Daily Roshni News

ہزاروں ہیں شکوے۔۔۔ تحریر۔۔۔ مستنصر حسین تارڑ

‏ ہزاروں ہیں شکوے

تحریر۔۔۔ مستنصر حسین تارڑ

ہالینڈ(ڈیلی روشنی نیوز انٹرنیشنل ۔۔۔‏ ہزاروں ہیں شکوے۔۔۔ تحریر۔۔۔ مستنصر حسین تارڑ)یہ آج تک معلوم نہیں ہو سکا کہ لاہورئیے ٹریفک کے سپاہی کو     ” سنتری بادشاہ ” کیوں کہتے ہیں ۔ ذرا غور کریں تو یہ تو معلوم ہو جاتا ہے کہ انگریزی کے کچھ الفاظ پنجابی میں ایسے در آئے ہیں کہ یار لوگ انہیں خالص پنجابی ہی سمجھتے ہیں ، مزید غور کریں تو پتہ چلتا ہے کہ ” سنتری ” کا لفظ دراصل انگریزی کے پہرے دار  ” سینٹری ” سے نکلا ہے جو رفتہ رفتہ سنتری ہو گیا ہے ۔ سنتری کے ساتھ بادشاہ کا لقب اہل لاہور کی فیاضی کا مظہر ہے ۔

یہ بھی حقیقت ہے کہ ایک زمانے میں ٹریفک پولیس کا سپاہی واقعی بادشاہ ہوتا تھا ۔ لاہور کی مال روڈ کے خالی اور ویران چوکوں میں کھڑا رہتا تھا اور اونگھتا رہتا تھا ، کبھی کبھار کوئی ڈبل ڈیکر بس گزرتی تھی تو وہ چونک جاتا تھا ۔

کوئی سبزی والا ریڑھا گزرتا تو وہ ایک دو مولیاں یا شلغم حاصل کر کے انہیں چباتا رہتا ۔

دن کے وقت ان کا اصل شکار سکول اور کالج سے لوٹنے والے وہ سائیکل سوار ہوتے جو ” ڈبلنگ ” کے جرم کے مرتکب ہوتے تھے ۔ اگرچہ سائیکل سوار یہ احتیاط ضرور کرتے کہ جونہی کوئی سنتری بادشاہ دکھائی دیتا ، وہ سائیکل سے اتر کر پیدل چلنے لگتے اور ذرا آگے جا کر پھر سے ” ڈبل ” ہو جاتے لیکن سنتری بادشاہ بھی کچی گولیاں نہیں کھیلے ہوتے تھے وہ بھی ذرا پوشیدہ ہو کر کھڑے ہوتے اور مجرمان کی آمد پر یکدم وارد ہو کر ان کی سائیکل کا ہینڈل پکڑ کر کہتے :

” اوئے تمہارا تو چالان ہو گا “

انہی دنوں کا قصہ ہے کہ میں ایک بھری دوپہر میں اسکول سے واپس آ رہا تھا ۔۔۔۔ اور ڈرائیور کے ساتھ واپس آ رہا تھا ۔۔۔ یعنی سائیکل میرا تھا اور اسے ڈرائیو میرا جماعتی نسیم کر رہا تھا اور میں مزے سے ڈنڈے پر بیٹھا آس پاس کے مناظر سے لطف اندوز ہو رہا تھا ۔ اب ہم بے دھیانی میں مارے گئے ۔ جی پی او کے چوک کے بڑے پیپل کے نیچے پوشیدہ سنتری بادشاہ ہمیں نظر نہ آیا ، جب نظر آیا تو اس نے ہمارے سائیکل کا ہینڈل تھام رکھا تھا اور ہم گرتے گرتے بچے کیونکہ ابھی ہماری ٹانگوں کی لمبائی سائیکل کی اونچائی کے برابر نہیں ہوئی تھی ۔ اس نے ایک گرج دار  آواز میں نعرہ لگایا :

” بچو ، تمہارا تو چالان ہو گا ، کیا نام ہے تمہارا ۔۔۔ “

چالان کے نام پر ہم دونوں معصوم بچہ لوگ تھر تھر کانپنے لگے ، پسینے چھوٹ گئے ، ہکلانے لگے اور غسل خانے میں جانے کی شدید حاجت نے سر اٹھایا ۔

