۔۔بےحسی کا دامن چھوڑیں۔۔
ہالینڈ(ڈیلی روشنی نیوز انٹرنیشنل )پانی زندگی ہے اور یوں لاپرواہی سے اپنی زندگی کا اور اپنی اگلی نسل کی زندگی کا دائرہ تنگ نہ کریں۔۔
حدیث کا مفہوم ہے کہ اگر چشمے پر بھی پانی استعمال کر رہے ہو تو اسکو ضائع مت کرو۔۔
ہم نے یوں تو ہر حوالے سے اپنے حصے کے وسائل صرف استعمال نہیں کر لئے بلکے اگلی دو نسلوں کا حصہ بھی کھا چکے ہیں۔اس وقت پاکستان پانی کے بحران کا شکار ہونے والے ممالک کی فہرست میں تیسرے نمبر پر ہے ہمارا ضلع خوشاب جسکا نام ہی پانی کی مٹھاس کی وجہ سے پڑا تھا اس کا پانی بھی ناقابل یقین حد تک خراب ہو چکا ہے اگر ہم ڈیم نہیں بنا سکتے تو کچھ نہ کچھ تو کر ہی سکتے ہیں اس نعمت کے تحفظ کے لئے۔۔
پانی انسانی بنیادی ضرورت ہے روزانہ کی بنیاد پر کروڑوں لیٹر پانی ہم استعمال کرتے ہیں اور لاکھوں لیٹر اپنی لاپرواہی کی وجہ سے ضائع کرتے ہیں پانی کے غیر ضروری ضیاع کو اس خیال سے بچانے لگ جائیں کہ آپکی اگلی نسل بوند بوند کو ترسنے سے محفوظ رہے۔ہماری لاپرواہی کا یہ عالم ہے کہ مسجد کی ٹوٹی سے وضو کرتے ہوئے ہم جتنے پانی سے غسل ممکن ہوتا ہے اتنے سے بمشکل وضو کر پاتے ہیں۔سولر آنے کے بعد بلوں کی فکر سے آذاد ہونے پر پانی کے ضیاع میں اضافہ اور بڑھ گیا ہے اسکو کنٹرول کرنا ہو گا گھروں میں جہاں پانی باآسانی میسر ہے وہاں آئے روز فرش دھلائی کرنے اور دیگر صفائی کے کاموں میں پانی کے استعمال میں حد سے ذیادہ لاپرواہی کی جاتی ہے۔گرمیوں میں ہم نے پانی کی سٹوریج کا نظام اتنا ناقص بنایا ہوا ہے کہ دس بجے کے بعد سٹوریج والا پانی ہمارے لئے قابل استعمال نہیں رہتا ہے اور پھر کسی بھی استعمال کے لئے پہلے سے سٹور شدہ پانی ضائع کیا جاتا ہے اور تازہ پانی استعمال کے لئے لیا جاتا ہے۔پانی کا بحران دن بدن اس لاپرواہی کی وجہ سے بڑھتا جا رہا ہے۔ڈیم ہمارے ملک میں نہیں بن رہے ہیں کہ زیر زمین پانی کا لیول برابر رہے دریا ہمارے دن بدن سوکھ رہے ہیں دریا کے کنارے رہنے والے باسی جنکے پہلے پانی کے بور پچاس ساٹھ فٹ گہرائی پر ہو جایا کرتے تھی اب وہی بور ایک سو پچاس ساٹھ فٹ پر ہو رہے ہیں۔اگر ہم حکومت کو ڈیم بنانے پر مجبور نہیں کر سکتے اتنے کمزور ہیں تو کم سے کم جو کچھ ہمارے ہاتھ میں ہے اس پر تو عمل کر سکتے ہیں۔خدارہ اس درخواست کو ہر ذمہ دار شخص کا فرض بنتا ہے کہ ضرور اہمیت دے اور جس حد تک ممکن ہے پانی کے غیر ضروری ضیاع کو روکنے کے اقدامات کرے۔۔۔
وما علینا