Daily Roshni News

ہیومن ملک بینک۔۔۔ تحریر۔۔۔حمیراعلیم

ہیومن ملک بینک

تحریر۔۔۔حمیراعلیم

ہالینڈ(ڈیلی روشنی نیوز انٹرنیشنل ۔۔۔ ہیومن ملک بینک۔۔۔ تحریر۔۔۔حمیراعلیم )چند دن پہلے پاکستان میں ہیومن ملک بینک کے قیام کی خبر سنی اور اس پر چند علماء کے فتاوی بھی جاری ہوئے اسے ناجائز قرار دیا گیا جو کہ درست رائے تھی۔ اس سے پہلے جب آئی وی ایف پاکستان میں شروع کیا گیا تواس بارے میں بھی علماء نےتحفظات ظاہر کیے جسے یہ کہہ کر تسلی دے دی گئی

کہ میاں بیوی کے سپرمز اور ایگز ہی استعمال کیے جائیں گے اسلیے یہ حرام نہیں ہے۔اب مغرب کی طرح دوسروں کے ایگز اور سپرمز بھی استعمال کیے جا رہے ہیں اور اس پر کسی کو اعتراض بھی نہیں۔بالکل ایسے ہی ہیومن ملک بینک کا مسئلہ ہے۔اسلام کی رو سے کسی بھی بچے کو کوئی عورت، جو اس کی ماں نہیں،  دو سال کی عمر تک دودھ پلاتی ہے تو وہ اس کا محرم بن جاتا ہے۔اس طرح سے اس بینک سے مستفید ہونے والے بچے کس خاتون کا دودھ پیتے ہیں اس بارے میں خاتون اور بچے کے والدین کو علم ہونا چاہیے تاکہ مسئلہ رضاعت کے تحت وہ بچہ کل کو اپنی رضاعی بہن یا بھائی سے شادی کر کے گناہ گار نہ ہو۔اگر تو اس بینک کے قائم کرنے والے اس سلسلے میں کوئی نظام بنا چکے ہیں تو بہت اچھی بات ہے اس طرح وہ بچے جن کی مائیں کسی بھی وجہ سے انہیں دودھ نہیں پلا سکتیں ماں کا دودھ حاصل کر سکیں گے لیکن اگر ایسا کوئی سسٹم نہیں ہے تو اس بینک کا قیام ہمارے معاشرے میں کئی طرح کے مسائل پیدا کر دے گا۔

    یہ رواج مغرب میں تو ٹھیک ہیں کہ وہ کسی بھی مرد کے سپرمز سے بچے پیدا کر لیتے ہیں اور بچوں کو کسی بھی عورت کا دودھ پلا دیتے ہیں کیونکہ وہاں محرم رشتوں سے شادی بھی اب عام ہو چکی ہے اور رضاعت کا مسئلہ بھی نہیں۔لیکن ایک اسلامی ملک میں ایسا بینک خطرے کی گھنٹی ہے۔آئیے اسلام کی رو سے رضاعت کا جائزہ لیتے ہیں۔

رضاعت رضع سے بنا ہے رضاع یا رضاعۃ (پہلے حرف پر زیر ہو یا زبر دونوں صحیح ہے) بمعنی  عورت کا دودھ پینا ہے لیکن فقہ میں شیر خوار اگر شیر خوارگی کی عمر میں کسی بھی محرم یا نا محرم عورت کا دودھ پیے یا وہ عورت اسے دودھ پلائے (یعنی ارضاع) دونوں کا عمل رضاعت کہلاتا ہے۔

رضاعت سے حرمت دو شرط کے ساتھ ہوتی ہے :

پہلی :

پانچ یا پانچ سے زيادہ باررضاعت ہو اس لیے کہ حدیث عائشہ رضي اللہ تعالی عنہا میں ہے کہ :

عائشہ رضي اللہ تعالی عنہا بیان کرتی ہیں کہ قرآن مجید میں دس رضعات کا نزول ہوا تھا جس سے حرمت ثابت ہوتی ہے بعد میں انہیں پانچ معلوم رضعات کے ساتھ منسوخ کردیا گیا ۔۔ صحیح مسلم حدیث نمبر ( 1452 ) ۔

دوسری :

یہ رضاعت دوبرس کے اندر اندر ہونی چاہۓ : ( یعنی بچے کی عمر کے پہلے دوبرس میں ) اس لیے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے ثابت ہے کہ آپ نے فرمایا :

عبداللہ بن زبیر رضي اللہ تعالی عنہ بیان کرتے ہيں کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :

