Daily Roshni News

گھر کی عورت…

گھر کی عورت…

ہالینڈ(ڈیلی روشنی نیوز انٹرنیشنل )یہ لفظ سنتے ہی ہمارے ذہن میں ایک ایسی شخصیت ابھرتی ہے جو صبح سب سے پہلے اٹھتی ہے اور رات سب سے آخر میں سوتی ہے۔ یہ وہ وجود ہے جو بظاہر گھر کی چار دیواری تک محدود نظر آتا ہے لیکن حقیقت میں پورے خاندان کی خوشی اور سکون اسی کے کندھوں پر کھڑا ہوتا ہے۔ معاشرتی رویہ یہ ہے کہ عورت کی قربانیاں اکثر نظر انداز ہو جاتی ہیں، کیونکہ وہ سب کچھ خاموشی سے کرتی ہے۔ نہ کوئی واہ واہ کرتی ہے اور نہ ہی کوئی انعام ملتا ہے۔ لیکن یہ حقیقت اپنی جگہ قائم ہے کہ گھر کی عورت اگر اپنی ذمہ داریاں چھوڑ دے تو پورا نظام لڑکھڑا جاتا ہے۔ صبح کا ناشتہ تیار ہو یا بچوں کے اسکول کی تیاری، شوہر کے کپڑوں کی استری ہو یا گھر کی صفائی، والدین کی خدمت ہو یا سسرال کی دیکھ بھال، ہر جگہ عورت کی محنت اور قربانی شامل ہے۔ وہ اپنا وقت، اپنی نیند، اپنی خواہشیں اور اپنی راحت چھوڑ کر دوسروں کو سکون پہنچاتی ہے۔ لیکن سوال یہ ہے کہ کیا کسی نے کبھی اس کے حصے کی خوشیوں کے بارے میں سوچا ہے؟

گھر کی عورت کے دن کا آغاز اکثر الارم کی گھنٹی سے پہلے ہو جاتا ہے۔ کچن میں کھڑے ہو کر وہ سب کے لیے ناشتہ تیار کرتی ہے۔ وہ یہ نہیں دیکھتی کہ اس کی اپنی نیند پوری ہوئی یا نہیں، بلکہ یہ دیکھتی ہے کہ بچے وقت پر اسکول پہنچ جائیں، شوہر وقت پر دفتر جائے اور سب خوش و خرم رہیں۔ دن بھر کی محنت کے بعد وہ اکثر خود چائے کا ایک کپ بھی سکون سے نہیں پی پاتی، کیونکہ کوئی نہ کوئی ضرورت ہر وقت سامنے آتی رہتی ہے۔ لیکن حیرت کی بات یہ ہے کہ ان سب قربانیوں کو ہم عادت سمجھ لیتے ہیں، جیسے یہ تو عورت کا فرض ہے، اس میں شکریہ یا اعتراف کی کوئی ضرورت نہیں۔

گھر کی عورت اکثر اپنی خواہشوں کو مار دیتی ہے۔ نیا کپڑا لینے کی خواہش ہو، دوستوں سے ملنے کا دل ہو یا کہیں باہر گھومنے کا شوق، وہ سب دوسروں کے لیے قربان کر دیتی ہے۔ اسے لگتا ہے کہ اگر میں نے اپنی خواہش پوری کر لی تو گھر کا بجٹ متاثر ہوگا، بچوں کی پڑھائی پر اثر پڑے گا یا شوہر پر اضافی بوجھ آئے گا۔ اسی سوچ کے ساتھ وہ اپنی ہر خواہش کے آگے ایک دیوار کھڑی کر دیتی ہے اور دوسروں کی خوشی کو ترجیح دیتی ہے۔ یہی قربانی ایک طرف اسے عظیم بناتی ہے لیکن دوسری طرف اس کے اندر کی عورت آہستہ آہستہ تھکنے لگتی ہے۔

ہمارے معاشرے میں اکثر عورت کی قربانی کو کمزور ی سمجھا جاتا ہے۔ کہا جاتا ہے “گھر کی عورت ہے، یہی کام ہے اس کا۔” لیکن حقیقت یہ ہے کہ اگر یہ کام اتنے آسان ہوتے تو مرد بھی گھر بیٹھ کر آسانی سے کر لیتے۔ حقیقت یہ ہے کہ گھر کا نظام چلانے کے لیے جو صبر، حوصلہ اور برداشت چاہیے وہ ہر کسی کے بس کی بات نہیں۔ مرد دفتر میں چند گھنٹے کام کر کے واپس آ جاتا ہے، لیکن گھر کی عورت چوبیس گھنٹے کام کرتی ہے اور وہ بھی بغیر چھٹی کے۔ اسے نہ اتوار کی چھٹی ملتی ہے نہ عید کی۔ ہر دن اس کے لیے ایک جیسا ہے، بس ذمہ داریاں اور توقعات بڑھتی رہتی ہیں۔

