Daily Roshni News

ہسٹری  کی مسٹری۔۔۔قسط نمبر2

ہسٹری  کی مسٹری

)قسط نمبر2)

بشکریہ ماہنامہ روحانی ڈائجسٹ فروری  2024

ہالینڈ(ڈیلی روشنی نیوز انٹرنیشنل ۔۔۔ ہسٹری  کی مسٹری) ایک خیال یہ ہے کہ نان میڈول کو بہت بڑی افرادی قوت سے تعمیر کیا گیا۔ غالباً بسالٹ کے پتھروں کو افقی سمت سے جھکے ہوئے کھجور کے تنوں کی مدد سے اُٹھا کر ان کی موزوں جگہ پر رکھا گیا تھا۔ حیرت کی بات یہ ہے کہ نہ ہی اس جزیرے پر جہاں نین میڈول واقع ہے ، اور نہ ہمسایہ جزائر میں اتنی انسانی آبادی آباد تھی کہ وہ انجینئر نگ کے اس قدر حیران کن کار نامہ کو پورا کرنے کے لیے کافی ہوں۔ ارد گر کے جزائر میں ایک دیو مالائی کہانی مشہورہے کہ کئی صدیاں پہلے دو بھائیوں کو دیوتاؤں نے جادوئی طاقت بخشی۔ اس جادوئی طاقت سے وہ ان بھاری پتھروں کو اڑا کر اس مقام پر لائے تھے۔ ایک اور داستان کے مطابق، کبھی پوناپے میں ایسے ترقی یافتہ لوگ آباد تھے جو صوتی لہروں الٹراسانک ویوز) کو قابو میں رکھنے کار از جانتے تھے جس کی وجہ سے وہ ان بھاری پتھروں کو ہوا میں اڑا کر یہاں لانے کے قابل ہوئے تھے۔

کسی کو بھی نان میڈول کی تعمیر اور تباہی کی بابت کچھ پتہ نہیں۔ بیشتر کے خیال میں اس پر قبضہ کیا گیا تھا۔ کچھ کے خیال میں بعض اجنبیوں کی یہاں آمد کے ساتھ وارد ہونے والی بیماری اس کی تباہی کا سبب بنی۔ ایک خیال یہ بھی ہے کہ سخت طوفان کی وجہ سے اس جزیرے کے غذائی وسائل تباہ ہو گئے تھے جس سےلوگ ہجرت پر مجبور ہو گئے۔

وجہ خواہ کوئی بھی تھی، نان میڈول تقریباً 200سال سے ویران و سنسان پڑا ہے۔

Angakorانگ کور

ذرا دس لاکھ سے بھی زیادہ آبادی کے ایک شہر کا تصور کیجیے۔ سان فرانسسکو سے بھی بڑا شہر ، کوئٹہ، کویت اور بر زمین جتنی آبادی والا شہر ، رقبہ کے حساب سے دیکھا جائے تو پشاور اور لاہور کے برابر ، اسلام آباد اور واشنگٹن کی طرح مرکزی شہر لیکن ان سے بھی زیادہ رقبہ گھیرے ہوئے ایک سلطنت کا دارلحکومت، اس شہر کی یادگاریں اور سرکاری عمارت ڈسٹرکٹ آف کو لمبیا عمارات سے کہیں زیادہ بڑی ہیں۔

اب اس وسیع شہر کو متروک، اُجاڑ اور سنسان تصور کیجیے …. تصور کیجیے کہ اتنے بڑے شہر کو لوگ اچانک چھوڑ جائیں تو کیا ہو …. کام کرنے والوں نے اپنے اوزار رکھ دیے، ماؤں نے اپنے بچے اٹھائے اور یہاں سے کہیں چلے گئے۔ شہر ویران چھوڑ دیا گیا۔ چار سو سال تک یہ شہر ایک دم بے آباد رہا …. اس کے ارد گرد موجود جنوب مشرقی ایشیا کا انتہائی گھنا اور الجھا الجھا جنگل اتنا بڑھا کہ شہر نگاہوں سے غائب ہو گیا۔

چار سو سال اس کی صرف داستانیں باقی رہیں۔ سبزے کا گھنا پردہ اسے آنکھوں سے چھپائے ہوئے تھا۔ ماہرین آج بھی اس معمہ کو حل نہیں

