Daily Roshni News

گھریلو زندگی خوشگوار بنائیے۔۔۔قسط نمبر 2

گھریلو زندگی خوشگوار بنائیے

قسط نمبر 2

ہالینڈ(ڈیلی روشنی نیوز انٹرنیشنل۔۔۔ گھریلو زندگی خوشگوار بنائیے)سمجھنے کی کوشش کریں۔ معمولی باتوں کو دل پر مت لیں بلکہ یہ سوچ کر خود کو ذہنی طور پر مطمئن رکھیں کہ جب شادی سے پہلے بھی کبھی والدین کسی بات پر ڈانٹ دیتے تھے یا بہن بھائیوں سے کسی بات پر اختلاف ہو جاتا تھا تو جلد ہی ایک دوسرے کو منا لیا کرتے تھے۔ میکے کی طرح سسرال میں بھی اگر یہی سوچ اور رویہ رکھیں گی تو ذہنی طور ہر مطمئن رہیں گی۔ اس سے طبیعت اور مزاج پر بھی اچھا اثر پڑے گا، جب تعلقات میں بہتری آئے گی تو اس کے اثرات پورے خاندان پر اچھے مرتب ہوں گے۔

بے جا توقعات سے بچیں

اکثر دیکھا گیا ہے کہ میاں بیوی ایک دوسرے سے بہت زیادہ توقعات وابستہ کرلیتے جب یہ توقعات پوری نہیں ہوتیں تو ازدواجی زندگی تباہی کی طرف بڑھنے لگتی ہے۔ اسی طرح رشتہ داروں کے ساتھ لین دین کے دوران بھی اپنے شوہر سے بہت زیادہ توقعات رکھی جاتی ہیں۔ اگر ان میں سے کوئی ایک دوسرے پر پورا نہ اترے تو معاملات بگڑنے لگتے ہیں۔ بہتر یہ ہے کہ دونوں کا رویہ حقیقت پسندانہ ہونا چاہیے۔ بیوی کو شوہر سے یہ توقع نہیں رکھنی چاہیے کہ اس کے بھائی کو ضرورت پڑے گی تو وہ آنکھیں بند کر کے

اس کی مطلوبہ رقم حوالے کر دے گا۔

اعتماد کو کمزور نہ پڑنے دیں آج کل دیکھنے میں آرہا ہے کہ بعض بیویاں کہیں بھی اپنی مرضی سے آنے جانے کو اپنا حق سمجھتی ہیں۔ بلاشبہ رشتہ اعتماد کا ہوتا ہے اور انہیں لگتا ہے کہ شوہر انہیں منع نہیں کرے گا لیکن اس کے باوجود کوشش کیجیے کہ شوہر کی اجازت کے بغیر کہیں باہر نہ نکلیں۔ کیونکہ اس طرح ازدواجی تعلقات میں بے اعتمادی کی فضا قائم ہو جاتی ہے۔ بہتر ہے کہ ایک دوسرے کو ہر بات سے آگاہ رکھا جائے تا کہ رشتے میں مضبوطی و اعتماد آئے۔ یہ تو وہ باتیں تھیں جو بیویوں کے لیے اہم ہیں۔ اب بات کرتے ہیں شوہروں کی، کیونکہ گھر کی فضا کو خوشگوار بنائے رکھنے میں دونوں افراد کا برابر ہی عمل دخل ہے۔

تصویر کا ایک رخ مت دیکھیں: عام طور پر دیکھا گیا ہے کہ شوہر اپنے بہن بھائیوں یا والدین میں سے کسی کی بات پر یقین کر کے بیوی سے ناراضگی کا اظہار کرتے ہیں۔ بعض گھروں میں تو تشدد کی نوبت آجاتی ہے۔ کوئی بھی تنازعہ اس وقت تک حل نہیں ہو سکتا جب تک کہ دونوں فریقین کا موقف نہ سنا جائے۔

انصاف یہی ہے کہ جب بھی کوئی مسئلہ پیدا ہو دونوں جانب سے پوچھا جائے، کیونکہ پوری بات سنے بغیر کوئی بھی فیصلہ کرنا ہر گز دانش مندی نہیں۔ اس سے مسائل بڑھتے ہیں حل

