کیا ہم موت کو شکست دے سکتے ہیں؟
تحریر۔۔۔عامر پٹنی
ہالینڈ(ڈیلی روشنی نیوز انٹرنیشنل ۔۔۔ کیا ہم موت کو شکست دے سکتے ہیں؟۔۔۔ تحریر۔۔۔عامر پٹنی)زندگی کی پُر پیچ راہوں میں انسان کی جستجو ہمیشہ سے ایک ہی نقطے کے گرد گھومتی رہی ہے۔ وہ نقطہ جو کبھی ایک راز ہے تو کبھی کھلی کتاب۔ ایک دروازہ جو صرف باہر سے کھلتا ہے، جس کے اُس پار جانے والے کبھی لوٹ کر نہیں آتے۔ یہ دروازہ “موت” ہے۔
موت، جو زندگی کی آخری منزل نہیں، بلکہ ایک نئے سفر کی ابتدا ہے,ایک ایسا سفر جس کے مسافر کی واپسی ممکن نہیں، جس کے بارے میں جتنا سوچا جائے، سوال اتنے ہی بڑھتے جاتے ہیں۔ انسان نے صدیوں سے اس معمے کو حل کرنے کی کوشش کی ہے۔
فلسفیوں نے اس پر غور کیا، مذہب نے اس کی تشریح کی اور سائنس نے اسے تسخیر کرنے کی کوشش کی۔ زیرِ نظر تحریر اسی ازلی راز کی پرتیں کھولنے کی ایک عاجزانہ کوشش ہے۔ اس مضمون میں ہم مذہب اور سائنس کی آنکھ سے موت کو دیکھیں گے، ثقافتوں کی بولی میں اسے سمجھیں گے اور ان جدید تصورات کی کھوج بھی لگائیں گے جنہوں نے انسان کو موت کے کنارے کھڑا کر کے زندگی کو از سرِ نو دیکھنے پر مجبور کر دیا ہے۔
موت کو عام طور پر ایک ایسا وقت سمجھا جاتا ہے جب ایک جاندار کے جسم کے ضروری کام ہمیشہ کے لیے بند ہو جاتے ہیں۔ یعنی جسم اب نہ سانس لیتا ہے، نہ خون پمپ کرتا ہے، اور نہ ہی توانائی حاصل کر سکتا ہے۔
یوں سمجھیں کہ وہ جسم جو پہلے زندہ تھا، اب بے جان مادہ بن جاتا ہے۔سائنس کی نظر میں، جب جسم کی سرگرمیاں واپس نہ آ سکیں، تو اسے “موت” کہا جاتا ہے۔
آج کل کے ڈاکٹر موت کو عام طور پر “دماغی موت” سے پہچانتے ہیں۔ یعنی جب دماغ میں کوئی برقی سگنل باقی نہ رہے، تو سمجھا جاتا ہے کہ انسان مر چکا ہے۔امریکہ کے قانون (UDDA) کے مطابق بھی موت دو طریقوں سے پہچانی جا سکتی ہے:جب دل اور پھیپھڑوں کا کام ہمیشہ کے لیے بند ہو جائے،یا جب پورا دماغ (دماغ کا مرکزی حصہ یعنی برین سٹیم بھی شامل ہے) ہمیشہ کے لیے بند ہو جائےقریب الموت تجربات، یعنی Near-Death Experiences (NDEs)، آج کل سائنسی تحقیق کا ایک بہت دلچسپ اور اہم موضوع بن چکے ہیں۔ تحقیق سے معلوم ہوا ہے کہ دنیا بھر میں تقریباً 5 سے 10 فیصد لوگچاہے وہ عام افراد ہوں یا دل کے دورے سے بچ جانے والے مریض ایسے تجربات کی رپورٹ دیتے ہیں۔