ایک بڑا مسئلہ یہ ہے کہ گھر کی عورت کے کام کو “کام” ہی نہیں سمجھا جاتا۔ اگر کوئی عورت باہر جا کر نوکری کرے تو سب کہتے ہیں کہ وہ محنت کر رہی ہے، لیکن اگر وہ گھر کے اندر پورا وقت لگا کر سب کے لیے کھانا بنائے، صفائی کرے، کپڑے دھوئے، بچوں کو سنبھالے تو کہا جاتا ہے کہ وہ تو فارغ ہے۔ یہ رویہ عورت کے دل کو توڑ دیتا ہے۔ کیونکہ حقیقت یہ ہے کہ گھر کا ہر فرد اس کی محنت پر چل رہا ہے لیکن کوئی اس کا اعتراف نہیں کرتا۔

گھر کی عورت کی قربانیوں کا ایک پہلو یہ بھی ہے کہ وہ اپنے جذبات کو اکثر چھپا لیتی ہے۔ اگر وہ بیمار بھی ہو تو یہ سوچ کر کہ “گھر کا کام کون کرے گا؟” وہ بستر سے اٹھ کھڑی ہوتی ہے۔ اگر وہ تھک بھی جائے تو بھی مسکرا کر سب کو کھانا پیش کرتی ہے۔ یہ برداشت اور یہ صبر دنیا کے کسی اور رشتے میں نہیں ملتا۔ لیکن اس کے بدلے میں اکثر اسے ملتا ہے خاموشی، بے قدری اور یہ تاثر کہ “تم نے کیا بڑا کام کیا ہے؟”

ہم سب کو یہ سوچنے کی ضرورت ہے کہ گھر کی عورت بھی انسان ہے۔ اسے بھی آرام چاہیے، اسے بھی عزت چاہیے، اسے بھی سراہا جانا چاہیے۔ چھوٹے چھوٹے جملے جیسے “تمہارے بغیر یہ گھر ادھورا ہے” یا “تم سب کے لیے اتنی محنت کرتی ہو، شکریہ” اس کے دل کو خوشی دے سکتے ہیں۔ یاد رکھیں کہ تعریف انسان کے دل کو زندہ رکھتی ہے اور شکریہ کہنا محبت کو بڑھاتا ہے۔

گھر کی عورت کے بغیر معاشرہ آگے نہیں بڑھ سکتا۔ ایک اچھی ماں ہی ایک اچھا بچہ پروان چڑھاتی ہے، ایک سمجھدار بیوی ہی گھر کو سکون دیتی ہے، اور ایک فرمانبردار بیٹی ہی خاندان کو جوڑ کر رکھتی ہے۔ لیکن جب ہم اسی عورت کو نظر انداز کر دیتے ہیں تو نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ وہ اندر سے ٹوٹ جاتی ہے۔ ٹوٹی ہوئی عورت نہ اچھی ماں بن سکتی ہے نہ اچھی بیوی اور نہ ہی اچھی بیٹی۔ اس لیے یہ ہم سب کی ذمہ داری ہے کہ گھر کی عورت کی قربانیوں کو پہچانیں اور اس کا حق اسے دیں۔

خاندان کا سکون عورت کی قربانیوں سے جڑا ہے لیکن عورت کا سکون بھی خاندان کی ذمہ داری ہے۔ اگر ہم چاہتے ہیں کہ گھر ہمیشہ خوشحال اور پرسکون رہے تو ہمیں گھر کی عورت کو بھی خوش رکھنا ہوگا۔ خوشی صرف یہ نہیں کہ اسے زیور یا کپڑے خرید دیے جائیں، خوشی یہ بھی ہے کہ اسے عزت دی جائے، اس کے کام کو تسلیم کیا جائے اور اس کے حصے کی خواہشوں کو بھی کبھی کبھی پورا کیا جائے۔

آخر میں یہی کہا جا سکتا ہے کہ گھر کی عورت ایک ستون کی طرح ہے جس پر پورے گھر کی عمارت کھڑی ہے۔ اگر یہ ستون مضبوط ہے تو عمارت قائم رہے گی، اگر یہ کمزور پڑ گیا تو سب کچھ ٹوٹ جائے گا۔ اس لیے ہمیں گھر کی عورت کو صرف قربانی کی علامت نہیں بلکہ عزت اور محبت کی سب سے بڑی حقدار سمجھنا چاہیے۔ کیونکہ حقیقت یہی ہے: سب کی خوشی اس کے حصے کی قربانی سے جڑی ہے۔

#Veer

Loading