( رضاعت وہی ہے جوانتڑیوں کوبھردے ) سنن ابن ماجہ حدیث نمبر ( 1946 ) اورصحیح الجامع حدیث نبمر ( 7495 ) ۔

امام بخاری رحمہ اللہ تعالی اپنی صحیح میں بیان کرتے ہیں :

دوبرس کے بعد رضاعت نہیں ہے  اس لیے کہ اللہ سبحانہ وتعالی کا فرمان ہے :

مکمل دو برس ( یہ ) اس کے لیے ہے جومدت رضاعت مکمل کرنا چاہے ۔

اوررضعۃ کی تعریف یہ ہے کہ بچہ ماں کے دودھ کو ایک بار منہ میں لے کر دودھ پیۓ اوراسے سانس لینے کے لیے یا پھردوسرے میں منتقل ہونے کے لیے خود ہی چھوڑ دے وغیرہ ۔

اورجب یہ ثابت ہوجاۓ توپھر رضاعت کے احکام لاگو ہوں گے یعنی حرمت نکاح وغیرہ ۔

لیکن اگر رضعات میں شک وشبہ ہوتو اس کے بارے ميں ابن قدامہ رحمہ اللہ تعالی عنہ کا قول ہے :

اگر رضاعت کے وجود یا پھر اس کی تعداد میں شک ہوکہ آیا عدد مکمل ہوا ہے کہ نہيں تواس صورت میں حرمت ثابت نہيں ہوگی ، اس لیے کہ اصل حرمت کا نہ ہونا ہی ہے ، لہذا شک کی بنا پر یقین زائل نہیں ہوسکتا ۔  المغنی ( 11 / 312 ) ۔

تواس بنا پر اگر حرمت والی رضاعت ثابت نہ ہوسکے توشادی جائز ہے ۔

عورت کے دُودھ سے حرمت جب ثابت ہوتی ہے جبکہ بچے نے دو سال کی عمر کے اندر اس کا دُودھ پیا ہو، بڑی عمر کے آدمی کے لیے دُودھ سے حرمت ثابت نہیں ہوتی، نہ عورت رضاعی ماں بنتی ہے۔احناف کے نزدیک اڑھائی سال(صاحبین کے نزدیک دو سال) کے اندرتھوڑا یازیادہ دودھ پینے سے حرمت ثابت ہوجاتی ہے۔ جیسا کہ علامہ علاؤ الدین حصکفی فرماتے ہیں:بچہ کو دو برس تک دودھ پلایا جائے اس سے زیادہ کی اجازت نہیں۔ دودھ پینے والا لڑکا ہو یا لڑکی اور یہ جو بعض عوام میں مشہور ہے کہ لڑکے کو دو برس تک اور لڑکی کو ڈھائی برس تک پلا سکتے ہیں یہ صحیح نہیں یہ حکم دودھ پلانے کا ہے اور نکاح حرام ہونے کے لیے ڈھائی برس کا زمانہ ہے یعنی دو برس کے بعد اگرچہ دودھ پلانا حرام ہے مگر ڈھائی برس کے اندر اگر دودھ پلا دے گی، حرمت نکاح ثابت ہو جائے گی اور اس کے بعد اگر پیا تو حرمت نکاح نہیں اگرچہ پلانا جائز نہیں۔یاد رہے کہ ہجری سِن کے حساب سے دو برس کے بعد بچّہ یابچّی کو اگرچہ عورت کا دودھ پلانا حرام ہے۔ مگر ڈھائی برس کے اندر اگر دودھ پلائے گی تو رضاعت (یعنی دودھ کارشتہ) ثابت ہو جائے گی۔

امام شافعی کے ہاں پانچ گھونٹ دودھ پینا حرمت رضاعت پیدا کرتا ہے اور امام ابو عبید ابوثور،داؤد کے ہاں تین گھونٹ سے حرمت ثابت ہوجاتی ہے ان لوگوں کی دلیل یہ حدیث ہے (ایک بار یا دو بار دودھ پینا حرام نہیں کرتا)۔ امام ابو حنیفہ کے ہاں مطلقًا دودھ پینا حرمت رضاعت پیدا کرتا ہے خواہ کتنا ہی پیئے ایک گھونٹ یا آدھا یا زیادہ بشرطیکہ شیر خوارگی کی مدت میں ہو۔ یہ مدت اکثر علما کے ہاں دو سال کی عمر ہے امام ابو حنیفہ کے ہاں ڈھائی سال کی عمر امام ابو حنیفہ کی دلیل قرآن پاک کی آیت ہے:وَاُمَّہٰتُکُمُ الّٰتِیۡۤ اَرْضَعْنَکُمْ آیتہ کریمہ میں ارضعن مطلق ہے تین یا پانچ گھونٹ کی اس میں قید نہیں،نیز قرآن کریم میں ہے “وَاَخَوٰتُکُمۡ مِّنَ الرَّضٰعَۃِ مِّنَ الرَّضٰعَۃِ”یہاں بھی رضاعت مطلق ہے اور یہ حدیث خبر واحد ہے جس سے قرآنی مطلق کو مقید نہیں کرسکتے نیزعائشہ کی حدیث ہے’جو عورتیں ولادت (نسب) سے حرام ہیں، وہ رضاعت سے حرام ہیں۔ یہاں بھی رضاعت مطلق ہے غرض کہ آیت اور حدیث امام ابو حنیفہ کی دلیل ہے۔