زیادہ تر سائنسدان اس بات پر متفق ہیں کہ یہ NDEs کوئی خیالی یا خود ساختہ باتیں نہیں، بلکہ حقیقی شعوری تجربات ہوتے ہیں، جو فرد اُس وقت محسوس کرتا ہے جب وہ زندگی اور موت کے درمیان ہوتا ہے۔
امریکہ اور یورپ میں ہونے والی مشہور تحقیق AWARE اسٹڈی کے مطابق، کچھ لوگ جسمانی موت کے دوران ایسا محسوس کرتے ہیں جیسے وہ اپنے جسم سے باہر نکل آئے ہوں (جسے Out-of-Body Experience – OBE کہا جاتا ہے)، اور بعض اوقات وہ اپنے اردگرد کی چیزوں کو بڑی وضاحت سے دیکھ اور یاد بھی کر لیتے ہیں۔
ایک حیران کن مثال میں، ایک مریض نے بتایا کہ جب اُس کا دل تقریباً تین منٹ تک بند رہا، تب بھی وہ ہوش میں تھا اور اُس نے آپریشن روم میں موجود حقائق کو بالکل درست طریقے سے بیان کیا۔
پہلے سائنسدان سمجھتے تھے کہ موت ایک مخصوص لمحے میں واقع ہوتی ہے,یعنی جیسے ہی دل یا دماغ بند ہو جائے، انسان مر جاتا ہے۔ لیکن نئی تحقیق اس خیال کو چیلنج کر رہی ہے۔
اب سائنس یہ کہتی ہے کہ موت دراصل ایک تدریجی عمل ہے، نہ کہ صرف ایک لمحہ۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ دل، پھیپھڑے اور دماغ بند ہونے سے پہلے بھی کچھ وقت کے لیے انسان کا شعور سرگرم رہ سکتا ہے۔
شعور اور موت کے باہمی تعلق پر بھی تحقیقی بحث جاری ہے۔ روایتاً یہ خیال رہا کہ دل رکنے کے بعد شعور فوراً ختم ہو جاتا ہے، مگر جدید معلومات اس تصور کو سوالات میں ڈال رہی ہیں۔
مثال کے طور پر گارڈین اخبار میں شائع رپورٹ کے مطابق کارڈیک aاریسٹ سے بچ جانے والوں میں دس سے بیس فیصد نے قریب الموت تجربات بیان کیے ہیں، جس سے یہ اشارہ ملتا ہے کہ دماغ کی کارکردگی ختم ہونے کے بعد بھی شعور کسی وقت تک جاری رہ سکتا ہے۔
سائنسدان اکنونولوجسٹ جیمو برجگنز کہتے ہیں کہ دل بند ہونے پر دماغ میں “وہ چیز” ہو رہی ہے جو سمجھ سے بالاتر ہے۔ اس لحاظ سے موت کو مکمل وقفے سے زیادہ ایک پراسرار عمل سمجھا جا رہا ہے جس میں شعور کے تجربے مکمل طور پر ختم نہیں بھی ہوتے.
