ہجوم کے درمیان تنہا
قسط نمبر 2
ماہنامہ روحانی ڈائجسٹ ستمبر 2021
ہالینڈ(ڈیلی روشنی نیوز انٹرنیشنل۔۔۔ ہجوم کے درمیان تنہا۔۔۔۔ قسط نمبر 2) کر کے جسم اور دماغ کو ترو تازہ کر سکتے ہیں۔
آپ اگر جائزہ لیں تو یہ حقیقت آپ کے سامنے بھی واضح ہو جائے گی کہ دیہی علاقوں میں بہت کم نفسیاتی عارضے ہوتے ہیں ۔ گاؤں میں رہنے والے لوگوں کو کاؤنسلنگ کی ضرورت نہیں پڑتی ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ گاؤں میں افراد ایک دوسرے سے قریبی رابطہ رکھتے ہیں۔ ان میں باہم بات چیت اور جنسی مذاق جاری رہتا ہے۔
اس میں کوئی شک نہیں کہ دوستوں یا دیگر ساتھیوں کے ساتھ بیٹھ کر باتیں کرنا ایک متبادل تھراپی ہے۔ وہ لوگ جو ذہنی دباؤ میں ہیں، ان سے گفتگو کریں ان سے ان کا دکھ درد بانٹیں۔ ایسے واقعات کا ذکر کریں جو ان کے دل سے قریب ہو یہ عمل ان کے لیے مددگار ہوتا ہے۔
نیورو سائنس کے ماہرین کہتے ہیں کہ جب ہم گپ شپ کرتے ہیں تو ہمارے دماغ کا نیورو ٹرانسمیٹر ایسے ہی اچھے محسوسات کے ہارمون خارج کرتا ہے جو کہ یوگا یا کسی اور ورزش کے بعد خارج ہوتے ہیں۔ یہ ہارمون دماغ کو سکون اور جسم کو تسکین دیتے ہیں۔ آپ نے اکثر لوگوں کو چائے پیتے یا کافی کا کپ ہاتھ میں لے کر انہیں مختلف موضوعات پر باتیں کرتے ہوئے دیکھا ہو گا کہ دنیا کہاں جارہی ہے….؟ کیا ہورہا ہے ….؟ کس طرح مہنگائی تیزی سے بڑھ رہی ہے ؟ یا کچھ لوگ کرکٹ کے حوالے سے یا کوئی اور خبر شئیر کرتے ہیں۔ اس طرز کی ساری گفتگو ہی گپ شپ ہے۔
دراصل ایسے لوگ چاہتے ہیں کہ اپنے اسٹرمیں کو باہر نکالیں۔ یہ گفتگو اتنی سنجیدہ نہ ہو اور شاید اگلے منٹ میں بھول بھی جائیں مگر یہ ملکی پھلکی گپ شپ انسان کے مزاج کو توازن میں رکھنے میں مدد دیتی ہے۔ ملکی پھلکی گپ شپ، تناؤ سے بھری اس دنیا میں
ایک کامیاب تھراپی ہے۔ یہ مثبت توانائی بھر دیتی ہے۔ اگر آپ خود کو تنہا اور مایوس محسوس کر رہے ہیں تو آپ کو زیادہ کچھ کرنے کی ضرورت نہیں صرف فون اٹھائیں اور اپنے کسی عزیز، دوست سہیلی سے کچھ دیر گپ شپ کریں، اور جب آپ فون بند کر رہے ہوں سنے تو اپنا جائزہ لیں، آپ خود کو ہلکا پھلکا محسوس کر رہے ہوں گے۔
آپ کسی سے کمتر نہیں: زندگی کی خوبصورتی سے لطف اندوز ہونے کے لیے ضروری ہے کہ منفی سوچوں سے چھٹکارا پایا جائے۔ اپنی ذات اور صلاحیتوں کے متعلق منفی تصورات ختم کیے جائیں، دل میں ہی اپنی ماضی کی کامیابیوں کو دہراتے رہیں، اس عمل کے ذریعے اپنی ذات کے متعلق ایک نیا اور مسلام تصور پیدا ہو گا۔ تنہائی محسوس کرنے والے افراد میں خود سے محبت کا جذبہ بھی مفقود ہو جاتا ہے، اپنی کامیابیوں پر فخر کیجیے اور ناکامیوں کو زندگی کا معمول سمجھیں، اکثر افراد اپنی ناکامیوں پر شرمندہ رہتے ہیں اور سماجی حلقے سے کلتے چلے جاتے ہیں اور اس طرح مخود ساختہ تنہائی خود پر حاوی کر لیتے ہیں۔
تخلیقی صلاحیتوں کا استعمال: تنہائی پر کڑھنے کی بجائے فارغ اوقات اور تنہا وقت کو اپنی صلاحیتیں اجاگر کرنے کے لیے وقف کر دیں۔ آپ چاہے عمر کے کسی بھی حصے میں ہوں، نئی اور پسندیدہ سرگرمیوں کی ابتداء کی جاسکتی ہے۔ اپنے شوق، دلچسپی اور وسائل کے مطابق تنہا وقت کو بروئے کار لائیں، اس طرح اپنی ذات کے لیے عزت
