ڈاکٹر راجہ اللہ دتہ خان
محبت اور خدمت کا استعارہ
۔۔۔تاریخ کے آئینے میں ۔۔۔
۔۔۔یادرفتگاں۔۔۔
تحریر۔۔۔راجہ فاروق حیدر
ہالینڈ(ڈیلی روشنی نیوز انٹرنیشنل ۔۔۔۔۔۔یادرفتگاں۔۔۔ تحریر۔۔۔راجہ فاروق حیدر)
وہ جو اِک شخص متاعِ دل و جان تھا، نہ رہا
اب بھلا کون میرے درد سنبھالے محسن.
اکتوبرمیں ڈاکٹرراجہ اللہ دتہ خان کو یاد کرنے کا مہینہ ہے۔اسی مہینے وہ ہم سے اٹھاون سال برس پہلے جدا ہوئے تھے. آپ 20 اکتوبر بروز جمعۃ المبارک کو 1967 میں کچھ عرصہ علالت کے بعد اس دار فانی سے سفر اخرت کی طرف روانہ ہو گئے . مولا کریم آپ کی بےحساب مغفرت فرمائے( آمین).آج ہر دل عزیز ڈاکٹر راجہ اللہ دتہ خان کی اٹھاون برسی ہے, ڈنگہ شہر محبتوں کا شہر ہے، بلا تفریق اور غیر مشروط محبت کا شہر ہے,ہمارا شہر ڈنگہ ضلع گجرات ہمارے والدین کے بغیر ہمیں ادھورا لگتا ہے .کبھی کبھی میں سوچتا ہوں کہ والدین کی محبت شفقت اور واقعی ڈنگہ مجھ میں رہتا ہے..
ڈاکٹر راجہ اللہ دتہ خان ایک نام نہیں بلکہ ایک عہد تھے ، ایک روشن سوچ کا استعارہ ,عظیم، بے مثل، بے لوث، محبت و شفقت. خدمت و محبت کا استعارہ تھے اور الفاظ کی حرارت سے دلوں کو منور کرنے والی شخصیت تھے ۔ خوبصورت انسان جو سب کے لیے حساس اور دردبھرا دل رکھتے ہیں۔ ڈاکٹر راجہ اللہ دتہ خان کا شمار ڈنگہ کے انتہائی شاندار اور وضعدار شخصیات میں ہوتا تھا. زراعت سے وابستہ ہمارے آباؤ اجداد برسوں سے ڈنگہ ضلع گجرات میں مقیم ہیں
ہمارے خاندان کا تعلق گکھڑ راجپوت گھرانے سے ہے
میرے والد ڈاکٹر راجہ اللہ دتہ خان نے رائل میڈیکل کالج کلکتہ سے ایم بی بی ایس کی ڈگری حاصل کی تھی اور 1937 میں ایران سے چیف میڈیکل افیسر کی گراں قدر خدمات انجام دینے کے بعد اپنے ابائے شہر ڈنگہ ضلع گجرات میں اباد ہو گئے. ڈنگہ میں اپنی ریٹائرمنٹ کے بعد میڈیکل پریکٹس شروع کی توغریب نادار اور ضرورت مند مریضوں کا علاج فی سبیل اللہ کیا کرتے تھے اور مریضوں کو مفت ادویات بھی دیا کرتے تھے.
ڈاکٹر راجہ اللہ دتہ خان کا شمار ان باسیوں میں ہوتا تھا جن میں ڈنگہ رچا بسا ہوا تھا۔وہ ڈنگہ کے نہ صرف گلی کوچوں سے واقف تھے بلکہ وہاں جنم لینے والے ہرچھوٹے بڑے کے ساتھ ایک خاص تعلق رکھتے تھے. عاجزی, رحم دلی اور انکساری ان کا وطیرہ خاص تھی, احترام, عزت وقار, اچھی سوچ، خوش گفتاری، اخلاق و ملنساری, محبت رواداری ان کی طبیعت کا ایک خاصہ تھی وہ ایک فقیرانہ اوردرویشانہ مزاج رکھتے تھے. معاشرے کے باشعور عناصر کی حیثیت سے اپ نے ہمیشہ اپنی پوری زندگی میں محبت رواداری امن شفقت وخلوص اوربھائی چارگی کی ابیاری کی اور دوسروں کو بھی اس پرعمل پیراہونے کی تلقین کی.
اپ نے سماجی اور سیاسی جدوجہد کے ذریعے ہمیشہ معاشرے میں مثبت اقدامات کو فروغ دیا اور سیاست کو عبادت کا درجہ دیتے تھے. دوسروں پر ہمہ وقت اپنی محبتیں نچھاور کرکے معاشرے کو سنوارتے, انسان دوست ۔ہمدرد شخصیت اور زندگی کے حقیقی مقاصد سے آگاہی دیتے تھے.