کر پائے ہیں کہ وہ کیا وجہ تھی کہ دس لاکھ انسان اپنے گھر بار اور کاروبار کھلا چھوڑ کر شہر سے چلے گئے اور پلٹ کر اس کی خبر نہ لی۔ وقت کے ساتھ ساتھ اسےفراموش کر دیا گیا۔

یہ انیسویں صدی عیسویں کی بات ہے کہ فرانس کا مشہور سیاح ہنری موہاٹ Henri Mouhot جنوب مشرقی ایشیا میں کسی انوکھی چیز کی کھوج کے ایڈونچر میں سر گرداں تھا۔ اس کا اصل شوق تتلیاں تھیں۔ اب تک وہ ہمیں ہزار کے لگ بھگ تتلیاں جمع کر چکا تھا۔ اسی دُھن میں وہ سلطنت کمپوچیا کے جنگلوں میں پیدل چلتے ہوئے اپنی راہ میں آنے والی جھاڑیاں، شاخیں اور بیلوں کو کاٹتا ہوا آگے بڑھ رہا تھا کہ اچانک گھنے جنگل میں درختوں کے درمیان ایک کھلی ہوئی جگہ پر پہنچ گیا۔ حیران کن بات یہ تھی کہ وہ علاقہ جنگل کے درمیان ہوتے ہوئے بھی جنگل بالکل نہیں لگ رہا تھا۔ اس میں جنگلوں والی کوئی بات ہی نہیں تھی۔ وہاں پتھروں سے بنی خاموش اور ساکت عمارات تھیں جن پر کائی جمی ہوئی تھی۔ کوئی ذی روح وہاں نہیں تھا۔ پرندوں کی چہچہاہٹ کے سوا کوئی آواز نہ تھی۔ چھوٹی چھوٹی کئی عمارتوں سے آگے اسے پانچ مینار بھی دکھائی دیے۔ ان میناروں پر اتنی نفاست سے مینا کاری کی گئی تھی کہ وہ دنگ رہ گیا۔ وہ مینار یقیناًبے حد قدیم تھے ، اس لیے کہ ان پر موٹی کائی جمی ہوئی تھی اور بیلیں چڑھی ہوئی تھیں۔ اس وجہ سے سب کچھ سبز ہو گیا تھا۔ وہ حیرت سے آگے بڑھتا جا رہا تھا۔آگے پتھروں کا راستہ تھا جو بتدریج بلند ہوتا جا رہا تھا۔پھر اسے ایک معبد دکھائی دیا۔ جس کے دروازے قوی ہیکل تھے۔ ان دروازوں کو بناوٹ کے لحاظ سے پر ہیبت اور شان دار کہا جا سکتا تھا۔ وہ کچھ آگے گیا تو

اسے ایک سڑک نظر آئی جو بہت چوڑی اور اتنی لمبی تھی کہ اس کا دوسرا سرا نگاہوں کی گرفت میں نہیں آرہا تھا۔ تعمیرات کی ہیئت اتنی نہیں بگڑی تھی کہ وہ پہچانی نہ جاتیں۔ وہ کھنڈر نہیں تھے بلکہ گزشتہ کل کا ایک ثابت و سالم شہر تھا۔ ایسا معلوم ہوتا تھا جیسے وہ پر یوں کا دیس تھا جسے وقت نے فراموش کر دیا ہو۔ ہنری موہاٹ کوئی ماہر ارضیات نہیں تھا، لیکن اس نے سیاحت کرتے ہوئے ایک عجوبہ روزگار شہر

