گھریلو زندگی خوشگوار بنائیے
قسط نمبر 1
ہالینڈ(ڈیلی روشنی نیوز انٹرنیشنل۔۔۔ گھریلو زندگی خوشگوار بنائیے)گھر اگر پر سکون ہو تو پھر یوں سمجھو کہ اس کے مکینوں کو دنیا میں ہی جنت مل گئی لیکن اگر گھر کا سکون غارت ہو تو میاں بیوی کی ازدواجی زندگی خراب ہونے کے علاوہ بچے اور گھر کے دیگر افراد بھی اس آگ کی تپش میں مجلس کر رہ جاتے ہیں۔ انسانی معاشرے کی بنیاد محبت، احساس قربانی جیسے جذبوں پر ہے۔ کسی بھی معاشرے کو برائیوں سے پاک رکھنے کے لیے محبت جیسے پر خلوص جذبے کی ضرورت ہمیشہ سے تھی اور ہمیشہ رہے گی۔ شادی ایک ایسامذہبی اور معاشرتی فریضہ ہے جس کے سبب ایک صحیح، مکمل خاندان اور معاشرہ تشکیل پاتا ہے۔ یوں بھی زندگی ایک سفر کی
مانند ہے اور میاں بیوی اس سفر کے ایسے ساتھی ہیں جن کا راستہ بھی ایک ہے اور منزل بھی ایک۔ اسی لیے انہیں گاڑی کے دو پہیے کہا جاتا ہے، اگر ان کے در میان ذہنی ہم آہنگی اور جذبہ محبت موجود ہو تو یہ سفر آرام و سکون سے کٹ سکتا ہے۔ جب دو اجنبی لوگ نکاح جیسے مقدس بندھن میں بندھتے ہیں تو پھر ان کی یکجائی خاندان کی اکائی کو جنم دیتی ہے۔ یہی اکائی آگے جاکر معاشرے کی صورت میں ڈھلتی ہے۔ بہترین معاشرے کی تعمیر کے لیے اس اکائی کی مضبوطی اور خوبصورتی نہایت ضروری ہے۔
ہمارے معاشرے میں مردوں کی نسبت خواتین کو زیادہ قربانیاں اور خدمات
پیش کرنی پڑتی ہیں، لیکن اگر عورت کی قربانی و ایثار سے ایک خوبصورت معاشرہ خوبصورت اور پر سکون گھر تخلیق پا جائے تو اس سے بڑھ کر اعزاز کیا ہو گا…؟
ذیل میں کچھ چھوٹی کی نہیں کر سکتا۔ چھوٹی باتیں درج کی جارہی ہیں، جو عام سی ہونے کے
با وجود اہم ہیں اور خوشگوار ازدواجی زندگی کی کنجی سمجھی جاتی ہیں۔
خوش دلی سے شوہر کا استقبال
عام طور پر دیکھا گیا ہے کہ شوہر بے چارہ دن بھر کی تھکان کے بعد جب گھر لوٹتا ہے تو بیوی شکایات کا انبار جمع کر کے بیٹھی ہوتی ہے۔ ادھر شوہر نے گھر میں قدم رکھے اور ادھر مسائل کی پٹاری کھل گئی۔ یہ چیز گھر کے سکون کو برباد کر دیتی ہے۔ ہر چیز کے کہنے کا ایک وقت ہوتا ہے اور بے وقت کی راگنی ہمیشہ ناپسندیدہ ہوتی کوشش کریں کہ ان مسائل پر بات کرنے کے لیے ایسا وقت نکالیں جس میں شوہر پر سکون ہو۔ آفس سے واپسی پر شوہر کا خوش دلی سے استقبال کریں۔ اس طرح وہ ساری تھکن بھول بھال کر خود کو ایک دم تر و تازہ محسوس کرے گا۔ کوشش کریں کہ شوہر کی آمد سے پہلے صاف ستھر الباس پہن کر ہلکا پھا کا تیار ہو جائیں اور بچوں کو بھی صاف ستھرا رکھیں۔ اس طرح گھر کے ماحول میں خوشگواری اور محبت رچی بسی رہے گی۔
شکر گزار اور قناعت پسند میاں بیوی میں اکثر ایک دوسرے کی قربانیوں یا محنت کو سراہنے کی عادت نہیں ہوتی، بلکہ بعض گھرانوں میں دیکھا گیا ہے کہ دونوں ایک دوسرے کے نقاد بن جاتے ہیں۔ یہ چیز میاں بیوی کی ازدواجی زندگی کے لیے نقصان دہ ہے۔ بعض عورتوں میں یہ بات دیکھنے میں آئی ہے کہ وہ شکر گزار نہیں بنتیں۔ ہر وقت گلے شکوے کرنا ان کی عادت ہوتی ہے۔ وہ اپنے ارد گرد موجود لوگوں کی آسائشوں کو دیکھ کر کڑھتی رہتی ہیں۔ اپنے میاں سے بھی ہر جائز اور ناجائز طریقے سے مال جمع کرنے کی تمنا رکھتی ہیں اور بعض اوقات اس کاخمیازہ بھی انہیں بھگتنا پڑتا ہے۔ اگر شوہر کی آمدنی کم ہو تو اسے اس بات کا طعنہ کبھی نہ دیں بلکہ قناعت پسند بنیں۔ ایسے مراحل میں اس کا ساتھ دیں، اس کی دل جوئی کریں۔
غصے پر قابو رکھیں اپنے غصے پر قابورکھیں کیونکہ زیادہ تر اختلافات غصے کی وجہ سے ہوتے ہیں۔ اگر شوہر غصے میں ہو تو آپ خاموش رہیں۔ کچھ وقت گزر جانے کے بعد اسے اپنی بات نرم اور میٹھے لہجے میں سمجھائیں تا کہ وہ آپ کے موقف کو اچھی طرح سمجھ سکے، اس طرح بات بھی نہیں بڑھے گی اور شوہر کے دل میں آپ کی اہمیت اور عزت مزید بڑھ جائے گی۔
نظر انداز کرنا اور معاف کرنا سیکھیں
آپ سسرالی رشتے داروں کے متعلق کوئی منفی بات اپنے میکے میں نہ کریں کیونکہ اس طرح دونوں خاندانوں کے درمیان اختلافات پیدا ہونے کا خدشہ ہوتا ہے۔ اپنے سر، ساس، نند، جیٹھ اور دیور کی دل سے عزت کریں۔ اگر اختلاف ہو تو اختلاف کرنے کے بھی آداب اور طریقے ہوتے ہیں۔ اختلافات کو کبھی اس نہج تک نہ لے جائیں کہ واپسی کے سارے راستے بند ہو جائیں۔ سب کو مل جل کر ہی رہنا ہوتا ہے اور ایک نہ ایک وقت آتا ہے کہ ہمیں پھر اپنوں ہی کا سہارا لینا ہوتا ہے۔
اختلافات کو لڑائی میں مت بدلیں: سسرالی رشتہ داروں کو بھی بہن بھائیوں جیسا۔۔جاری ہے۔
بشکریہ ماہنامہ روحانی ڈائجسٹ اپریل 2019