Daily Roshni News

ہولی ۔۔۔تحریر۔۔۔حمیرا علیم

ہولی

تحریر۔۔۔حمیراعلیم

ہالینڈ(ڈیلی روشنی نیوز انٹرنیشنل ۔۔۔ہولی ۔۔۔تحریر۔۔۔حمیرا علیم)گذشتہ ہفتے قائد اعظم یونیورسٹی کے طلباء نے ہولی کا تہوار مذہبی جوش و خروش سے منایا مگر حسب معمول حکومت کو ان کی خوشی ہضم نہیں ہوئی اور اس نے ایسے تہوار منانے پر پابندی عائد کر دی۔اس اقدام پر یقینا طلباء تو دکھی ہوئے ہی ہوں گے کچھ حکومتی نمائندگان بھی خاصے ناراض اور صدمے میں دکھائی دئیے۔جی نہیں وہ ہندو ہرگز نہیں ہیں۔

“ہولی ہمارا ثقافتی تہوار ہے ہم بچپن سے اپنے گاؤں گوٹھوں میں مناتے چلے آرہے ہیں۔

یونیورسٹیوں میں ان کی سینیٹ طے کرتی ہے کہ کس قسم کی سرگرمیوں پر پابندی ہونی چاہیےوفاق کے پاس کسی قسم کی پابندی کا کوئی اختیار نہیں ہے۔ اس طرح کے اقدامات سندھ کی ثقافت اور رواداری کی توہین ہے۔

ہم سندھ میں ہندو مذہب کی کتابیں گیتا اور رامائن بھی نصاب میں شامل کر رہے ہیں۔صوبائی وزیرِ تعلیم و ثقافت سردار شاہ

     یہ وہ رویہ اور سوچ ہے جس کی وجہ سے ہم مسلمان دین اکبر کے پیرو کار بن چکے ہیں۔اللہ تعالٰی نے قرآن میں ہر چیز کے متعلق واضح احکام دے کر فرمایا آج ہم نے تمہارے لیے تمہارا دین مکمل کر دیا۔مگر ہم بضد ہیں کہ اللہ تعالٰی کو نعوذ باللہ ثقافت اور مذہبی رواداری کا علم ہی نہیں ۔اور ہم سے بڑا ہیومن رائٹس ایکٹیوسٹ ہی کوئی نہیں اس لیے اپنے غیر مسلم بھائیوں کے ساتھ اظہار یکجہتی اس وقت تک ممکن نہیں جب تک ہم گردوارہ پر ان کے ساتھ ماتھا نہ ٹیک لیں، ہندوؤں کے ساتھ ہولی دیوالی نہ منا لیں مندر میں بتوں کے سامنے بھجن نہ گا لیں،  کرسچنز کے ساتھ کرسمس کے گیت نہ گا لیں اپنے گھروں میں کرسمس ٹری نہ سجا لیں اور یہودیوں کے ساتھ سبت نہ منا لیں،  زرتشت کے ساتھ آگ کی پوجا نہ کر لیں۔

    بحیثیت مسلمان ہمارا اولین فرض ہے قرآن و حدیث اور فقہ کا مطالعہ کرنا انہیں سمجھ کر ان پر عمل کرنا۔نبی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی زندگی ہمارے لیے ایک عملی نمونہ ہے انہوں نے قرآن کے ہر حکم پر عمل کر کے بتا دیا کہ یہ ایسے کر لو اور اس کام سے رک جاو۔

    اگر ہم سیرت النبی، سیرہ صحابہ یا کسی بھی باعمل مسلمان حکمران کے حالات زندگی پڑھیں تو ہمیں ایسی مذہبی رواداری کی مثال نہیں ملتی جیسی ہمارے سندھی منسٹر قائم کرنے جا رہے ہیں ۔