دریافت کر لیا تھا۔ وہ کوئی چھوٹا موٹا شہر نہیں تھا کہ اسے نظر انداز کر دیا جاتا۔ قیا سا اس کی آبادی دس لاکھ رہی ہوگی۔ گویا وہ سان فرانسسکو، کوئٹہ ، کویت اور برز بین جتنی آبادی والا شہر ، رقبہ کے حساب سے دیکھا جائے تو پشاور اور لاہور کے رقبہ کے برابر ، اسلام آباد اور واشنگٹن سے بھی زیادہ رقبہ گھیرے ہوئے ہے ، اس کے معبد کی وسعت کا اندازہ یوں کیجیے کہ وہ ڈسٹرکٹ آف کولمبیا سے زیادہ بڑی ہیں۔ یہ ایشیا کی ایک نابود نسل خمیر کا دارالحکومت تھا جو اس دریافت سے چار سو برس قبل تک لوگوں کی نگاہوں سے اوجھل رہا تھا۔ موہاٹ واپس فرانس آیا اور اس نے آثار قدیمہ کے کئی ماہرین کو اس بارے میں بتا یا۔ یوں دنیا کے ماہرین اثریات اس طرف متوجہ ہوئے۔ ان ماہرین نے اس جنگل کو صاف کیا اور اس اسرار سے پردہ اٹھا یا کہ یہ دراصل انگ کور“Angkor نامی شہر تھا، جسے انگ کو ر اور اینکور بھی کہتے ہیں۔ انگ کور کا مطلب ہے ” عظیم شہر “ ہے ۔ یہ سینکڑوں برس تک کمبوڈیا کی خمیر Khmerسلطنت کا دار الحکومت رہا۔

انگ کور کے اس شہر اور معبد کی تعمیر کے متعلق قیاس آرائیاں ہیں کہ یہاں کے لوگ ہاتھیوں کے ذریعے بھاری بھر کم پتھر اُٹھا لاتے تھے، یہ لوگ رسی کا استعمال بھی جانتے تھے اور ان کے پاس منجنیق طرز کی مشینیں بھی تھیں۔ ایک اندازے کے مطابق خمیروں کے پاس ہاتھیوں کی تعداد دو لاکھ کے قریب تھی جو پوری طرح سے تربیت یافتہ تھے۔

خمیر چھ صدیوں تک جنوب ” مشرقی ایشیا کی غالب ترین قوم تھی۔ وہ پورے دبدبے سے اپنے علاقے میں حکومت کر رہے تھے۔ 1432ء میں انگ کور

متروک، اجاڑ اور سنسان ہو گیا تھا۔ اور چار سو سال تک کسی نے اس کا رخ نہیں کیا …. ایسا کیوں ہوا اس کے متعلق کوئی وجہ نہ ملی سکی۔ تاریخ اس حوالے سےخاموش ہے …..

کئی ماہرین اپنے اپنے قیاس لگا کر اس شہر کی تباہی کی اصل وجہ کھوجنے کی کوشش کرر کر رہے ہیں۔ بعض ماہرین کے مطابق تیرھویں چودھویں صدی انگ کور کے لیے زوال لیے ہوئے تھیں۔ خمیری حکمرانوں نے اپنی سلطنت کو وسعت دینے یا دفاعی لحاظ سے اطراف میں خمیریوں کے دشمن لاؤ اور انامیز ( ویت نامی) اور آیو تھا یہ ( تھائی) قوی تر ہو گئے اور ان پر غالب آگئے۔ کچھ ماہرین انگ کور کی ویرانی کی وجہ قدرتی آفات بتاتے ہیں، شاید سیلاب، خشک سالی، طاعون اور قحط کی وجہ سے لوگ شہر چھوڑنے پر مجبور مضبوط کرنے کے لیے کچھ نہ کیا۔ جبکہ اس دوران ہو گئے تھے۔

دنیا کی ہسٹری میں تعمیرات کی ایسی مسٹری کی کمی نہیں ہے۔ ان پر اسرار اور عجوبہ تعمیرات کی لسٹ میں اور بھی تعمیرات ہیں جن میں ٹیا ہوانا کو شہر کا ایک دیو ہیکل کلاں سنگی Megalithic دروازہ بھی ہے جو سطح سمندر سے 15 ہزار بلندی پر اونچے پہاڑ پر نصب ہے۔ یہ ایسا پہاڑ ہے جہاں کوئی سڑک نہیں جاتی ہے، جہاں ہوا میں آکسیجن لیول برائے نام ہے۔ اتنی بلندی پر سیکٹروں ٹن وزنی پتھر لانا تو دور عام مزدوری کرنا بھی محال ہے۔ ماہرین حیران ہے کہ آخر اس کلاں سنگی دروازے کی تراش خراش کیسے کی گئی ہوگی۔ ٹیا ہوانا کو اور ایسی مزید عجوبہ عمارات کا تذکرہ اگلے شمارے میں ملاحظہ کیجیے۔

بشکریہ ماہنامہ روحانی ڈائجسٹ فروری  2024

Loading