اس موسم مونگ پھلی کو کھانا متعدد افراد کو پسند ہوتا ہے مگر کیا اس سے ذیابیطس کے مریضوں کی صحت پر منفی اثرات تو مرتب نہیں ہوتے؟
اب ان میں ذیابیطس کے مریض بھی شامل ہوتے ہیں جن کے لیے مونگ پھلی کو دیکھ کر ہاتھ روکنا مشکل ہو جاتا ہے۔
ذیابیطس کا مرض بہت عام ہوچکا ہے اور یہی وجہ ہے کہ مریض اکثر سوچتے ہیں کہ مونگ پھلی کو کھانا نقصان دہ تو نہیں۔
ذیابیطس کے مریضوں کو ایسی غذا کا استعمال کرنے کی ضرورت ہوتی ہے جس کو کھانے کے بعد بلڈ شوگر کی سطح میں بہت تیزی سے زیادہ اضافہ نہ ہو۔
مونگ پھلی میں موجود اجزا
مونگ پھلی بنیادی طور پر گری نہیں بلکہ ایک پھلی ہے جیسا نام سے ظاہر ہوتا ہے۔
چونکہ مونگ پھلی کی خصوصیات پھلیوں اور گریوں دونوں سے ملتی جلتی ہوتی ہیں اسی وجہ سے اکثر اسے گری ہی تصور کیا جاتا ہے۔
ایسے متعدد شواہد موجود ہیں جن سے عندیہ ملتا ہے کہ کسی فرد کی صحت کے لیے پھلیوں اور گریوں کا استعمال مفید ہوتا ہے۔
ایک تحقیق میں بتایا گیا کہ گریوں اور پھلیوں سے امراض قلب، ہائی بلڈ پریشر، ہائی کولیسٹرول اور دیگر امراض کا خطرہ کم ہوتا ہے، ذیابیطس کے مریض کے لیے ان سب پیچیدگیوں کا خطرہ بہت زیادہ ہوتا ہے۔
28 گرام مونگ پھلیاں کھانے سے جسم کو 161 کیلوریز، 7.31 گرام پروٹین، 4.57 گرام کاربوہائیڈریٹس، 26 ملی گرام کیلشیئم، 1.3 ملی گرام آئرن، 48 ملی گرام میگنیشم، 107 ملی گرام فاسفورس، 200 ملی گرام پوٹاشیم، 5 ملی گرام سوڈیم اور 0.93 ملی گرام زنک جیسے اجزا ملتے ہیں۔
مونگ پھلی میں چکنائی، بی وٹامنز اور وٹامن ای کی بھی کچھ مقدار موجود ہوتی ہے۔
بلڈ شوگر پر کیا اثرات مرتب ہوتے ہیں؟
طبی ماہرین کے مطابق مونگ پھلی میں موجود غذائی اجزا صحت کے لیے مفید ہوتے ہیں اور اس کو کھانے سے بلڈ گلوکوز کی سطح پر بہت کم اثرات مرتب ہوتے ہیں۔
ذیابیطس کے مریضوں کو اپنی ہر غذا کا انتخاب گلائسمک انڈیکس (جی آئی) اسکور کو مدنظر رکھ کر کرنا ہوتا ہے۔
اس انڈیکس میں کسی غذا کی درجہ بندی بلڈ شوگر پر مرتب ہونے والے اثرات کو مدنظر رکھ کر 0 سے 100 اسکور کے درمیان کی جاتی ہے۔
0 سے مراد بلڈ شوگر پر کوئی اثر مرتب نہ ہونا ہے تو 100 خالص چینی کی نشاندہی کرتا ہے۔
مونگ پھلی کا جی آئی اسکور محض 14 ہے اور اسی وجہ سے ذیابیطس کے مریضوں کے لیے اس کا استعمال صحت کے لیے مفید ہوسکتا ہے، بس اعتدال میں رہ کر کھانا چاہیے۔