فقہ جعفری میں رضاعت خاص شرطوں سے پیدا ہوتی ہے۔ جو مندرجہ ذیل ہیں۔

دودھ زندہ عورت کا پئے۔

دودھ میں کوئی چیز مخلوط نہ ہو۔ مثلا نوک پستان پرزخم ہونے کی وجہ سے ساتھ خون شامل نہ ہو۔

شیرخوار دو سال قمری سے بڑا نہ ہو۔ اگر ایک دن بھی بڑا ہو یا بلکہ اگر دس بار دودھ پی کر دو سال کا مکمل ہو جائے اور پھر پانچ یا آٹھ بار پلا بھی دیا جائے تو رضاعت نہیں آئے گی۔

شیر خوار ایک دن رات میں جی بھر کر متواتر دودھ پئے جو اس طرح سے ہو کہ اس سے شیرخوار کی ہڈیاں مضبوط ہوں اور اس کا گوشت بن جائے۔ یہ15 سے 18 یا زیادہ بار دودھ پینے سے ہو سکتا ہے۔

بچہ اس دوران یہ دودھ قے (الٹی) نہ کر دے۔

اس دن رات میں صرف اسی ایک عورت کا دودھ ہی پئے دیگر کسی اور عورت کے دودھ یا کسی اور کھانے یا پینے کا خلل بیچ میں نہ ہو۔

اپنے منہ سے ہی دودھ چوسے۔ پستان کو دبا کر بچے کے منہ میں ٹپکانے یا کسی اور طریقے سے دودھ پلانے سے رضاعت پیدا نہیں ہو گی۔

عورت کا دودھ ایک شوہر سے ہی پیدا ہوا ہو۔

عورت کا دودھ حلال عمل سے پیدا ہوا ہو۔

اگر کسی لڑکے یا لڑکی نے اپنی خالہ یا اسی طرح کسی دودھ پلا رہی عورت کا دُودھ پیا ہے، تو اس کا نکاح اس خالہ یا خاتون کی کسی لڑکی یا لڑکے سے نہیں ہو سکتا، اس کے علاوہ دونوں بہنوں یا اسی طرح کے سن رسیدہ رشتے داروں کی اولاد کے رشتے آپس میں ہو سکتے ہیں۔

رضاعت کا ثبوت دو عادل مردوں یا ایک مرد اور دو عورتوں کی شہادت سے ہوتا ہے۔

عقبہ سے مروی ہے کہ کہ انھوں نے ابو اھاب ابن عزیز کی بیٹی سے نکاح کیا تو ایک عورت آئی بولی کہ میں نے عقبہ کو اور جس سے انھوں نے نکاح کیا ہے اسے دودھ پلایا ہے تو اس سے عقبہ نے کہا کہ مجھے پتہ نہیں کہ تم نے مجھے دودھ پلایا ہے اور نہ تم نے مجھے اس کی خبر دی انھوں نے ابواہاب کے گھر والوں کے پاس بھیجا ان سے پوچھا وہ لوگ بولے ہم کو خبر نہیں کہ ہماری لڑکی کو اس نے دودھ پلایا ہے تو یہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف مدینہ سوار ہو کر پہنچے اور آپ سے پوچھا تو رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ یہ نکاح کیسے ہو سکتا ہے حالانکہ یہ کہا گیا چنانچہ عقبہ نے اسے چھوڑ دیا اس نے دوسرے خاوند سے نکاح کر لیا(بخاری) اس حدیث کی بنا پر احناف بھی کہتے ہیں کہ صرف ایک عورت کی خبر پر عورت کو علیحدہ کردینا افضل ہے، مگر رضاعت کا ثبوت دو مرد یا ایک مرد دو عورتوں کی گواہی سے ہوگا، امام شافعی کے ہاں چار عورتوں کی گواہی سے بھی رضاعت ثابت ہوجاتی ہے،امام مالک کے ہاں دو عورتوں کی گواہی سے بھی رضاعت کا ثبوت ہوجاتا ہے، سیدنا عبد اﷲ ابن عباس کا فرمان تھا کہ ایک دائی کی خبر و قسم سے بھی رضاعت ثابت ہوجاتی ہے،مذہب احناف بہت قوی ہے،اس حدیث میں حرمت کا فتویٰ نہیں بلکہ تقویٰ و احتیاط کا مشورہ ہے، اسی لیے نبی کریم  نے دائی کو نہ بلایا نہ اس کے بیان لیے نہ کوئی اور ثبوت مانگا دائی کی خبر  سن الگ ہونے کا حکم دیا۔

