Daily Roshni News

ہر ذرّے کا مقدر “فنا” نہیں، “بقا بذریعہ واپسی” ہے۔

ہر ذرّے کا مقدر “فنا” نہیں، “بقا بذریعہ واپسی” ہے۔

ہالینڈ(ڈیلی روشنی نیوز انٹرنیشنل )کائناتی رجوع (The Cosmic Return): کیا صرف انسان بھٹکا ہوا ہے یا پوری کائنات گھر واپسی کے لیے تڑپ رہی ہے؟ ایک سائنسی و عرفانی مقدمہ! – بلال شوکت آزاد

اکثر نیم تاریک راتوں میں، جب آپ آسمان کی وسعتوں کو دیکھتے ہیں، تو دل میں ایک عجیب سی ہوک، ایک نامعلوم اداسی کیوں جنم لیتی ہے؟

کیا یہ محض انسانی نفسیات کا کھیل ہے؟

یا یہ اداسی دراصل اس “کائناتی فریاد” (Cosmic Cry) کی گونج ہے جو آپ کے ایٹموں کے اندر قید ہے؟

عام طور پر سمجھا جاتا ہے کہ “ہجر” (Separation) اور “وصال” (Reunion) صرف شاعروں اور صوفیوں کے موضوعات ہیں، لیکن آج میں آپ کو جدید فزکس اور کاسمولوجی کی لیبارٹری میں لے جا کر یہ دکھاؤں گا کہ “گھر واپسی” (The Return) صرف انسان کا مسئلہ نہیں ہے، بلکہ یہ ہائیڈروجن کے ایک ننھے ایٹم سے لے کر اربوں نوری سالوں پر محیط کہکشاؤں تک۔۔۔ پوری کائنات کا واحد اور حتمی ایجنڈا ہے۔

سائنس جسے “اینٹروپی” (Entropy) کہتی ہے اور مذہب جسے “رجوع” (Return) کہتا ہے، یہ دونوں دراصل ایک ہی سکے کے دو رخ ہیں۔

مولانا رومی نے جب بانسری کی مثال دی تھی کہ وہ اپنے بانس کے جنگل (اصل) سے کٹنے پر رو رہی ہے (Rumi, Masnavi, 1258)، تو وہ دراصل “کوانٹم فزکس” کی سب سے بڑی حقیقت بیان کر رہے تھے۔

ہر وہ چیز جو “الگ” ہوئی ہے، وہ واپس “ملنے” کے لیے تڑپ رہی ہے!

یہ کائنات ایک حادثہ نہیں، بلکہ ایک “دائرہ” (Circle) ہے جسے مکمل ہونا ہے۔

سب سے پہلے ہمیں کائنات کی تخلیق کے سائنسی ماڈل کو سمجھنا ہوگا جو اس “جدائی” کی داستان سناتا ہے۔

جدید سائنس کا سب سے مستند نظریہ “بگ بینگ” (Big Bang) ہمیں بتاتا ہے کہ آج سے تقریباً 13.8 ارب سال پہلے یہ پوری کائنات ایک “نقطے” (Singularity) میں بند تھی۔

ایک ایسا نقطہ جہاں وقت، مکان اور مادہ “ایک” تھے (Stephen Hawking, A Brief History of Time, 1988)۔

پھر ایک دھماکہ ہوا، یا یوں کہیں کہ ایک “فیصلہ” ہوا، اور یہ وحدت (Oneness) کثرت (Multiplicity) میں بکھر گئی۔

قرآنِ کریم نے اس حقیقت کو 1400 سال پہلے کس قدر خوبصورتی سے بیان کیا:

“أَوَلَمْ يَرَ الَّذِينَ كَفَرُوا أَنَّ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضَ كَانَتَا رَتْقًا فَفَتَقْنَاهُمَا” (کیا ک اف روں نے نہیں دیکھا کہ آسمان اور زمین باہم جڑے ہوئے تھے، پھر ہم نے انہیں پھاڑ کر جدا کر دیا) [الانبیاء: 30]۔

یہ “رتقاً” (Singularity) سے “فتقاً” (Expansion) کا سفر ہی دراصل وہ “ہجر” ہے جس کا ماتم کائنات کا ذرہ ذرہ کر رہا ہے۔

بگ بینگ دراصل “گھر سے نکلنے” کا لمحہ تھا، اور تب سے لے کر اب تک، کائنات کی ہر کہکشاں، ہر ستارہ اور ہر انسان ایک سینٹری فیوگل فورس (Centrifugal Force) کے تحت ایک دوسرے سے دور بھاگ رہا ہے۔

