۔۔۔۔ تازہ غزل۔۔۔
شاعر۔۔۔ شہزاد تابشِ
ہر کسی کے واسطے جو صورت چھتنار ہیں
میری جاں کے واسطے وہ باعثِ آزار ہیں
جو بدن پر گھاؤ ہیں وہ ایک دن بھر جائیں گے
یہ بتاؤ روح پر بھی کتنے گہرے وار ہیں
نہ ہی چاہت میں کمی ہے نہ ہی دشمن گردشیں
ہم تو اپنے راستے کی آپ ہی دیوار ہیں
گھٹ رہا تھا مدتوں سے دم زمیں پر دوستو
اب خلا کی وسعتوں کا ہم بھی اک کردار ہیں
اس لیے بھی میں نے دامن تہمتوں سے بھر لیا
سولیوں پر چڑھ گئے جو صاحب کردار ہیں
جن کی شیریں گفتگو ہے ہر کسی کے واسطے
وہ فقط میرے لیے ہی خنجر و تلوار ہیں
اک عجب ہے یہ تماشہ بے بصارت شہر میں
آئنے کے ہر جگہ پر اچھے کاروبار ہیں
اس فضا میں بلبل و کوئل کے نغمے ہی نہیں
ہیں یہاں شاہین بھی جو کرگسوں کے یار ہیں
اس قدر پرواز ہے شہزاد میرے عزم میں
پیر ہیں میرے زمیں پر سامنے سیار ییں