایجاد کر لیا، یہ سسٹم دونوں ملکوں میں استعمال ہوتا ہے، آپ اس سسٹم سے کم پانی سے زیادہ فصل حاصل کرتے ہیں۔ آپ اپنے ٹوائلٹ کا فلش سسٹم دیکھئے، آپ کو فلش ٹینک کے ساتھ دو بٹن نظر آئیں گے ، ایک بٹن دبانے سے پوری ٹینکی خالی ہو جاتی ہے جب کہ دوسرے بٹن سے صرف آدھا ٹینک استعمال ہوتا ہے، یہ سسٹم آسٹریلیا نے ایجاد کیا اور یہ اس وقت پوری دنیا میں رائج ہے، اس سے پانی کی بچت ہوتی ہے۔

مسافر 25 دن عام ٹونٹی کا پانی پیتا رہا، کیوں؟ کیونکہ پورے نیوزی لینڈ اور آسٹریلیا میں ٹونٹی کا پانی پینے کے لیے محفوظ ہے چنانچہ وہاں گورنر جنرل سے لے کر عام شہری تک لوگ ٹونٹی کا پانی پیتے ہیں… منرل واٹر صرف سفر کے دوران پیا جاتا ہے….. آپ اس کے مقابلے میں پاکستان کا کوئی ایسا شہر دکھا دیجیے جس میں ٹونٹی کا پانی پیا جا سکتا ہو …. ہمارے ملک میں وزیر اعظم سے واسا کے چیئر مین تک اور وزیر اعلیٰ سے عام شہری تک منرل واٹر پینے پر مجبور ہیں اور جو لوگ نہیں پیتے ان کی زندگی ڈاکٹروں اور اسپتالوں کی محتاج ہو جاتی ہے چنانچہ عوام کے پاس دو آپشن ہیں۔ یہ منرل واٹر کمپنیوں کو پیسے دیں یا پھر ڈاکٹروں اور فارما سوٹیکل کمپنیوں کی خدمت کریں۔ کاش ہم ملک کو صاف پانی ہی فراہم کر دیں۔ آسٹریلیا کی ٹرینوں کی نشستیں بھی مختلف ہیں۔ آپ نشست کی پشت کو کھینچ کر اس کا رخ بدل سکتے ہیں۔ سیٹ وہیں رہتی ہے لیکن بیک کو آگے اور پیچھے کیا جا سکتا ہے یوں آپ اپنا پورا رخ بدل سکتے ہیں۔ یہ بندوبست ٹرینوں کے رخ کو مد نظر رکھ کر کیا گیا، ٹرینوں میں انجمن کبھی ڈبوں کے آگے لگتا ہے اور کبھی پیچھے چنانچہ گھنٹے بعد مسافروں کا رخ بدل جاتا ہے، وہ پہلے آگے کی طرف جارہے ہوتے ہیں اور پھر ترین انھیں پیچھے سے کھینچ رہی ہوتی ہے، مسافر اس صورتحال میں کمفرٹیبل فیل نہیں کرتے چنانچہ حکومت نے اسپیشل سیٹس لگا دیں۔ مسافر اب ان سیٹس کو آگے پیچھے کر کے اپنا رخ بدل لیتے ہیں۔ مسافر کو آسٹریلیا میں ایک اور دلچسپ چیز بھی نظر آئی۔ آسٹریلیا کا ٹیکس ڈیپارٹمنٹ ہر سال ائم ٹیکس وصول کرنے کے بعد ٹیکس دہندہ کو ایک خط لکھتا ہے، یہ ٹیکس دہندہ کا شکر یہ ادا کرتا ہے۔ ملکی معیشت کے اعداد و شمار دیتا اور پھر اسے بتاتا ہے آپ نے اس معیشت میں کتنا حصہ ڈالا اور اب آپ کا ٹیکس کہاں کہاں خرچ ہو گا۔

یہ خطے مسافر کے لیے ایک دلچسپ چیز تھی کیونکہ اس محط میں حکومت وہ تمام معلومات عام شہری کے دروازے تک پہنچاتی ہے جو ہماری حکومتیں ملک کے خاص لوگوں تک سے خفیہ رکھتی ہیں۔ آسٹریلین حکومت ٹیکس کا سب سے بڑا حصہ صحت پر خرچ کرتی ہے۔ اس کے بعد ویلفیئر پر اور اس کے بعد تعلیم اور دفاع کی باری آتی ہے۔ آسٹریلین لوگ ناموں کو مختصر کرنے کے ماہر ہیں، میں وہاں پانی کر جاوید سے ” ہے ” تھا، رضوی رز تھا، شہباز شیب تھا، عامر امیر تھا اور فیاض فیض۔ یہ ہر نام، ہر لفظ کو مختصر کر دیتے ہیں۔