لیکن۔۔۔ فزکس کا قانون ہے کہ ہر عمل کا ردعمل ہوتا ہے۔ جو چیز پھیلی ہے، اسے سمٹنا ہے۔

سائنسدان آج “بگ کرنچ” (Big Crunch) یا “سائیکلک ماڈل” (Cyclic Model) کی بات کر رہے ہیں، جس کے مطابق گریویٹی بالاخر اس پھیلاؤ کو روک لے گی اور کائنات واپس اسی “نقطے” کی طرف پلٹے گی جہاں سے یہ شروع ہوئی تھی (Roger Penrose, Cycles of Time, 2010)۔

کیا آپ نے کبھی غور کیا ہے کہ کائنات میں “دائرے” (Circles) کیوں ہیں؟

زمین سورج کے گرد گھومتی ہے، چاند زمین کے گرد، الیکٹران نیوکلئس کے گرد۔

یہ گول چکر کیا ہے؟

جیومیٹری کی زبان میں دائرہ وہ شکل ہے جس کا آغاز ہی اس کا انجام ہوتا ہے۔

یہ گردش دراصل “تلاش” ہے۔

ہر چیز اپنے مرکز (Center) کو ڈھونڈ رہی ہے۔

کششِ ثقل (Gravity) کیا ہے؟

یہ مادے کی “محبت” ہے جو اسے واپس جوڑنا چاہتی ہے۔ اگر گریویٹی نہ ہوتی تو کائنات بکھر کر ختم ہو جاتی۔

یہ کششِ ثقل اس بات کا ثبوت ہے کہ مادہ “جدائی” کو قبول نہیں کر رہا، وہ واپس “ایک” ہونا چاہتا ہے۔

انسان کا جسم بھی ستاروں کی خاک (Stardust) سے بنا ہے (Carl Sagan, Cosmos, 1980)۔

ہمارے جسم میں موجود کاربن، نائٹروجن اور آکسیجن ان ستاروں کے پھٹنے سے بنے جو اربوں سال پہلے مر گئے تھے۔

ہم کائنات کا حصہ ہیں، اس لیے کائنات کی تڑپ ہمارے اندر بھی منتقل (Inherit) ہوئی ہے۔

جب ہم مرتے ہیں، تو حیاتیات (Biology) کا قانون کہتا ہے کہ ہمارے اجزا (Decomposition) واپس مٹی اور ہوا کا حصہ بن جاتے ہیں۔

یہ محض کیمیائی عمل نہیں ہے، یہ “واپسی” کا سفر ہے۔

قرآن اس قانون کو اٹل الفاظ میں بیان کرتا ہے:

“مِنْهَا خَلَقْنَاكُمْ وَفِيهَا نُعِيدُكُمْ” (اسی زمین سے ہم نے تمہیں پیدا کیا اور اسی میں تمہیں لوٹائیں گے) [طٰہٰ: 55]۔

یہ “اعادہ” (Return) صرف جسم کا نہیں، پوری کائنات کی تقدیر ہے۔

اب ذرا تھرموڈائنامکس (Thermodynamics) کے دوسرے قانون کو دیکھیں جو کہتا ہے کہ کائنات کا “ڈس آرڈر” (Entropy) مسلسل بڑھ رہا ہے (Ludwig Boltzmann, 1877)۔

بظاہر یہ لگتا ہے کہ کائنات تباہی کی طرف جا رہی ہے، لیکن دینی نگاہ سے دیکھیں تو “نظام کا ٹوٹنا” دراصل “قید سے رہائی” ہے۔

 جب ایک عمارت گرتی ہے تو اس کی اینٹیں اپنی اصل حالت (مٹی) کی طرف لوٹتی ہیں۔

جب برف پگھلتی ہے تو وہ اپنی قید (ٹھوس شکل) سے آزاد ہو کر پانی (اصل) بن جاتی ہے۔

موت، تباہی اور بکھرنا۔۔۔

یہ سب منفی الفاظ نہیں ہیں، یہ “گھر واپسی” کے دروازے ہیں۔

قرآن کہتا ہے:

“كُلُّ شَيْءٍ هَالِكٌ إِلَّا وَجْهَهُ” (ہر چیز ہلاک ہونے والی ہے سوائے اس کی ذات کے) [القصص: 88]۔

 سائنسدان اسے “Heat Death” یا “Proton Decay” کہہ سکتے ہیں، لیکن حقیقت یہ ہے کہ مادی شکلیں (Forms) عارضی ہیں اور انہیں مٹنا ہے تاکہ وہ اپنی “بے صورت” (Formless) حقیقت میں واپس جا سکیں۔

اقبال نے کیا خوب کہا تھا:

