صدائے جرس
خدمت ِخلق
تحریر۔۔۔حضرت خواجہ شمس الدین عظیمی صاحب
بشکریہ ماہنامہ روحانی ڈائجسٹ جون 2019
ہالینڈ(ڈیلی روشنی نیوز انٹرنیشنل ۔۔۔صدائے جرس ۔۔۔تحریر۔۔۔خواجہ شمس الدین عظیمی )دنیاوی علوم کا استناد ہو یا روحانی استاد ہو، دونوں کا ادب و احترام ضروری ہے۔ روحانی استاد اور علم حصولی کے استاد میں یہ فرق ہے کہ روحانی استاد کے پیش نظر صرف اللہ ہوتا ہے۔ دنیاوی غرض، لالچ، طمع کچھ نہیں ہوتا، روحانی استاد کے ذہن میں شاگرد کی اصلاح و تربیت کا ایک مکمل پروگرام ہوتا ہے کہ شاگر د غیب کی دنیا سے واقف ہو جائے، اسے عرفان ذات حاصل ہو جائے ، روحانی استاد تعلیم دیتا ہے کہ اللہ سے دوستی کی شرط یہ ہے کہ بندہ وہ کام کرے جو اللہ کے لئے پسندیدہ ہے۔ روحانی استاد بتاتا ہے کہ روحانی انسان کا تعلق اللہ کے ساتھ قائم ہے، روحانی انسان وہی کام کر کے خوش ہوتا ہے جو اللہ کی پسند ہے۔
جواری کی دوستی کا تقاضا یہ ہے کہ دوست کے ساتھ جا کر کلب میں جو اکھیلے ، شطر نج کے کھلاڑی سے دوستی شطرنج پر مہارت حاصل کرنے کی متقاضی ہے۔ مصور کی دوستی آدمی کو ماہر مصورنہ بھی بنائے تو اسے اس قابل ضرور بنا دیتی ہے کہ وہ کینوس پر آڑھی ترچھی لکیریں کھینچ کر خد و خال اور نقش و نگار واضح کر دے۔ سینما دیکھنے کا شوقین پیسے خرچ کر کے دوست کو فلم دکھانے کے لئے لے جاتا ہے۔ دنیا داری میں کبھی دوستی اس وقت تک با اعتبار نہیں ہے جب تک دوست وہی اوصاف اختیار نہ کرے جو اس کے دوست کے ہیں۔
بچہ کا نو ماہ تک ماں کے پیٹ میں بظاہر حیاتیاتی ضابطوں کے خلاف پرورش پانا، پیدا ہو کر دنیا میں آنا، غذائی ضروریات پوری کرنے کے لئے ماں کے سینے سے دودھ کا چشمہ ابل پڑنا، پیدائش سے موت تک حفاظت ، وسائل کا مہیا ہوتا، یہ سب بندوں کی خدمت ہے جو اللہ کے قائم کردہ نظام کے تحت جاری و ساری ہے۔ اللہ کے نظام میں ہر آدمی کے ساتھ میں ہزار فرشتے ہمہ وقت کام کرتے ہیں۔ یعنی ہر آدمی اللہ تعالیٰ کا بنایا ہوا ایسا کمپیوٹر ہے جس میں بیس ہزار چیس ہیں، ایک چپ یا ایک کنکشن بھی کام نہ کرے تو پورے نظام میں خلل واقع ہو جاتا ہے۔ انسان کے اندر جو مشینری فٹ ہے میں ہزار فرشتے اس کے ایسے کنکشن ہیں جن سے انسانی مشین کے اندر بجلی دوڑتی ہے اور اس بچیلی سے انسان کے اندر بارہ کھرب سیلز چارج ہوتے ہیں۔ دماغ میں دو کھرب سیلز ہیں۔ ہر ایک سیل کسی نہ کسی حس ، کسی نہ کسی عضو، کسی نہ کسی شریان اور رگ پھٹوں سے متعلق ہے۔ دو کھرب سیلز میں سے ایک سیل بھی متاثر ہو جاتا ہے تو انسانی جسم پر اس کے منفی اثرات مرتب ہو جاتے ہیں۔ ایسے مربوط نظام کو خالق کی جانب سے مخلوق کی خدمت کے علاوہ اور کوئی نام نہیں دیا جا سکتا۔ زمین، سورج، چاند، ستارے، ہوا کی پرواز، بارشوں کا انتظام، جمادات، نباتات،
معدنیات، سمندروں میں آباد دنیا میں کس چیز کی نشاندہی کرتی ہیں۔ ہوا ناک یامنہ کے ذریعے جسم میں جاتی ہے اور مختلف نالیوں سے گزرتی ہوئی پورے جسم میں داخل ہوتی ہے۔