سقراط کے نزدیک موت سے ڈرنا علم کی کمی ہے۔ اُن کے مطابق، ہمیں نہیں معلوم کہ موت کیا ہے، اس لیے بغیر جانے ڈرنا عقلمندی نہیں۔ افلاطون نے اپنی کتاب “Apology” میں سقراط کا یہ نظریہ بیان کیا ہے کہ:زندگی سیکھنے کا موقع ہے، اور موت روح کی آزادی ہے۔
فلسفے کی نظر میں موت کیا ہے اس پر بھی تھوڑی نظر ڈالتے ہیں
سقراط کہتے ہیں کہ موت کا مطلب ہے روح کا جسم سے نکل جانا اور ایک نئے سفر کا آغاز، جہاں روح اعلیٰ دنیا کی طرف روانہ ہوتی ہے۔
افلاطون نے اپنی کتاب “Phaedo” میں یہ دعویٰ کیا کہ روح لاموت ہے، یعنی وہ مرتی نہیں۔ انہوں نے روح کی بقا کے چار فلسفیانہ دلائل دیے، جن میں کہا گیا کہ:موت کے بعد روح آزاد ہو کر بےشکل حقیقتوں (جیسے سچ، خوبصورتی، نیکی) کا ادراک کرتی ہے، جنہیں ہم زندگی میں مکمل طور پر نہیں سمجھ پاتے۔
ارسطو نے اس خیال سے اختلاف کیا۔ ان کے مطابق، روح جسم کا ایک روحانی پہلو یا “جوہر” ہے، نہ کہ کوئی آزاد ہستی۔ ان کا کہنا تھا:
جب جسم ختم ہوتا ہے، تو شعور اور عقل بھی ختم ہو جاتے ہیں۔
انسان کی عقل, عقلی روح جسم سے الگ ہو کر باقی نہیں رہ سکتی۔
لہٰذا ارسطو کے نزدیک، موت کے بعد انسان کا شعور یا آگہی باقی نہیں رہتی۔
جدید فلسفیوں نے موت کو انسان کے وجود اور شعور کے تجزیے میں ایک اہم نکتہ سمجھا ہے۔ خاص طور پر وجودیت پسند (Existentialist) فلسفیوں نے موت کو ایک اٹل حقیقت اور انسانی تجربے کا لازمی حصہ قرار دیا، مگر ہر ایک نے اسے مختلف انداز میں سمجھا۔
سارتر کا کہنا ہے کہ موت انسان کے وجود کی ساخت (structure) نہیں بناتی۔ انسان کا وجود خود میں ہوتا ہے، نہ کہ کسی خارجی انجام (جیسے موت) کے سبب۔ اُن کے مطابق:”ہم پیدا ہوتے ہیں تو یہ حماقت ہے، مرتے ہیں تو بھی حماقت ہے۔”
یعنی موت اُن کے نزدیک ایک بےمعنی (absurd) چیز ہے۔ مگر چونکہ موت ناگزیر ہے، اس لیے اسے جھٹلایا نہیں جا سکتا۔
کیموس نے اپنی مشہور تحریر “The Myth of Sisyphus” میں زندگی کی بےمعنویت (meaninglessness) اور موت کے تضاد کو “ابسرڈو” (Absurdity) کہا۔ ان کے نزدیک:انسان زندگی میں امیدوں کے سہارے آگے بڑھتا ہے،حالانکہ وہ جانتا ہے کہ ایک دن مرنا ہے۔
یہی تضادزندگی کی جدوجہد اور موت کی یقینی موجودگی،انسان کو ایک ایسی کیفیت میں لے آتا ہے جس میں وہ یا تو مایوس ہو جائے، یا پھر بغاوت کرے۔ کیموس کہتے ہیں:زندگی کا مقصد بہترین زندگی نہیں، بلکہ بھرپور زندگی ہے۔یعنی انسان کو موت کا سامنا کر کے، زندگی کو آزادی، بغاوت، اور شدت کے ساتھ جینا چاہیے۔
