صدائےجرس
تحریر۔۔۔خواجہ شمس الدین عظیمیؒ
ہالینڈ(ڈیلی روشنی نیوز انٹرنیشنل ۔۔۔۔صدائے جرس۔۔۔تحریر۔۔۔خواجہ شمس الدین عظیمیؒ) تصوف پر ہزاروں کتابیں لکھی گئی ہیں۔ کئی لوگوں نے تصوف کے اوپر بے پناہ اعتراضات بھی کیے ہیں ۔ بڑی تعداد میں لوگوں نے تصوف کی فضیلت میں قصیدہ خوانی بھی کی ہے۔ تنقید و تعریف کے انبار میں تصوف کو ایک
اُلجھا ہوا مسئلہ سمجھا جانے لگا۔ کوئی کہتا ہے …. تصوف دنیابیزاروں اور کاہل الوجود لوگوں کا مسلک ہے۔
کسی نے کہا …. گدی نشینوں کا محبوب مشغلہ ہے اور مریدین سے خدمت لینے کا بہترین ذریعہ ہے۔ کسی نے بتایا کہ یہ مسمریزم، ہپنا ٹزم اور عامل و معمول کا کھیل ہے۔
یہ بھی سننے میں آیا ہے کہ ” نظریہ تصوف گانے بجانے اور دھمال ڈالنے کا اچھا طریقہ ہے۔ صاحب قلب و نظر افراد نے پُر وقار ، پر اعتماد اور سچائی کی عظمت کے ساتھ بیان کیا ہے کہ قلبی مشاہدات اور روحانی کیفیات کا نام تصوف ہے۔ صوفی کے دل کی ہر دھڑکن اللہ کے ساتھ وابستہ ہوتی ہے۔ تصوف من کی دنیا میں ڈوب کر سراغ زندگی پا جانے کا نام ہے۔
علم روحانیت یہ حقیقت آشکار کرتا ہے کہ ازل میں روح اللہ کو دیکھ چکی ہے، روحیں اللہ کی آواز سننے کے بعد ”بلی“ کہہ کر اس کی ربوبیت کا اقرار کر چکی ہیں۔ صوفی کہتا ہے اگر میری روح اللہ کو نہ جان سکتی تو اللہ مجھے اپنی ذات سے محبت کا حکم نہ دیتا۔ صوفی پر اسرار ورموز کا انکشاف ہوتا ہے۔ صوفی کے اوپر یہ واضح ہو جاتا ہے کہ روح ایک ایسی ہستی سے محبت کرنا چاہتی ہے ، جو اس کا خالق ہے۔ صوفی کے یقین میں یہ بات راسخ ہوتی ہے کہ اللہ مجھے سے محبت کرتا ہے۔ میری روح بھی اس سے محبت کرتی ہے۔ روحانی بندہ اللہ کی تلاش میں ، ارتکاز توجہ (Concentration) سے استغراق حاصل کر کے حقیقت الحقائق سے واقف ہو جاتا ہے۔
دانش ور پوچھتے ہیں کہ غیر صوفی کو وہ مشاہدات کیوں نہیں ہوتے جن کا صوفی اعلان کرتا ہے …. ؟ اس کی وجہ یہ ہے کہ اکثر انسان روح سے واصل نہیں ہونا چاہیے اور جب اپنی انا یعنی روح سے واقف نہیں ہونا چاہتا تو روح کی حقیقت اس کے لیے پر دہ بن جاتی ہے۔ انسان مادی اور دنیاوی علوم کے لیے اپنی ساری توانائی اور مال و دولت خرچ کرتا ہے۔ آدمی میٹرک پاس ہونے کے لیے 35600 گھنٹے اور کثیر سرمایہ خرچ کرتا ہے لیکن روح کا عرفان حاصل کرنے کے لیے دن، رات میں 20 منٹ بھی یکسو نہیں ہوتا۔ اللہ کے پاس جانے کے خیال سے ہی دنیادار کے اوپر مردنی چھا جاتی ہے، جبکہ اللہ کی ہر نعمت اسے اچھی لگتی ہے۔ کئی اہل عقل و دانش نے فلسفیانہ استدلال، منطق اور عقلی توجیہات سے تصوف کو اس قدر الجھا دیا ہے کہ تصوف ایک علم چیستان بن گیا ہے۔
قوم کے ہمدرد اور مخلص حضرات و خواتین نے تصوف کے اعلیٰ ذوق کو اختیار کر کے توکل، قناعت اور استغناء کی روشن مثالیں قائم کی ہیں۔ انہوں نے عملاً اس بات کا مظاہرہ کیا کہ تصوف ایک ایسا راستہ ہے جس پر چل کر انسان دنیا اور دین کی بھلائیاں حاصل کر لیتا ہے۔