محبت کے احساسات پیدا ہوتے ہیں اور یہی صلاحیتیں عملی زندگی میں بھی کام آتی ہیں۔
معاشی عدم استحکام بھی تنہائی کا باعث بن سکتا ہے: تنہائی کو ذہن پر بوجھ کی طرح سوار کر لینے سے
روز مرہ معمولات بہت بری طرح متاثر ہو سکتے ہیں، مشاہدے میں آیا ہے کہ تنہائی والے افراد میں ہر عمر کے افراد شامل ہیں لیکن ان کی غذائی عادات، نیند کے مسائل اور طرز زندگی میں حیرت انگیز مشابہت پائی جاتی ہے۔ معاشی عدم استحکام محسوس کرنے والے افراد پر سکون اور بھر پور نیند سے بھی محروم رہتے ہیں اور اپنی غذا سے لا پروائی ہرتے ہیں۔ کم نیند اور ناقص غذا کی بدولت ان کے جسم کو مطلوبہ توانائی نہیں مل پاتی، جس کے باعث افسردگی میں اضافہ ہوتا ہے۔ اگر معاشی عدم استحکام نے کسی کو تنہا کر دیا ہو تو اسے چاہیے کہ کوئی ایسا مشغلہ اپنالے جس سے جذبات کا اظہار ہو سکے۔ ایسے لوگوں سے ملنے سے گریز کیجیے جو ہمت کو کمزور کرتے ہوں بلکہ ایسے لوگوں اور دوستوں کی صحبت اختیار کریں جو آپ کے خیالات کو سرائیں اور آپ جن کی اخلاقی مدد حاصل کر کے خوشی حاصل کر سکتے ہوں۔
ماہرین نفسیات ایسے افراد کو تیز چہل قدمی کا مشورہ بھی دیتے ہیں کیونکہ تیز چہل قدمی کے باعث جسم میں ایسے ہارمونز پیدا ہوتے ہیں، جو ذہنی دباؤ کم کرتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ ہر صبح کا آغاز چہل قدمی سے کرنے والے افراد زیادہ خوش خرم اور مطمئن زندگی گزرتے ہیں۔
شکرگزاری کا رویہ اختیار کیجیے: ایسے افراد جو اپنے اندر یہ احساس رکھتے ہیں، کہ وہ
تنہا نہیں ہیں بلکہ ان کا خالق و مالک اللہ ہر لمحہ ان کے ساتھ ہے اور وہ کبھی کسی کو بے یار ومددگار نہیں چھوڑتا۔ ایسے لوگ مسائل کو خود پر طاری نہیں کرتے بلکہ ان نعمتوں کو اپنے لیے بہت گردانتے ہیں جو انہیں حاصل ہیں۔
مذہب سے قریب اور دُکھی لوگوں کے مسائل کو حل کرنے میں مصروف افراد ناصرف مطمئن اور خوش رہتے ہیں بلکہ دیگر لوگوں کی بہ نسبت زیادہ عمر پاتے ہیں۔
امریکہ ، مغربی ممالک اور دیگر ترقی یافتہ ممالک میں خود کشی کے بڑھتے ہوئے تناسب کی بڑی وجہ وہاں مذہب سے دوری اور شکر گزاری کے جذبے کا فقدان بھی ہے۔ دوسروں کے مسائل میں دلچپسی لیں، ان کے مسائل کے حل کی کوشش کریں تو اپنے مسائل بہت معمولی محسوس ہوں گے۔
آخر میں عرض ہے کہ تنہائی صرف ایک کیفیت کا نام ہے اور اسے خود پر طاری کر لیا جائے تو زندگی بوجھ بن سکتی ہے۔ اگر زندگی کے متعلق واضح مقصد موجود ہوگا تو ایسا فرد کبھی بھی تنہائی محسوس نہیں کرے گا۔
جو لوگ اللہ سے تعلق کو دلی طور پر محسوس کرتے ہیں اور پورے اہتمام کے ساتھ صلوۃ قائم کرتے ہیں وہ مسائل میں گھرے ہوئے ہوں اور ان سے وابستہ کئی لوگ ان کا ساتھ چھوڑ جائیں تب بھی وہ خود کو تنہا محسوس نہیں کرتے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ وہ یہ یقین رکھتے ہیں کہ اللہ ہمارے ساتھ ہے۔ جو لوگ کسی وجہ سے احساس تنہائی کے مسائل سے دو چار ہیں ان کے لیے بطور روحانی علاج بعض مشقیں اور وظائف بہت مفید ہیں۔
ماہنامہ روحانی ڈائجسٹ ستمبر 2021