جیسے جیسے ہوا آگے بڑھتی ہے ہوا کا دباؤ زیادہ ہو تا رہتا ہے۔ ان نالیوں کا قطر بتدریج چھوٹا ہوتا جاتا ہے اور پھیپھڑوں میں موجود تین سو ملین تھیلیوں میں ہوا پہنچ جاتی ہے۔ کانوں سے ہم سنتے ہیں، آواز کی لہریں کان میں داخل ہوتی ہیں، کان کے پردے پر بالوں کی ضرب سے پیدا ہونے والی گونج میں ہم معنی پہناتے ہیں۔ کیا یہ سب مخلوق کی خدمت نہیں ہے؟ ان خدمات کے لئے آدمی خالق کو کتنے پیسے دیتا ہے ؟ آدمی زبانی کلامی بھی شکر ادا نہیں کرتا۔ آدمی کے اندر خون کا حیرت انگیز نظام کام کر رہا ہے۔ جسم کے اندر وریدوں اور شریانوں میں دوڑنے والا خون 24 گھنٹے میں 65 ہزار میل سفر طے کرتا ہے، آدمی ایک گھنٹہ میں تین میل چلتا ہے۔ اگر وہ مسلسل بغیر کسی وقفہ کے 26 ہزار 380 گھنٹوں تک چلتا ہے تو تب 75 ہزار میل کا سفر پورا ہو گا، کم و بیش ایک ہزار دن رات کی مسلسل مسافت انسان کی طاقت سے باہر ہے اور اللہ نے انسان کے ارادے اور اختیار کے بغیر جسمانی مشینری کو متحرک رکھنے کے لئے دل کی ڈیوٹی لگادی ہے کہ اپنے پھیلنے اور سکڑنے کی صلاحیت کو بروئے کار لا کر سارے جسم کے ایک ایک عضو کو خون فراہم کرتا رہے۔ سب تعریفیں اللہ رب اللعالمین کے لئے ہیں۔ جو عالمین کی خدمت کرتا ہے۔ جو عالمین کو وسائل فراہم کرتا ہے۔ جو عالمین کو رزق دیتا ہے۔ جو عالمین میں آباد مخلوق کو زندہ رکھنے کے لئے وسائل فراہم کرتا ہے۔ جس بندے کا اللہ سے تعلق قائم ہو جاتا ہے اس کے اندر اللہ کا وصف منتقل ہو جاتا ہے اور اللہ رب اللعالمین کا ایک وصف خدمت ہے، کوئی نبی، کوئی رسول، کوئی روحانی آدمی ایسا نہیں گزرا جس نے اللہ کی مخلوق کی خدمت نہ کی ہو ، جو بندہ مخلوق کی خدمت کرتا ہے۔ فی الحقیقت اس نے وہ کام شروع کر دیا ہے جو اللہ کرتا ہے، جتنا زیادہ مخلوق کی خدمت میں انباک بڑھتا ہے اسی مناسبت سے بندہ اللہ کے قریب ہو جاتا ہے، اللہ سے اس کی دوستی ہو جاتی ہے۔ روحانی استاد اپنے شاگرد کو بتاتا ہے۔ مخلوق کی خدمت اللہ کی پسندیدہ عادت ہے۔ روحانی آدمی اللہ کی مخلوق سے محبت کرتا ہے۔ جو بندہ مخلوق سے نفرت کرتا ہے اور تفرقہ ڈالتا ہے وہ اللہ کا دوست نہیں۔ اللہ کا دوست خود غرض نہیں ہو تا ۔ اللہ کا دوست خوش رہتا ہے اور سب کو خوش دیکھنا چاہتا ہے۔ ماں باپ بچے کی چھوٹی چھوٹی باتوں سے خوش ہوتے رہتے ہیں۔ خالق اپنی مخلوق کی چھوٹی چھوٹی باتوں سے خوش ہوتا ہے یہ ایسی باتیں ہیں جن کے پیچھے خلوص نیت اور مطمع نظر صرف اللہ ہو۔ اللہ اپنے ہر بندہ کو ، وہ گناہگار ہویا نیکو کار، رزق عطا فرماتا ہے۔ رزق سے استفادہ کرنے کے لئے صحت عطا کرتا ہے۔ زمین کی بساط پر بکھری ہوئی چیزوں سے فائدہ اٹھانے کے لئے اللہ عقل و شعور کی دولت سے نوازتا ہے ، ہماری ہر طرح حفاظت کرتا ہے اور محبت کے ساتھ ہماری غلطیوں اور کو تاہیوں کو معاف کرتا ہے۔ ہر بند و پر لازم ہے کہ وہ شکر گزار بن کر اللہ کی مخلوق کی خدمت کرے اور اللہ کا دوست بن جائے۔ دل کھول کر ضرورت مندوں کی خدمت کریں۔ خدمت ایک وصف ہے جو اللہ کے لئے سب سے زیادہ پسندیدہ عمل ہے۔ جو لوگ خدمت خلق کرتے ہیں وہ کبھی ناخوش نہیں رہتے۔
نبی کریم ﷺکا ارشاد ہے: “میری مثال اس شخص کی سی ہے جس نے آگ جلائی اور جب اس پاس کا ماحول آگ کی روشنی سے چمک اٹھا۔ کیڑے پنگے اس پر گرنے لگے اور وہ نگوں کو روک رہا ہے لیکن بنتے ہیں کہ اس کی کوشش کا ناکام بنائے دیتے ہیں اور آگ میں تجھے پڑ رہے ہیں (ای طرح) میں تمہیں کمر سے پکڑ پکڑ کر آگ سے روک رہا ہوں اور تم ہو کہ آگ میں گرے پڑرہے ہو ۔
بشکریہ ماہنامہ روحانی ڈائجسٹ جون 2019