وجودیت پسندی میں موت ہمیں یاد دلاتی ہے کہ وقت محدود ہے۔ اس احساس کے ذریعے:انسان اپنی زندگی کی قدر سمجھتا ہے،اپنی تقدیر خود بناتا ہے،اور خود ہی اپنی زندگی کے معنی تخلیق کرتا ہے۔
روحانی اور ماورائے فطرت (supernatural) خیالات میں موت محض ایک اختتام نہیں، بلکہ روح کے سفر کا آغاز سمجھی جاتی ہے۔ زیادہ تر روحانی روایات کے مطابق:روح جسم سے علیحدہ اور لازوال ,لاموتہے،اور موت کے بعد وہ ایک اعلیٰ روحانی دنیا کی طرف جاتی ہے۔
قریبُ المرگ تجربات (NDEs) میں اکثر لوگ یہ بتاتے ہیں کہ انہوں نے اپنا جسم باہر سے دیکھا، جیسے وہ جسم سے باہر نکل کر اردگرد کا مشاہدہ کر رہے ہوں۔ جدید تحقیق سے پتا چلا ہے کہ:تقریباً 10 سے 20 فیصد افراد کو زندگی میں کبھی نہ کبھی OBE ہوتا ہے۔
ان تجربات کو محسوس کرنے والے اسے “شہادت کی طرح” بیان کرتے ہیں یعنی یہ نہایت حقیقت کے قریب محسوس ہوتا ہے۔
بعض افراد یہ بھی محسوس کرتے ہیں کہ روح جسم سے باہر نکل کر کائناتی شعور کا حصہ بن جاتی ہے۔
ایک اور دلچسپ روحانی تصور پُنرجنم (reincarnation) ہے، جس کے مطابق روح ایک جسم سے دوسرے جسم میں منتقل ہوتی رہتی ہے۔امریکہ کی ورجینیا یونیورسٹی کے محقق ڈاکٹر جم ٹکر (Jim Tucker) نے ہزاروں بچوں کے کیسز جمع کیے ہیں جنہوں نے اپنے پچھلے جنم کی مخصوص یادداشتیں بیان کیں۔ان میں سے کئی بچوں نے ایسے افراد اور حالات کا ذکر کیا جو بعد میں درست ثابت ہوئے۔
اگرچہ روایتی سائنس اس کو پوری طرح تسلیم نہیں کرتی، مگر کچھ ماہرین اسے روح کی مسلسل بقا کا اشارہ سمجھتے ہیں۔
روحانی روایات اور بعض جدید مشاہدات کے مطابق:موت کے بعد بھی شعور کسی نہ کسی شکل میں موجود رہ سکتا ہے۔
کچھ روایات کے مطابق، روح جسم کے بغیر بھی نئی دنیاوں میں جا سکتی ہے، یا مافوق حسی بصارت حاصل کر سکتی ہے (یعنی ایسے مشاہدات کرنا جو عام حواس سے ممکن نہیں)۔
جدید سائنسی تحقیق جیسا کہ Southampton University اور UVa کی اسٹڈیز اس خیال کو پوری طرح رد نہیں کر سکی کہ موت کے بعد انسان کا کوئی شعور باقی نہ رہے۔ بلکہ کچھ مشاہدات ایسے بھی سامنے آئے ہیں جو بتاتے ہیں کہ شعور کچھ وقت کے لیے موت کے بعد بھی سرگرم رہ سکتا ہے۔
مذاہب میں موت کو کس نظر سے دیکھا جاتا ہے یہ وہ بنیادی سوال ہے جس کی تفہیم نہایت ضروری ہے، کیونکہ یہی نقطۂ نظر انسان کے وجود، اس کے انجام اور حیاتِ بعد الموت کے تصورات کو جِلا بخشتا ہے۔
اسلام میں موت کا تصور
اسلام میں موت کا مفہوم صرف زندگی کا اختتام نہیں بلکہ ایک نئے سفر کی شروعات ہے۔ قرآنِ کریم میں ارشاد ہے:
