Daily Roshni News

۔۔۔۔۔ سوتن کی جلن ۔۔۔۔۔

۔۔۔۔۔ سوتن کی جلن ۔۔۔۔۔

ہالینڈ(ڈیلی روشنی نیوز انٹرنیشنل )جب میری شادی ظفر سے ہوئی تو میری نند کا نکاح میرے بھائی نوشیرواں سے کر دیا گیا تھا۔ رخصتی دو سال بعد ہونی تھی کیونکہ نوشیرواں ابھی پڑھ رہے تھے۔ والد صاحب اور ماموں ہمیشہ سے گاؤں میں رہے تھے۔ وجہ یہ تھی کہ دونوں کی زمین مشترک تھی البتہ والد صاحب کی دو بسیں اور ایک پیٹرول پمپ بھی تھا، جو والد صاحب کے ایک رشتہ دار کی نگرانی میں چلتا تھا۔

نوشیرواں بھائی چونکہ پڑھائی کے سلسلے میں لاہور میں ہی رہتے تھے، اس لئے پیٹرول پمپ کی آمدنی وہی سنبھالتے تھے۔ یہ کہنا سچ ہوگا کہ وہ اس آمدنی کے مالک بنے ہوئے تھے۔ والد صاحب نے ان کو کہہ رکھا تھا کہ تم مناسب خرچہ لے لیا کرو اور باقی رقم بینک میں جمع کر دیا کر۔ بابا جان کو پیسے کی پروانہ تھی۔ سوچا تھا کہ بیٹا کاروبار میں دلچسپی لے گا تو کچھ تجربہ حاصل کرلے گا۔ ان دنوں میرے بھائی کی عمر بیس برس تھی۔ بابا جان سمجھ رہے تھے کہ کشمالہ جیسی اچھی لڑکی سے نوشیرواں کا نکاح کر کے انہوں نے گویا بیٹے کو کھونٹے سے باندھ دیا ہے اور اب اس کے کہیں جانے کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔ کشمالہ خوبصورت تھی، بھائی کو پسند بھی تھی تبھی تو نکاح کر لیا تھا۔ میری اس ماموں زاد میں بلاشبہ کوئی کمی نہ تھی، البتہ وہ شروع سے گاؤں میں رہی تھی، اس لیئے شہری لڑکیوں جیسی ہوشیار نہ تھی، تاہم خوشحال گھرانے سے تعلق کے سبب پہننے اوڑھنے کا سلیقہ اور رکھ رکھاؤ ایسا تھا کہ پڑھی لکھی لڑکیوں سے زیادہ اچھی لگتی تھی۔ میٹرک پاس تھی۔ کالج نہ پڑھ سکی کہ ہمارے گاؤں میں کالج تھا ہی نہیں۔

بابا جان نے گلبرگ کے علاقے میں بنگلہ بنوا کر بھائی کے سپرد کر دیا تھا۔ کچھ دنوں بعد انہوں نے بابا جان کو بتایا کہ بنگلہ کرایے پر دے دیا ہے کیونکہ کالج سے دور پڑتا تھا اور اتنے بڑے بنگلے میں اکیلے کیسے رہتے ؟ لہذا کالج کے پاس ہی ایک کمرے کا مکان لے لیا ہے۔ بابا جان نے یہ معاملہ بیٹے پر چھوڑ دیا اور خود تحقیق کرنے نہ گئے ۔ اس دوران ایک لڑکی عنبرین سے بھائی کی ملاقات ہو گئی ۔ یہ لڑکی بھائی کے پڑوسی کے بچوں کو ٹیوشن پڑھانے آتی تھی۔ وہ ایک غریب فیملی سے تھی۔ اس کے والد تقسیم کے وقت نئے وطن کی طرف آتے ہوئے شہید ہو گئے تھے، بیوہ ماں اور ایک چھوٹا بھائی تھا۔ ان لوگوں نے بچپن سے مفلسی کے دکھ دیکھے تھے۔ میرے بھائی نوشیرواں ایک رحم دل انسان تھے۔

 ایک روز وہ کالج سے لوٹ رہے تھے کہ، عنبرین کو دیکھا جو تیز تیز قدموں سے تقریبا بھاگی جارہی تھی۔ اس کے پیچھے دو بدمعاش آرہے تھے، جو اس کے تعاقب میں تھے۔ یہ دیکھ کر بھائی نے عنبرین کے پاس گاڑی روک دی۔ وہ جانتے تھے کہ یہ لڑکی اس وقت پڑوسی کے بچوں کو ٹیوشن پڑھانے آتی ہے۔ انہوں نے پوچھا۔ کیا بات ہے؟ کیوں گھبرائی ہوئی ہو؟ اتنے میں وہ لڑ کے نزدیک آگئے تو بھائی نے عنبرین سے کہا۔ تم گاڑی میں بیٹھوں میں ان سے نمٹ لوں ۔ جو نہی نوشیرواں ان کے قریب گئے، وہ بھاگ کھڑے ہوئے۔ بھائی کی رہائش تھوڑی دور ہی تھی ، وہ عنبرین سے بولے کہ تم گاڑی میں بیٹھی رہو، میں تم کو گلزار صاحب کے گھر پر اُتار دوں گا۔ پانچ منٹ کی مسافت پر گھر تھا، وہاں پہنچے تو دیکھا کہ دروازے پر تالا لگا ہوا ہے۔ وہ پریشان ہو کر بھائی کو دیکھنے لگی۔ نوشیرواں نے کہا۔ کوئی بات نہیں گلزار صاحب والوں کو ایمر جنسی میں جانا پڑا ہوگا۔ تم ڈرو نہیں، میں تمہیں، تمہارے گھر ڈراپ کر دیتا ہوں۔ وہ دوبارہ گاڑی میں بیٹھ گئی۔ (کہانی کی مکمل قسط ویب سائٹ پراپلوڈ کر دی ہے۔ کمنٹ میں دیا ہوا لنک اوپن کر لیا کریں۔ شکریہ)

https://sublimegate.blogspot.com/2024/11/meri-soken.html

.

.

.

.

.

.

.

.

.

.

.

.

#urduline #urdushayari #urdupoetry #quotes #kahani #kahaniyan #stories #urduquotes #Qissa #quoteoftheday #urduadab #urdu #everyonefollowers

Loading