دل کی صحت پر اثرات
ذیابیطس کے مریضوں میں دل کی شریانوں کے امراض کا خطرہ بہت زیادہ ہوتا ہے اور اسی وجہ سے انہیں غذائی انتخاب محتاط رہ کر کرنا چاہیے تاکہ امراض قلب اور فالج کا خطرہ بھی کم کرسکیں۔
تو جو بھی غذا دل کی صحت کے لیے مفید ہو وہ ذیابیطس کے مریضوں کے لیے بھی فائدہ مند ثابت ہوسکتی ہے۔
ایک تحقیق میں دریافت کیا گیا تھا کہ مونگ پھلی اور دیگر گریوں کو کھانے کے عادی افراد میں امراض قلب سے موت کا خطرہ کم ہوتا ہے۔
تحقیق سے عندیہ ملتا ہے کہ مونگ پھلی کھانے اور دل کی اچھی صحت کے درمیان تعلق ہوسکتا ہے مگر اس حوالے سے مزید تحقیق کی ضرورت ہے۔
فائبر کی موجودگی
مونگ پھلی میں فائبر بھی موجود ہوتا ہے اور اس غذائی جز کا استعمال کولیسٹرول لیول کو کم کرتا ہے، پیٹ بھرنے کا احساس زیادہ دیر تک برقرار رہتا ہے جبکہ شکر کے جذب ہونے کا عمل سست کرتا ہے۔
تحقیقی رپورٹس کے مطابق فائبر کے زیادہ استعمال سے ذیابیطس ٹائپ 2 سے متاثر ہونے کا خطرہ 20 سے 30 فیصد تک کم ہوتا ہے۔
جسمانی وزن میں کمی
مونگ پھلی میں چکنائی اور کیلوریز کی مقدار زیادہ ہوتی ہے مگر کچھ تحقیقی رپورٹس کے مطابق اعتدال میں رہ کر اسے کھانے سے جسمانی وزن میں کمی لانے میں مدد مل سکتی ہے۔
تمام تر فوائد کے باوجود ذیابیطس کے مریضوں کو کچھ احتیاط کی بھی ضرورت ہوتی ہے کیونکہ اس سے کچھ مضر اثرات بھی مرتب ہوسکتے ہیں۔
اومیگا 6 فیٹی ایسڈز
مونگ پھلی میں کسی بھی گری کے مقابلے میں اومیگا 6 فیٹی ایسڈز کی مقدار سب سے زیادہ ہوتی ہے۔
شواہد سے عندیہ ملا ہے کہ ان فیٹی ایسڈز کا زیادہ استعمال ورم میں اضافہ کرتا ہے جس سے ذیابیطس کی علامات کی شدت بڑھ سکتی ہے اور موٹاپے کا خطرہ بھی بڑھتا ہے۔
تو غذا میں اومیگا 3 اور اومیگا 6 کے اچھے توازن کو یقینی بنانا ضروری ہوتا ہے۔
الرجی
کچھ افراد کے لیے مونگ پھلی کا سب سے بڑا خطرہ سنگین الرجی ری ایکشن ہوسکتا ہے۔
اس حوالے سے ڈاکٹر زیادہ بہتر نشاندہی کرسکتے ہیں کہ آپ کا جسم مونگ پھلی کھانے پر الرجی ری ایکشن تو ظاہر نہیں کرتا۔
زیادہ کیلوریز
ویسے تو مونگ پھلی ذیایبطس کے مریضوں کے لیے مفید ہوتی ہے مگر کیلوریز کی مقدار بہت زیادہ ہوتی ہے۔
اسی وجہ سے اعتدال میں رہ کر اسے کھانا ضروری ہے۔
نوٹ: یہ مضمون طبی جریدوں میں شائع تفصیلات پر مبنی ہے، قارئین اس حوالے سے اپنے معالج سے بھی ضرور مشورہ کریں۔
![]()