“كُلُّ نَفْسٍ ذَائِقَةُ الْمَوْتِ”
(ہر جان کو موت کا مزہ چکھنا ہے – آلِ عمران: 185)
یہ آیت واضح کرتی ہے کہ موت ایک حتمی حقیقت ہے جس سے کسی کو مفر نہیں۔ مگر یہ اختتام نہیں، بلکہ ابدی زندگی (آخرت) کی شروعات ہے جہاں انسان کو اس کی دنیاوی زندگی کے اعمال کے مطابق جزا یا سزا دی جائے گی۔
مرنے کے بعد روح “عالمِ برزخ” میں داخل ہوتی ہے، جو ایک درمیانی مقام ہے — نہ یہ دنیا ہے اور نہ آخرت۔ یہاں روح کو قبر میں سوالات کا سامنا ہوتا ہے، جیسا کہ حدیثوں میں مذکور ہے:
“من ربك؟ ما دينك؟ من نبيك؟”
(تمہارا رب کون ہے؟ تمہارا دین کیا ہے؟ تمہارا نبی کون ہے؟)
مومن کو یہاں راحت اور بدکار کو عذاب ہوتا ہے، اور پھر قیامت کے دن سب زندہ کیے جائیں گے، میزان پر اعمال تولے جائیں گے اور جنت یا جہنم کا فیصلہ ہوگا۔
اسلامی رسومات جیسے غسلِ میت، کفن، نمازِ جنازہ اور تدفین — سب کا مقصد میت کے لیے دعا کرنا، اس کی مغفرت مانگنا، اور اس کے ساتھ آخری عزت کا سلوک کرنا ہوتا ہے۔
ہندومت میں موت کا تصور
بھگوت گیتا – باب 2، آیت 22
“جس طرح انسان پرانے کپڑوں کو اتار کر نئے پہنتا ہے، ویسے ہی روح پرانے جسم کو چھوڑ کر نیا جسم اختیار کرتی ہے۔”
باب 2، آیت 20
“روح نہ پیدا ہوتی ہے، نہ مرتی ہے، نہ ہی وہ کبھی فنا ہوتی ہے۔”
ہندو مت کے مطابق موت کسی زندگی کا اختتام نہیں بلکہ ایک نئے جنم کی شروعات ہے۔ ہندو عقیدہ کہتا ہے کہ روح (آتما) امر (immortal) ہے، اور جسم اس کا عارضی لباس ہے۔ جب ایک جسم پرانا ہو جاتا ہے، تو آتما نئے جسم میں جنم لیتی ہے — جیسے ایک انسان پرانے کپڑے اتار کر نئے پہن لیتا ہے۔
یہ عمل پُنرجنم (Reincarnation) کہلاتا ہے، اور اس کا دارومدار انسان کے کیے ہوئے اعمال (کرما) پر ہوتا ہے۔ نیک عمل سے بہتر جنم، اور برے عمل سے پست حالت یا جانوروں کی شکل میں جنم ہو سکتا ہے۔
روح کا حتمی مقصد موکشا ہے یعنی اس جنم و مرگ کے چکر (سنسار) سے آزاد ہو کر برہمن (خدائی وحدت) میں ضم ہو جانا۔ جیسے ایک بوند سمندر میں شامل ہو کر اپنی انفرادیت کھو دیتی ہے، ویسے ہی روح خدائی شعور میں ضم ہو جاتی ہے۔
مسیحیت میں موت کا تصور
یوحنا 11:25
“عیسیٰ نے کہا: میں قیامت اور زندگی ہوں؛ جو مجھ پر ایمان لاتا ہے، وہ اگر مر بھی جائے تو زندہ رہے گا۔”
عبرانیوں 9:27
“اور جس طرح آدمیوں کے لئے ایک بار مرنا مقرر ہے، اس کے بعد عدالت ہے۔”
مسیحیت میں موت جسمانی زندگی کا اختتام ضرور ہے، لیکن روح کے لیے یہ خدا سے ملاقات کا موقع ہوتا ہے۔ بائبل کے مطابق، موت کے بعد انسان کی روح خدا کے حضور پیش کی جاتی ہے۔