اب اس صورتحال سے بچنے کا ایک ہی طریقے تھا ۔ نسیم کو اللہ تعالٰی کی طرف سے ایک خاص ٹیلنٹ سے نوازا گیا تھا ۔ وہ دن یا رات کسی بھی وقت بلا تکلف دو سیکنڈ کے اندر اندر بلا وجہ دھاڑیں مار مار کر رونے پر قادر تھا اور اتنا روتا تھا کہ اس کی اور سننے والوں کی ہچکی بندھ جاتی تھی ۔ اسکول میں اساتذہ بھی اس کا احترام کرتے تھے اور بلا وجہ اسے زدو کوب کرنے سے گریز کرتے تھے ۔

بہر حال اس بھری دوپہر میں جب ہم جی پی او کے چوک میں کھڑے تھے اور ہمیں اپنی اپنی امی جانیں یاد آ رہی تھیں اور ایک سنتری بادشاہ کا غضبناک چہرہ ہمارے سامنے تھا ۔ میں نے نسیم کو اشارہ کیا کہ بھائی میرے شروع ہو جا ۔۔۔ نسیم نے فی الفور منہہ ایک اداس مگر مچھ کی طرح کھولا اور ایک چیخ بلند کی اور بھوں بھوں کرتا رونے لگا ۔ سنتری بادشاہ یکدم پریشان ہو گیا کہ اس کاکے کو تو میں نے کچھ کہا نہیں تو  اس نے کس سلسلے میں دھواں دار رونا شروع کر دیا ہے چنانچہ اس نے ڈانٹ کر کہا :

” اوئے چپ کر اوئے “

اس پر نسیم نے اپنی دھاڑیں مارنے کی والیوم مزید بلند کر دی ۔

سنتری بادشاہ مزید پریشان ہو گیا ۔

” اوئے چپ کرتا ہے یا میں لپڑ مار کر چپ کراؤں ۔  “

اس لپڑ مارنے کی دھمکی کی وجہ سے نسیم مزید اشتعال میں آ گیا اور نہایت دردناک آواز میں ” ہائے امی ہائے امی ” بھی پکارنے لگا ۔ لوگ جمع ہونے لگے ۔ پوسٹ آفس کے باہر جو عرضی نویس اونگھ رہے تھے وہ بھی آ گئے ۔ خاصا مجمع لگ گیا اور ہر ایک یہی پوچھ رہا ہے کہ اس بچے کو کیا ہوا ہے ۔۔۔۔۔ بیٹے آپ کو کس نے مارا ہے ؟

ادھر سنتری بادشاہ کے اوسان خطا ہو چکے تھے اور وہ لوگوں کو قسمیں کھا کھا کر یقین دلانے کی کوشش کر رہا تھا کہ جناب میں نے اس بچے کو کچھ نہیں کہا ، ڈبلنگ کر رہے تھے تو روکا ہے لیکن سنتری بادشاہ کی کسی نے نہ سنی ۔ لوگ کہتے کہ تم نے ضرور اس بچے کو ” تنگ ” کیا ہے جو اس بھری دوپہر میں رو رو کر اپنی امی کو پکار رہا ہے اور بیچارہ بچہ ہلکان ہو رہا ہے ۔ قصہ مختصر سنتری بادشاہ نے اپنی جیب خاص سے ہمیں ایک دونی عطا کی کہ بچو میری طرف سے جا کر گنڈیریاں کھا لو ۔۔۔۔۔۔ بہت مہربانی تمہاری ۔۔۔۔۔۔ نسیم نے دونی وصول کی اور فی الفور چپ ہو گیا اور ہم سائیکل پر سوار ہو کر مزے سے واپس آ گئے

اس وقوعے کے بعد ہم اطمنان سے ڈبلنگ کرتے اس چوک سے گزرتے اور سنتری بادشاہ ہمیشہ پہلے ایک قہر آلود نظر سے ہمیں دیکھتا اور پھر فوراً مسکرانے لگتا

ہزاروں ہیں شکوے

 مستنصر حسین تارڑ

Loading