غزل
ایک ٹوٹے خواب کی تعبیر سے
لڑ رہے ہیں سب یہاں تقدیر سے
کتنا روشن کتنا پیارا ہو گیا
میرا کمرہ آپ کی تصویر سے
کیسے چھوڑے گا وہ اب زندان کو
پیار جس کو ہو گیا زنجیر سے
صبر میرے دل کو اب تو آ گیا
آپ آئے ہیں بڑی تاخیر سے
پھر پلٹ کر کس نے دیکھا باپ کو
جن کو حصہ مل گیا جاگیر سے
لفظ میرے چاند تارے بن گئے
روشنی پھوٹی مری تحریر سے
آؤ مل کر بات کر لیتے ہیں ہم
فیصلہ کیونکر کریں شمشیر سے
آ ہی جاتی ہے مرے اشعار میں
ایک نسبت ہے جو عنبر میر سے
![]()