نیک لوگ خدا کے ساتھ “جنت” میں داخل ہو جاتے ہیں جہاں دائمی خوشی اور سکون ہوتا ہے، جب کہ گناہ گار لوگ ایک عارضی مقام پر سزا پاتے ہیں، جسے Hades یا Hell کہا جاتا ہے۔
قیامت کے دن (Day of Judgment) سب مردے زندہ کیے جائیں گے، ان کے اعمال کا حساب ہوگا، اور جو ایمان لائے اور عملِ صالح کیے وہ ہمیشہ کے لیے “نئی زمین” پر رہیں گے — جہاں کوئی دکھ، موت یا بیماری نہ ہو گی۔
یعنی مسیحیت میں موت صرف نیند ہے جو قیامت کے دن مکمل بیداری سے بدل جائے گی۔
یہودیت میں موت کا تصور
کتابِ دانیال 12:2
“اور زمین کی خاک میں سونے والے بہت سے لوگ جاگیں گے، کچھ ہمیشہ کی زندگی کے لیے اور کچھ شرمندگی و ابدی نفرت کے لیے۔”
ایوب 14:14
“اگر کوئی شخص مر جائے، تو کیا وہ دوبارہ زندہ ہوگا؟”
یہ آیت سوال اٹھاتی ہے کہ مرنے کے بعد کیا ہوتا ہے، اور یہودی مذہب میں قیامت کے تصور کی بنیاد بنتی ہے۔
یہودیت میں موت کا تصور مختلف ادوار میں بدلا ہے۔ تورات (عہدِ قدیم) میں موت کے بعد روحوں کے مقام کو شیئول (Sheol) کہا جاتا ہے — یہ زیر زمین ایک سُنسان جگہ ہے جہاں سب روحیں سایوں کی شکل میں موجود رہتی ہیں، نیک و بد کا فرق نہیں۔
بعد میں آنے والی کتابوں جیسے دانیال اور تلمود میں آخرت، جزا و سزا، اور قیامت کے دن مردوں کے اٹھائے جانے کا تصور شامل ہوا۔ دانیال میں آتا ہے:
“کئی لوگ خاک سے اٹھیں گے، بعض بہشتی زندگی کے لیے، بعض ابدی نفرت کے لیے” (دانیال 12:2)
جدید یہودی فرقوں میں آخرت پر ایمان کی شدت مختلف ہے، مگر مجموعی طور پر الہٰی انصاف، حساب کتاب، اور نجات کا تصور موجود ہے۔
بدھ مت میں موت کا تصورDhammapada, Verse 277
“تمام چیزیں فانی ہیں؛ جو اسے سمجھ لیتا ہے، وہ دکھ سے آزاد ہو جاتا ہے۔”Dhammapada, Verse 285
“جیسے سانپ اپنی کھال اتارتا ہے، ویسے ہی جو اپنی خواہشات سے آزاد ہوتا ہے، وہ نروان پاتا ہے۔
بدھ مت کے مطابق زندگی دکھ (dukkha) سے بھری ہے، اور موت اس چکر کا ایک حصہ ہے۔ موت کے بعد انسان کی روح یا شعور اس کے اعمال (کرما) کی روشنی میں دوبارہ جنم لیتے ہیں — اسے پُنرجنم یا ری برتھ کہتے ہیں۔
بدھ مت میں چھ جہاتِ وجود (realms of rebirth) ہیں، جیسے انسان، دیوتا، حیوان، بھوت، وغیرہ۔ نیک کرما سے بہتر حالت میں جنم ہوتا ہے، برے کرما سے پست حالت۔
بدھ مت کا حتمی مقصد نروان (Nirvana) حاصل کرنا ہے — یعنی خواہشوں، نفرت، اور جہالت کے خاتمے کے بعد دوبارہ جنم کا سلسلہ بند ہو جاتا ہے، اور روح مکمل سکون میں چلی جاتی ہے۔ نروان کو آگ کی بجھ جانے سے تشبیہ دی جاتی ہے — کوئی بقا یا فنا نہیں، صرف خاموشی اور سکون۔