تصوف کے پیروکار راہب نہیں ہوتے، وہ محنت و مزدوری کر کے حقوق العباد پورے کرتے ہیں اور شب بیدار ہو کر اللہ کے حضور حاضر ہوتے ہیں۔ تصوف یار وحانی علوم سیکھنے کے بعد انسانی شعور غیب کی دنیا کو دیکھ لیتا ہے انسان کو ایمان یعنی یقین حاصل ہو جاتا ہے کہ دنیا کی ابتداء انتہاء، اول و آخر ، ظاہر و باطن سب اللہ کے علم کے احاطے میں ہے۔ ایک آدمی بادشاہ کے احکامات پر اور اس کے بنائے ہوئے قوانین پر عمل کرتا ہے دوسرا آدمی بھی اچھا شہری ہے قوانین کا احترام کرتا ہے لیکن اسے بادشاہ کی قربت بھی حاصل ہے۔ دونوں اچھے شہری ہیں لیکن جسے قربت حاصل ہے، اس کا درجہ بڑا ہے۔ ایک عام بندہ اللہ کی بادشاہی میں اللہ کے فرماں بردار بندے کی طرح احکامات کی تعمیل کرتا ہے، برائیوں سے بچتا ہے غلطیوں اور کوتاہیوں کی معافی مانگتا ہے نیک عمل کرنے کی کوشش کرتا ہے۔ یہی سب کام صوفی بھی کرتا ہے ساتھ ہی وہ اللہ کے قرب کا متمنی ہوتا ہے۔ وہ اللہ کو جاننا چاہتا ہے۔ ہر شے پر اللہ کے محیط ہونے کا مشاہدہ کرنا چاہتا ہے۔ اللہ رگِ جان سے زیادہ قریب ہے اس آیت کے مصداق خود کو اللہ سے قریب محسوس کرتا ہے۔ ترجمہ : الم۔ یہ کتاب (قرآن مجید) اس میں کچھ شک نہیں (کہ کلام اللہ ہے) متقیوں کی رہنما ہے۔ ( متقی وہ لوگ ہیں) جو غیب پر ایمان لاتے اور صلوۃ قائم کرتے ہیں، اور جو کچھ ہم نے ان کو عطا فرمایا ہے اس میں سے خرچ کرتے ہیں۔ اور جو کتاب (اے محمد ملی ) تم پر نازل ہوئی اور جو کتابیں تم سے پہلے (پیغمبروں پر) نازل ہو ئیں سب پر ایمان لاتے اور آخرت کا یقین رکھتے ہیں۔
یہی لوگ اپنے پروردگار (کی طرف) سے ہدایت پر ہیں اور یہی نجات پانے والے ہیں۔ مندرجہ بالا قرآنی آیات میں تقرب الی اللہ اور حق الیقین کا پورا نصاب بیان ہوا ہے۔ شریعت مطہرہ ہمیں رہنمائی عطا کرتی ہے کہ ایمان بالغیب ( حق الیقین حاصل کرنے کے لیے اس طرح عمل کیا جائے کہ ہم جو کچھ کرتے ہیں اس میں ہمارا ذہن کامل یکسوئی کے ساتھ اللہ سے وابستہ ہو جائے۔
میری دانست میں تصوف کی تعریف یہ ہے کہ : تصوف ایک ایسا School of Thought ہے جس میں انسان کو انبیاءعلہیم السلام کی طرز فکر کے مطابق تعلیم دی جاتی ہے …. انسان تعلیم مکمل کر کے جب اس اسکول سے نکلتا ہے تو وہ ”آدمی“ سے ممتاز ہو کر ”انسان“ بن جاتا ہے اور اس کے اندر خاتم انسین حضرت محمد رسول الله علیم کی طرز فکر کارنگ غالب ہو جاتا ہے۔ وہ زندگی کے ہر لمحہ میں اللہ کو پکارتا ہے اور اللہ کو دیکھنے اور اس سے قریب تر ہونے کی آرزو کرتا ہے۔
انسان کی تخلیق کا مقصد خود کو پہچان کر اللہ کا عرفان حاصل کرنا ہے۔
اللہ تعالی ہمیں اپنی اصل یعنی روح سے واقف ہونے کی توفیق عطا فرمائے۔ (آمین)
بشکریہ ماہنامہ روحانی ڈائجسٹ مئی 2025