فٹ بال کو پوری دنیا میں فٹ بال کہا جاتا ہے لیکن آسٹریلین فٹ بال کو فٹی ” کہتے ہیں۔ آسٹریلین فٹی اپنے نام کی طرح فٹ بال سےذرا سا مختلف کھیل ہے۔

یہ لوگ یونیورسٹی کو “یونی” کہتے ہیں، مسافر نے دنیا کے کسی حصے میں یونیورسٹی کو یونی نہیں سنا۔ آسٹریلیا کے پاس کھلا آسمان اور وسیع ساحل ہیں، حکومت نے ان دونوں کو سیاحت کا ذریعہ بنا لیا، ملک میں ایسی سیکڑوں ہوائی کمپنیاں ہیں جو سیاحوں کو پیرا شوٹ کے ذریعے آسمان سے کودنے کا موقع فراہم کرتی ہیں۔

یہ کھیل سکائی ڈائیو“ کہلاتا ہے، مسافر نے بھی زندگی میں پہلی بار سڈنی کے مضافات میں ”سکائی ڈائیو کی، ہمیں جہاز کے ذریعے چودہ ہزار فٹ کی بلندی پر لے جایا گیا اور وہاں سے نیچے پھینک دیا گیا، یہ ایک ہولناک تجربہ تھا لیکن یہ اس کے ساتھ ساتھ شاندار تفریح بھی تھی، ساحلوں پر سکوبا ڈائیونگ“ بھی کرائی جاتی ہے، آپ کی پشت پر آکسیجن کا سیلنڈر باندھ کر آپ کو گہرے پانی میں پھینک دیا جاتا ہے اور آپ پانی میں میل ڈیڑھ میں نیچے جا کر آبی زندگی دیکھتے ہیں، مسافر پانی سے گھبراتا ہے چنانچہ یہ سکوبا ڈائیونگ نہ کر سکا۔

پاکستان سے لوگ پہلی بار 1861ء میں آسٹریلیا گئے تھے ، یہ انگریز کا زمانہ تھا، آسٹریلیا آباد ہو رہا تھا۔ کراچی کے بلوچ اونٹ لے کر آسٹر یلیا پہنچے اور یہ اور ان کے اونٹ آسٹریلیا میں رچ بس گئے ، یہ لوگ آج بھی وہاں موجود ہیں لیکن یہ آسٹریلین بن چکے ہیں۔

یہ خان کی مناسبت سے “خان” کہلاتے ہیں۔ ان کی اکثریت مذہب تک تبدیل کر چکی ہے۔ آسٹریلیا میں 1861ء تک اونٹ نہیں تھا۔ پاکستانی خان اونٹ لے کر آسٹریلیا گئے۔ آج آسٹریلیا میں پاکستانی اونٹوں کی تعداد اتنی زیادہ ہے کہ یہ لوگ نہ صرف اونٹ ایکسپورٹ کرتے ہیں بلکہ یہ اونٹوں کی آبادی کنٹرول رکھنے کے لیے انھیں گولی مارنے پر بھی مجبور ہو جاتے ہیں۔ میلبورن کے قدیم ریلوے اسٹیشن کے ساتھ لوہے کا پرانا پیل ہے۔ اس پل پر ان 128 ممالک کی تختیاں لگی ہیں جن کے باشندے آسٹریلیا میں موجود ہیں، ان 128 تختیوں میں پاکستان کی سختی بھی شامل ہے، تختی پر لکھا ہے، آسٹریلیا میں پاکستانی 1861ء سے آنا شروع ہوئے۔ یہ 1900ء سے قبل کراچی، لاہور، سیالکوٹ اور کے پی کے سے آئے۔ ان کی آمد کا سلسلہ آج بھی جاری ہے۔ مسافر سختی کے پاس رک گیا اور اس نے اپنے آپ سے پوچھا رزق کتنی خوفناک چیز ہے، یہ انسان سے وطن بھی چھین لیتا ہے اور رشتے بھی ” مسافر نے دیکھا، میلبورن کے اس پل پر 128 ممالک کی تختیوں کے سائے میں زندگی کی یہ سب سے بڑی حقیقت لکھی تھی۔

ہم انسان رزق کھاتے ہیں لیکن یہ رزق اکثر اوقات ہم انسانوں کے وطن سمیت سارے رشتے کھا جاتا ہے۔ ہم انسان کس قدر مظلوم ہیں، مسافر نے 25 دن کے اس سفر میں ہر جگہ یہ دیکھا، ہر جگہ یہ سیکھا۔

بشکریہ ماہنامہ روحانی ڈائجسٹ  ستمبر 2015

Loading