سکھ مت میں موت کا تصور
گرنتھ صاحب، آنند صاحب
_”جَنَمُ مرنُ دوُکھُ کاؤ لگੈ، گُر کے بچن سِوہاءِ جیؤ”
(جنم اور مرن کا دکھ صرف اُسے لگتا ہے جو رب کے نام سے دور ہے)
گرنتھ صاحب، ص 595
_”مَن تُں جوُتِ سرُوپُ ہے، اپنا مُولُ پچھانُ”
(اے انسان! تو خود رب کی روشنی ہے، اپنی اصل کو پہچان)
سکھ مت میں ہندو مت کی طرح کرما اور جنم کا تصور موجود ہے، مگر نجات صرف اعمال سے نہیں بلکہ اللہ (واہِ گرو) کی رحمت سے ممکن ہے۔ گرو نانک دیو جی فرماتے ہیں:”بدن کرم کی وجہ سے جنم لیتا ہے، لیکن نجات کرم سے نہیں بلکہ رب کی مہربانی سے ہوتی ہے۔”
موت کے بعد روح اپنا سفر جاری رکھتی ہے، جب تک کہ وہ خالق میں ضم ہو کر مکتی (نجات) حاصل نہ کر لے۔
یہ نجات نام جپنا (اللہ کا ذکر)، سچائی، اور خدمتِ خلق کے ذریعے ممکن ہوتی ہے۔
سکھ مت میں موت کوئی خوفناک چیز نہیں، بلکہ ایک مرحلہ ہے روح کی ترقی کا۔ اگر کوئی شخص نامِ رب میں جیتا ہے تو موت اس کے لیے وصال کا دروازہ بن جاتی ہے۔
دنیا کی مختلف تہذیبوں نے موت کو صرف ایک جسمانی اختتام نہیں بلکہ روحانی اور سماجی تجربہ سمجھا ہے۔ میکسیکو میں “یومِ مردگان” (Día de los Muertos) ایک خوبصورت مثال ہے جہاں موت کو خوفناک نہیں بلکہ محبت اور یاد کے جذبے سے دیکھا جاتا ہے۔
اس دن رنگ برنگی میزیں سجائی جاتی ہیں، مرنے والوں کی تصاویر، ان کے پسندیدہ کھانے اور تحائف رکھے جاتے ہیں، اور موم بتیاں جلائی جاتی ہیں تاکہ روحیں گھر لوٹ کر اپنی خوشبو چھوڑ جائیں۔ اس تہوار میں بچے اور بڑے سب شریک ہوتے ہیں تاکہ “موت کی یاد” خوشی اور ربط کی صورت میں زندہ رہے۔
تبتی بدھ مت میں “آسمانی تدفین” کا رواج ہے، جس میں جسم کو پہاڑ کی چوٹی پر رکھ کر پرندوں کو کھلا دیا جاتا ہے۔ یہ عمل اس عقیدے پر مبنی ہے کہ جسم ایک عارضی ڈھانچہ ہے اور روح اُس سے آزاد ہو چکی ہوتی ہے، لہٰذا جسم کو فطرت کے دائرے میں واپس کرنا روحانی پاکیزگی اور ایثار کی علامت ہے۔ ان رسومات میں زندگی اور موت کو ایک دوسرے سے جدا نہیں، بلکہ ایک تسلسل کا حصہ تصور کیا جاتا ہے۔
دوسری طرف مشرقی اور افریقی ثقافتوں میں بھی موت سے وابستہ رسوم تہذیبی شناخت کی عکاس ہیں۔ چین میں “چھینگ مِنگ” کے دن لوگ اپنے آباؤ اجداد کی قبروں کی صفائی کرتے ہیں، ان پر پھول رکھتے اور دعائیں کرتے ہیں۔ بعض اوقات کاغذی اشیاء جلا کر روحوں کو اگلی دنیا میں سہولت فراہم کرنے کا عقیدہ بھی پایا جاتا ہے۔