اپ ایک طویل عرصے تک بلدیہ ڈنگہ کے چیئرمین اور وائس چیئرمین کے عہدوں پر منتخب ہوتے رہےہیں .ضلعی بلدیاتی قیادت کی بدولت مقامی سطح پر لوگوں کی معیار زندگی کا بہتر بنانے اور مستقبل کی پائیدار ترقی کو فروغ دینے کے لیے اپ نے گراں قدر خدمات سرانجام دی.
ڈاکٹرراجہ اللہ دتہ خان اور اپ کے خاندان نے پاکستان کی ازادی خود مختیاری ترقی اور خوشحالی کی جدوجہد کے لیے ہمیشہ اپنی خدمات پیش کی. 14اگست 1947 کو پاکستان کی ازادی کے موقع پر ڈنگہ ضلع گجرات کی میونسپل کمیٹی کی سرکاری عمارت پر سبز ہلالی پرچم فضا میں بلند کرنے کا اعلی مرتبہ اور مقام حاصل کیا تھا
اپ مذہبی محبت کے پیمانے سے لبریز تھے اور ایک عاشق رسول تھے.ذہبی یگانیت,مذہبی اخلاقی سماجی رواداری کے جذبے سے شرشار اپنے علاقے میں انہوں نے ایک جامعہ مسجد عید گاہ تعمیر کروائی.
خاندان عزیز و اقارب کے لیے محبت و خلوص کا پیکر تھے اور ہمیشہ ان کے کام ایا کرتے تھے. اپ کی خدمات ملنساری اور پیار و محبت کے باعث
حلقہ احباب اور چاہنے والوں کی تعداد بہت وسیع تھی.
اج میں دیارغیر ہالینڈ میں مقیم کبھی کبھی سوچتا ہوں کہ ماں باپ کے رشتے کسی بھی مذہب، تہذیب، خطے اور زبان سے تعلق رکھتے ہوں ماں باپ کا بنیادی اثاثہ وہی ایثار و محبت اور اخلاص و شفقت ہوتا ہے، جو ہر ماں باپ کو رب کریم و رحمن الرحیم کی طرف سے ودیعت کیا گیا ہے۔
باپ کا وجود ایک ایسی نعمت سے تعبیر کیا ہے جس کی موجودگی سب نعمتوں پر بھاری ہوتی ہے. ہاں، یہ سچ ہے۔ میرا یہ پیارا شہر” ڈنگہ” اب بھی میرے دل میں ہے .وہ محبت، وہ کشش باقی اور دل میں پنہا ں ہے.
خدا رحمت کند این عاشقانِ پاک طینت را
ایک حقیقی سچ ماں باپ کا رشتہ انسان کو صرف ایک بار ہی ملتا ہے.
ماں باپ کے بارے میں کہا جاتا ہے وہ کبھی نہیں مرتے بلکہ اس دنیا سے چلئیں بھی جائیں تو دعاؤں، شفقتوں اور محبتوں کی شکل میں ہمارے اردگرد رتے ہیں۔ اپنے والد محترم ڈاکٹر راجہ اللہ دتہ خان کا یہ مشن بطریق احسن پایہ تکمیل تک پہنچانے کیلئے میں اور ہمارا خاندان اج بھی مصروف عمل اور کوشاں ہے, اج میں اپنے والد کے مشن کو شعبہ صحافت اورخدمت خلق کے ذریعے پروان چڑھا رہا ہوں
سچی بات تو یہ ہے کہ اٹھاون سال کا عرصہ گزر جانے کے باوجود میرے ماں باپ میرے خوابوں میں آتے ہیں، وہی پیار بھرا نورانی چہرہ، وہی سادگی، وہی محبتوں کی بارش جو ساری زندگی ہمارا سہارا رہی وہ ہر خواب میں آکر تر و تازہ کر جاتے ہیں
ہم جب بھی اداس پریشان اور دکھی ہوتے ہیں تو ہمیشہ اپنے ماں باپ کو یاد کرتے ہیں. ایسے میں ماں باپ کی یادیں اور دعائیں ہی فانوس بن کے اپنی حفاظت کا حصار قائم رکھتی ہیں
اپنے پیارے خدا رحمن و رحیم اور پیارے حبیب کریم نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی وساطت سے دعا گو ہوں کہ خاندان اور والدین کی طرف سے خلق خدا میں محبتیں بانٹنے کا یہ عمل جاری و ساری رہے۔ (آمین)
ابا تیریاں گلاں ہن میں یاد کراں