نہیں ہوتے۔

کیڑے نکالنے کی عادت سے بچیں

بعض افراد کی عادت ہوتی ہے کہ وہ ہر کام میں کیڑے نکالتے ہیں۔ مثبت سوچ رکھنے والے افراد ایسا نہیں کرتے ، وہ آدھے گلاس کو خالی کے بجائے آدھا بھرا ہوا گلاس کہتے ہیں۔ زندگی کے معاملات میں اور پیچ پیچ ہو جاتی ہے، کوئی بھی شخص مکمل نہیں ہوتا۔ اگر بیوی سے کسی معاملے میں کوئی کوتاہی ہو گئی ہے تو اسے اصلاح کا موقع دیں۔ اسی طرح بیوی کی خدمات کو بھی سراہیں۔ گھر کے کام کاج سے لے کر زندگی کے ہر چھوٹے بڑے عمل کو صرف یہ کہہ کر نظر انداز نہ کریں کہ یہ تو اس کا فرض تھا۔ ہو سکتا ہے بہت سارے بیوی کے حقوق بھی ایسے ہوں جو شوہر ادا نہ کر رہے ہوں۔ اس لیے جہاں تعریف کرنا بنتا ہو وہاں ہر گز تعریف کرنے میں کنجوسی نہ کریں۔

تعریف کے ہمیشہ اچھے ہی نتائج ملتے ہیں اور تنقید تعریف سے ہمیشہ ایک قدم پیچھے ہی کھڑی ہو گی۔

عزت دیں اور لیں

رشتہ کوئی بھی ہو Give and take کے بغیر نہیں چل سکتا۔ صرف بیوی سے یہ توقع رکھنا کہ وہی عزت و تکریم کرے اور آپ جیسا چاہیں اس کے ساتھ سلوک کریں، ایسا نہیں ہوتا۔ کوئی بھی رشتہ جبر کی بنیاد پر زیادہ عرصہ قائم نہیں رہ سکتا۔ بیوی کی عزت کریں گے تو وہ دل سے شوہر کی عزت کرے گی، اگر خوف سے شوہر نے اپنی عزت کروا بھی لی تو وہ بے معنی چیز ہے۔ اس لیے بیوی کے معاملے میں لہجے کو نرم بنائیں۔ شوہر کا شیریں لہجہ بیوی کے دل میں آپ کے لیے محبت پیدا کرنے کا ذریعہ بنے گا۔ چہرے پر تناؤ کی                        کیفیت مت رکھیں اور خود کو زیادہ تر پر سکون رکھنے کی کوشش کریں۔۔

خود کو عقل کل سمجھنا: ایسے گھر میں ہمیشہ مسائل رہیں گے جہاں بیوی یا شوہر میں کوئی بھی خود کو عقل کل سمجھتا ضروری نہیں ہے کہ ہر معاملے میں شوہر درست سوچ رہا ہو ۔ بعض گھریلو امور میں خواتین مردوں کو پیچھے چھوڑ جاتی ہیں۔ مرد اس طرح شاید بچت نہیں کر سکتا جس طرح عورت کر سکتی ہے، اسی طرح خاندان کے بہت سارے امور میں خواتین زیادہ طاق ہوتی ہیں۔ کچھ معاملات میں بیوی کو مکمل آزادی دیں اور اس پر اعتماد کریں۔ ہر بات شیئر کریں کیونکہ بیوی صرف شریک حیات ہی نہیں، بہت اچھی دوست بھی ہوتی ہے۔ وہ ہر دکھ سکھ کو اپنے دل میں محسوس کرتی ہے۔ ناسازگار حالات میں بھی وہ جس طرح ساتھ دیتی اور حوصلہ افزائی کرتی ہے، ایسا اور کوئی نہیں کر سکتا۔ اس لیے اپنی بیوی کی قدر کیجیے اور اسے ہمیشہ عزت کی نگاہ سے دیکھیے۔

سیر و تفریح پر جائیں: مہینے میں کم از کم دو مرتبہ بیوی بچوں کو کہیں باہر سیر و تفریح کے لیے ضرور لے کر جائیں۔ اس طرح گھریلو ماحول پر خوشگوار اثرات مرتب ہوتے ہیں۔ ذہنی سکون اور خوشی بھی حاصل ہوتی ہے۔ بیوی بچوں سے محبت و دوستی کی فضا بھی قائم ہوتی ہے۔ ایک دوسرے کو سمجھنے کا موقع ملتا ہے۔

بشکریہ ماہنامہ روحانی ڈائجسٹ اپریل 2019

Loading