     ہر دور میں مسلمانوں نے غیر مسلم سے بہترین تجارتی و سفارتی تعلقات قائم کیے لیکن کبھی ان کے مذہب پر عمل پیرا ہو کر ان کو خوش کرنے کی کوشش نہیں کی۔کیونکہ کسی بھی غیر مسلم کے کسی تہوار یا عبادت میں شمولیت شرک ہے۔ایسے تمام تہوار غیر اللہ کے لیے منائے جاتے ہیں ان میں حصہ لے کر ہم یہ ثابت کرتے ہیں کہ عیسی علیہ السلام نعوذ باللہ اللہ کھا بیٹے ہیں،  عزیر علیہ السلام اللہ کے بیٹے ہیں،  بت خدا ہیں،  آگ لافانی خدا ہے۔کیا کبھی ایسا بھی ہوا ہے کہ ان مذاہب کے پیروکاروں نے رمضان کے روزے رکھے ہوں،  جمعہ کی نماز پڑھی ہو، عیدین منائی ہوں، قربانی کی ہو تاکہ ہمارے ساتھ اظہار یکجہتی کر سکیں؟؟؟؟

       ہم نے ناظرہ اور قرآن کو نصاب کا حصہ تو بنا دیا ہے لیکن افسوس نہ تواساتذہ باعمل ہیں اور دین کے علم سے آگاہ ہیں نہ ہی وہ اسٹوڈنٹس کو دین سکھا پا رہے ہیں۔وہ اسے صرف ایک مضمون کی طرح پڑھا کر ایگزام کی تیاری کروا دیتے ہیں اور طلباء بھی اسے صرف نمبر حاصل کرنے کے لیے رٹ لیتے ہیں۔

     حالانکہ ضرورت اس امر کی ہے کہ علماء ہائر کیے جائیں جو اسٹوڈنٹس کو قرآن  حدیث ، فقہ اور سیرت النبی ترجمے و تفسیر کے ساتھ پڑھائیں انہیں عمل کر کے دکھائیں تاکہ وہ بھی باعمل مسلمان بن سکیں۔میرے 2 کلاس کے بیٹے کی ناظرہ کی کتاب میں سورہ البقرہ اور چند دوسری سورتیں موجود تھیں۔پورے سال میں صرف قاعدہ پڑھایا گیا اور فائنل پیپر میں پہلی تین آیات دے دی گئیں کہ گھر والے یاد کروا دیں۔جب کہ 8 کلاس والے کی کتاب میں 8 لمبی سورتیں ترجمہ و تفسیر کے ساتھ تھیں سال بھر کچھ نہیں پڑھایا گیا فائنل پیپرز میں سورہ الانعام کی پہلی 5آیات کا ترجمہ دے دیا گیا۔

     ایسے قرآن پڑھانے کا یہی نتیجہ نکلنا ہے کہ ہمارے بچے اسلام سے زیادہ دوسرے مذاہب کے پیرو کار ہوں۔پہلی کلاس سے لے کر پی ایچ ڈی تک اگر چند آیات بھی سمجھا دی جائیں اور بچے ان پر عمل پیرا ہو جائیں تو یہ لمبی لمبی سورتوں کے سیلبس اور کتب سے بہتر ہے۔ناظرہ کی کتب کا کوئی فائدہ نہیں ماسوائے اس کے کہ یہ والدین کی جیب پر بوجھ ہے۔خصوصا اس صورت میں جب پورے سال میں صرف تین یا 5 آیات پڑھانی ہوں۔قرآن ہر گھر میں موجود ہے بچوں کو اس سے پڑھایا جا سکتا ہے۔

     اگر ہم اپنی آنے والی نسلوں کو تباہی سے بچانا چاہتے ہیں اور واقعی ہی مسلمان بنانا چاہتے ہیں تو حکومت، تعلیمی اداروں اور قراء پر انحصار کرنے کی بجائے خود بچوں کو دین سکھانا ہو گا انہیں شرک کے بارے میں بتانا ہو گا۔اور سردار صاحب جیسے منسٹرز کو منتخب کرنے سے بچنا ہو گا۔

Loading