غیر محرم کو دودھ پلانے سے رضاعت ثابت ہوجاتی ہے لیکن احادیث میں دودھ کی مقدار اور رضاعت کی عمر کا تعین کیا گیاہے۔

حضرت عائشہ کہتی ہیں،کان فيما أنزل القرآن عشر رضعات معلومات يحر من ثم نسخن بخمس معلومات۔ قرآن میں یہ حکم نازل کیا گیا تھا کہ دس بار دودھ پینا جبکہ اس کے پینے کا یقین ہو جائے نکاح کو حرام کردیتا ہے پھر یہ حکم پانچ مرتبہ یقینی طور پر دودھ پینے سے منسوخ ہو گیا۔ (صحیح مسلم کتاب الرضاع باب التحریم بخمس رضعات:1452)

حضرت عائشہ ہی سے دوسری روایت میں ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے فرمایا: لا تحرم المصتہ ولا لمصتان ’’ایک دفعہ اور دو دفعہ دودھ چوسنے سے حرمت ثابت نہیں ہوتی۔‘‘ (صحیح مسلم کتاب الرضاع:1450)

حضرت اُم سلمٰہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے فرمایا: ’’صرف وہی رضاعت حرمت ثابت کرتی ہے جو انتڑیوں کو کھول دے اور وہ د ودھ چھڑانے کی مدت سے پہلے ہو۔‘‘ (سنن ترمذی:1152)

ابن عباس سے مروی ہے: لا رضاع إلا فی الحولين ’’کوئی رضاعت معتبر نہیں سوائے اس رضاعت کے جو دو سال کے دوران ہو۔‘‘ (مصنف عبد الرزاق:3؍1390)

مندرجہ بالا روایات سے معلوم ہوا کہ دو سال کی عمر میں جب بچہ پیٹ بھر کر جس سے انتڑیاں تر ہوجائیں پانچ دفعہ دودھ پی لے تو رضاعت ثابت ہو جائے گی

“مائیں اپنے بچوں کو پورے دو سال دودھ پلائیں یہ (حکم) اس شخص کے لیے ہے جو پوری مدت تک دودھ پلوانا چاہے اور دودھ پلانے والی ماؤں کا کھانا اور کپڑا دستور کے مطابق باپ کے ذمے ہوگا کسی شخص کو اس کی طاقت سے زیادہ تکلیف نہیں دی جاتی (تو یاد رکھو کہ) نہ تو ماں کو اس کے بچے کے سبب نقصان پہنچایا جائے اور نہ باپ کو اس کی اولاد کی وجہ سے نقصان پہنچایا جائے اور اسی طرح (نان نفقہ) بچے کے وارث کے ذمے ہے اور اگر دونوں (یعنی ماں باپ) آپس کی رضامندی اور صلاح سے بچے کا دودھ چھڑانا چاہیں تو ان پر کچھ گناہ نہیں اور اگر تم اپنی اولاد کو دودھ پلوانا چاہو تو تم پر کچھ گناہ نہیں بشرطیکہ تم دودھ پلانے والیوں کو دستور کے مطابق ان کا حق جو تم نے دینا کیا تھا دے دو اور خدا سے ڈرتے رہو اور جان رکھو جو کچھ تم کرتے ہو خدا اس کو دیکھ رہا ہے۔”

اگر ماں بیمار ہو اور بچے کو بھوک کی وجہ سے مرنے کا خدشہ ہو تو اسے کسی اور عورت سے دودھ پلوایا جا سکتا ہے۔

  اگر کوئی بھی اس ملک بینک سے استفادہ کرتا ہے توان تمام احکام کو ذہن میں رکھے۔تاکہ مستقبل میں کسی بھی حرام سے بچ سکیں۔

Loading