جاپانی بدھ مت میں مرنے والے کو سفید کفن پہنا کر پاکیزگی کی علامت کے طور پر رخصت کیا جاتا ہے، اور 49 دن تک مخصوص دعائیں پڑھی جاتی ہیں تاکہ روح کو سکون ملے۔ افریقی قبائل میں مرنے والے کو اس کے پیشے، ہنر اور جنگی کردار کے مطابق دفن کیا جاتا ہے، جیسے شکاری کو نیزوں اور جانوروں کی کھالوں کے ساتھ دفن کرنا، تاکہ وہ اگلی زندگی میں بھی شکار جاری رکھ سکے۔ یورپی ثقافت میں کالے لباس کو سوگ اور غم کی علامت سمجھا جاتا ہے، اور خاموشی کے ذریعے مرنے والے کو خراجِ عقیدت پیش کیا جاتا ہے۔ ان تمام رسومات سے ظاہر ہوتا ہے کہ ہر قوم اور تہذیب نے موت کو اپنی روحانی اقدار، معاشرتی نظریات اور وجودی فلسفے کی روشنی میں ایک منفرد رنگ دیا ہے کہیں خاموشی میں، کہیں دعا میں، اور کہیں رنگوں اور خوشبوؤں کے ساتھ۔
کیا موت اختتام ہے یا کسی نئی شروعات کی طرف اشارہ؟
اس سوال کا جواب مختلف زاویوں سے دیا جاتا ہے۔ مادّی سائنس کے نقطہ نظر سے موت جسمانی زندگی کا حتمی اختتام ہے: جب دماغ کی حیاتیاتی سرگرمیاں ختم ہوجائیں تو شعور بھی ختم ہو جاتا ہے۔ اگرچہ موت کے قریب کچھ شعوری تجربے رپورٹ ہوئے ہیں، مگر زیادہ تر ماہرین کا خیال ہے کہ مستقل دماغی ہلاکت پر شعور کا اختتام یقینی ہے۔
دوسری طرف روحانی اور بعض فلسفیانہ نقطہ نظر میں موت ایک نئے سفر کا آغاز ہے۔ بہت سے لوگ ذہنی اور مافوق الفطرت تجربات کی روشنی میں روح کی لاشعوری موجودگی پر یقین رکھتے ہیں۔ جیسا کہ AWARE تحقیق میں دیکھا گیا، بعض کیسز میں دل بند ہونے کے دوران بھی مریض نے شعوری واقعات بھانپے اور بعد میں درست طور پر بیان کیے۔ اس طرح کے شواہد اس خیال کو تقویت دیتے ہیں کہ موت کے ساتھ شعور کا مکمل خاتمہ ضروری نہیں۔
مجموعی طور پر، موت کو اختتام قرار دینا یا نیا آغاز، اس بات پر منحصر ہے کہ ہم کونسا فریم ورک منتخب کرتے ہیں۔ مادّی سائنس موت کو ٹوٹ جانے والی کائناتی لاشہ مانتی ہے، جب کہ روحانی اور بعض فلسفیانہ عقائد موت کو آنے والے عینکِ نظر سے دیکھتے ہیں۔ کئی فلاسفر اور مذہبی روایات ایسی تعبیر دیتی ہیں کہ موت زندگی کے عمل کا حصہ ہے اور اس کے بعد بھی کوئی شکلِ موجودگی ممکن ہے۔ لہٰذا موت کے بارے میں حتمی جواب ملنا مشکل ہے: یہ بات ہر شخص کے عقیدے، تجربے اور علمی نقطۂ نظر پر منحصر ہے.
اگلی قسط میں ہم تاحیات زندگی، زندہ انسان کو منجمد کرکے محفوظ رکھنے، انسانی یادداشت کو کمپیوٹر پر محفوظ کرنے، اور اس یادداشت کو ایک انسانی نقل پر منتقل کرکے پرانی شخصیت کو ازسرِنو زندہ کرنے جیسے حیرت انگیز تصورات پر گفتگو کریں گے۔
تحریر
عامر پٹنی