۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ غزل ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
شاعر ۔۔۔۔۔۔۔ ناصر نظامی ( گولڈ میڈلسٹ )
اک دھڑکا سا رہتا ہے، تو پھر نہ، بدل جائے
پھر تیر ستم کوئی، اس دل پہ نہ، چل جائے
کیا بے حسی ہوتی ہے ، کیا دل لگی ہوتی ہے
ذرا ساتھ چلو ان کے، پتا تم کو ، چل جائے
یوں دل کو مسلتے ہیں ، یوں آ نکھ بدلتے ہیں
جیسے آ نکھ جھپکتے ہی ، یہ سایہ ، ڈھل جانے
آ نکھوں کے سمندر کی، ٹھہری ہوئی خاموشی
ترے، غم کی ٹھوکر سے کہیں پھر نہ، ا چھل جانے
پہلے تو، جلے تیری شاخوں کے، پرندے ہی
اس بار درخت دل، تو خود ہی نہ، جل جائے
آ زاد پرندوں کی رکتی نہیں پروازیں
دم، گھنٹے سے۔ بہتر ہے، دم اڑ کے، نکل جائے
سچ، جھوٹ کی سیاہی کو ایسے کھا جاتا ہے
چھوٹا سا دیا جیسے، ظلمت کو، نگل جائے
تب ہوتا ہے حق ادا، تکمیل محبت کا
محبوب کی صورت میں، جو یہ صورت ، ڈھل جانے
رو لیتا ہے، دریا تو گلے مل کے سمندر کے
دل، رو رو ، سمندر کا، بس خود ہی، سنھبل جائے
کب اتنی خوشی ناصر ، ہے راس تیرے دل کو
خوش دیکھ کے، پھر تجھ کو تقدیر نہ، جل جائے
ناصر نظامی گولڈ میڈلسٹ
ایمسٹرڈیم ہالینڈ
![]()