“سکوں محال ہے قدرت کے کارخانے میں”۔

یہ بے سکونی اس لیے ہے کہ مسافر ابھی راستے میں ہے۔

جب تک دریا سمندر میں نہیں گر جاتا، وہ شور مچاتا ہے، پتھروں سے ٹکراتا ہے، لیکن جیسے ہی وہ سمندر (اصل) میں گرتا ہے، وہ خاموش ہو جاتا ہے۔

فنا (Annihilation) دراصل بقا (Eternity) کا دروازہ ہے۔

اس “کائناتی رجوع” کا سب سے بڑا ثبوت بلیک ہولز (Black Holes) ہیں۔

جدید ایسٹروفزکس کے مطابق بلیک ہول وہ مقام ہے جہاں مادہ، روشنی، اور وقت سب کچھ ختم ہو کر ایک “سنگولیریٹی” میں گم ہو جاتا ہے۔

یہ کائنات کے وہ “ڈرین پائپس” (Drain Pipes) ہیں جہاں مادہ واپس اپنی “غیر مادی” حالت میں تبدیل ہو رہا ہے۔

سٹیفن ہاکنگ نے اپنی آخری تحقیقات میں یہ اشارہ دیا تھا کہ بلیک ہولز معلومات (Information) کو فنا نہیں کرتے بلکہ شاید کسی اور شکل میں محفوظ کرتے ہیں (Stephen Hawking, Black Holes and Soft Hair, 2016)۔

یہ وہی تصور ہے جو قرآن پیش کرتا ہے:

“إِنَّا لِلَّهِ وَإِنَّا إِلَيْهِ رَاجِعُونَ” (ہم اللہ ہی کے لیے ہیں اور اسی کی طرف لوٹ کر جانے والے ہیں) [البقرۃ: 156]۔

یہ آیت صرف جنازوں کے لیے نہیں ہے، یہ “کائناتی فزکس” کا سب سے بڑا فارمولا ہے۔

یہ صرف انسان کے لیے نہیں، بلکہ کہکشاؤں، ستاروں اور ایٹموں کے لیے ہے۔

“راجعیون” (Returning) ایک مستقل عمل (Process) ہے۔

روشنی کا منبع سورج ہے، اس لیے روشنی پلٹ کر نہیں آتی لیکن مادہ اور روح، جن کا منبع خالقِ حقیقی ہے، وہ ایک دائرے میں سفر کر رہے ہیں۔

تو میرے دوستو!

یہ ماننا چھوڑ دیں کہ آپ اکیلے اداس ہیں۔

آپ کا دل اگر کسی نامعلوم مقام کی یاد میں دھڑکتا ہے، تو جان لیجیے کہ یہ وہی دھڑکن ہے جو ایک الیکٹران کو نیوکلئس کے گرد گھما رہی ہے، اور جو زمین کو سورج کے گرد نچا رہی ہے۔

یہ پوری کائنات ایک “ہجرت” کے عمل میں ہے۔

ہم سب “جلاوطن” (Exiles) ہیں۔

بگ بینگ ہمارا “خروج” (Exit) تھا اور قیامت ہمارا “داخلہ” (Entry) ہے۔

سائنسدان جسے “The Big Crunch” کہتے ہیں، قرآن اسے “یومِ طوی” (لپیٹنے کا دن) کہتا ہے:

“يَوْمَ نَطْوِي السَّمَاءَ كَطَيِّ السِّجِلِّ لِلْكُتُبِ” (جس دن ہم آسمان کو یوں لپیٹ لیں گے جیسے خطوں کا طومار لپیٹ لیا جاتا ہے) [الانبیاء: 104]۔

یہ کائنات پھیلی تھی، اب اسے سمٹنا ہے۔

یہ بکھری تھی، اب اسے جڑنا ہے۔

یہ شور تھی، اب اسے خاموشی بننا ہے۔

آپ اور میں۔۔۔

ہم سب اس عظیم واپسی کے سفر کے مسافر ہیں۔

انسان بھٹکا ہوا نہیں ہے، انسان تو اس قافلے کا سالار ہے جو شعوری طور پر جانتا ہے کہ اسے کہاں جانا ہے۔

باقی کائنات “مجبوراً” لوٹ رہی ہے (طوعاً و کرھاً)، اور انسان کو “اختیار” دیا گیا ہے کہ وہ محبت سے لوٹے۔

آخر میں، بات وہیں ختم ہوتی ہے جہاں سے شروع ہوئی تھی:

ہر ذرّے کا مقدر “فنا” نہیں، “بقا بذریعہ واپسی” ہے۔

#سنجیدہ_بات

#آزادیات

#بلال #شوکت #آزاد

Loading