کیمیائی رشتے: شراکت داری سے استحکام تک
ہالینڈ(ڈیلی روشنی نیوز انٹرنیشنل )ہمارا خام خیال تھا کہ زندگی میں استحکام کے لیے تگ ودو کرنا صرف انسانوں کا خاصا ہے۔ اچھی تعلیم، ہنر، نوکری، کاروبار، شادی– یہ سب استحکام کی کوششیں ہی تو ہیں۔
جب کیمیا سر پڑی تو معلوم ہوا کہ کاروبار الفت اور “مادہ پرستی” ایٹموں میں بھی پائی جاتی ہے۔ ایٹم بھی سکون چاہتے ہیں، ٹھہراؤ ڈھونڈتے ہیں۔ فرق صرف اتنا ہے کہ وہ دل کی نہیں، مدار کی خلش میں مبتلا ہوتے ہیں۔
ایسے ہی بےقرار ایٹموں کے لیے نوبل گیسوں کا طرزِ زندگی ایک خواب ہے—بھرپور، مکمل اور بے نیاز۔ نوبل گیسیں شاذ و نادر ہی کسی تعامل کا حصہ بنتی ہیں۔ باقی ایٹم، خود کو نوبل گیسوں کے سانچے میں ڈھالنا چاہتے ہیں۔ اس مقصد کے لیے وہ ایک دوسرے کے قریب آتے ہیں، الیکٹرانوں کی شراکت داری کرتے ہیں اور یوں توانائی کم کر کے استحکام حاصل کرتے ہیں۔
مثال کے طور پر آکسیجن کا ہر ایٹم چھ الیکٹران رکھتا ہے۔ دو آکسیجن ایٹم اگر دو دو الیکٹرانوں کا اشتراک کریں تو دونوں کے پاس آٹھ آٹھ الیکٹران ہو جاتے ہیں۔ یوں وہ نی آ ن نوبل گیس کے مماثل ہو کر ایک مستحکم مالیکیول بناتے ہیں، جسے ہم آکسیجن گیس کے طور پر جانتے ہیں۔
یہی اشتراک ایک خاص قوتِ کشش کو جنم دیتا ہے جسے ہم کوویلینٹ بانڈ کہتے ہیں—ایسا بندھن جو توانائی کی قربانی دے کر استحکام خریدتا ہے۔
کچھ الیکٹران اشتراک میں شامل نہیں ہوتے۔ یہ ایسے مسافر ہیں جو اپنی کہکشاں کے مرکز، یعنی نیوکلیئس، کے گرد ہی گردش کرتے ہیں۔ ان ہی غیر اشتراکی الیکٹرانوں میں سے ایک جوڑا امونیا مالیکیول میں پایا جاتا ہے، جو نائٹروجن ایٹم کے پاس موجود ہوتا ہے۔ یہی جوڑا اسے لوئیس اساس بناتا ہے—یعنی ایسا مادہ جو الیکٹرانوں کا عطیہ دے سکتا ہے۔
اب اگر کوئی دوسرا ایٹم یا آئن، جو الیکٹران کا بھوکا ہو، سامنے آ جائے—مثلاً زنک، تانبا یا لوہا—تو نائٹروجن اپنا اضافی جوڑا اسے پیش کرتا ہے۔ یوں دونوں ایٹم ایک نئے تعلق میں بندھ جاتے ہیں۔ اس تعلق سے بننے والے مادے کو کمپلیکس یا کوآرڈینیشن مرکب کہا جاتا ہے۔ اس میں الیکٹران کی شراکت یکطرفہ ہوتی ہے—دہندہ ایک، قبولندہ دوسرا۔
ایسے بندھن کو ہم کوآرڈینیٹ کوویلینٹ بانڈ کہتے ہیں، جہاں اشتراک کا آغاز ایک ہی طرف سے ہوتا ہے، مگر نتیجہ دونوں کے لیے فائدہ مند ہوتا ہے۔ اسے یک طرفہ محبت سمجھ لیجئے۔
کبھی کبھی ایک ہی مالیکیول میں کئی الیکٹران دہندہ مراکز ہوتے ہیں۔ وہ سب مل کر کسی دھاتی آئن کو ایسے جکڑ لیتے ہیں جیسے آکٹوپس اپنے شکار کو۔ اس بندھن سی کیلیے جنم لیتا ہے—ایک خاص قسم کا کمپلیکس مرکب جو بہت مضبوط ہوتا ہے۔
یہی کیمیائی حکمت عملی ہماری سانسوں میں بھی چھپی ہے۔ ہیموگلوبن میں موجود ‘ہیم’ ایک لیگنڈ ہے جو آئرن آئن کے ساتھ کوآرڈینیشن بانڈ بناتا ہے، یوں آکسیجن کی آمدورفت ممکن ہوتی ہے۔ اسی طرح کلوروفل بھی دھات کے ساتھ ایک کوآرڈینیشن کمپلیکس ہے جو روشنی کو کیمیائی توانائی میں بدلتا ہے۔
ہمارے مشروبات بھی اس کھیل میں شریک ہیں۔ چائے میں موجود پولی فینولز، دھاتوں سے جڑ کر کیلیٹ بناتے ہیں اور یہی وجہ ہے کہ خون کی کمی کی صورت میں چائے سے پرہیز تجویز کی جاتی ہے۔
اگر کوئی زہریلی دھات جیسے پارہ جسم میں داخل ہو جائے تو EDTA جیسے لیگنڈز اس کے ساتھ مضبوط بندھن بنا کر اسے جسم سے باہر نکال دیتے ہیں۔
کوآرڈینیشن کیمیا صرف حیاتیاتی یا زہریلی صورتحال تک محدود نہیں۔ یہ دھاتوں کو ان کی کانوں سے الگ کرنے میں، صنعتی کیمیا میں عمل انگیز کے طور پر، اور ماحول دوست ٹیکنالوجیز میں کلیدی کردار ادا کرتی ہے۔
گویا ایٹموں کی بھی ایک سماجی زندگی ہے—رشتے، اشتراک، قربانیاں اور استحکام کی لگن۔ فرق صرف زبان کا ہے، ورنہ داستان ہماری جیسی ہی ہے۔
#ظہیریوسف