Daily Roshni News

۔۔۔ عقلمند فقیر ۔۔۔۔۔۔۔۔۔انتخاب ۔۔۔۔۔ میاں عمران

۔۔۔۔۔۔۔۔۔ عقلمند فقیر ۔۔۔۔۔۔۔۔۔

انتخاب ۔۔۔۔۔ میاں عمران

ہالینڈ(ڈیلی روشنی نیوز انٹرنیشنل ۔۔۔ انتخاب ۔۔۔۔۔ میاں عمران)ضلع پشاور کے دو شراکت دار اس غرض سے کابل گئے تاکہ وہاں گوشت کی تجارت کریں۔ قلیل عرصے میں انہوں نے دو تین ہزار روپیہ کما لیا اور اپنے وطن آنے کا ارادہ کیا۔ دونوں شراکت دار اپنے منافع کی رقم ساتھ لے کر وطن کی طرف چل پڑے۔ جلال آباد کے قریب پہنچ کر انہوں نے ایک نابینا گداگر کو دیکھا، جو راستے کے کنارے ایک بڑے درخت کے نیچے یہ صدا لگا رہا تھا:

“افسوس! گردشِ دوراں نے سب کچھ چھین لیا، حتیٰ کہ آنکھوں کی بینائی بھی چھین لی۔ کیا ہی اچھا ہو اگر پھر ایک مرتبہ تھیلی پر روپیہ رکھنے کا موقع میسر آ جائے!”

بار بار وہ گداگر یہی جملے دہراتا تھا۔ دونوں شراکت دار اس کے قریب پہنچ گئے اور گداگر سے دریافت کیا:

“بھائی! تم زمانے کی گردش سے نالاں کیوں ہو؟”

نابینا گداگر نے کہا:

“میں اس علاقے میں ممتاز شخصیت کا مالک تھا۔ میری بہت سی جائیداد تھی، لیکن قسمت نے پلٹا کھایا اور میری آنکھوں کی بینائی جاتی رہی۔ مجھے اس بات کا بہت شوق ہے کہ اس مفلسی میں، اگر اپنا نہیں تو دوسرے کا کمایا ہوا نقد روپیہ ان ہاتھوں میں ایک لمحے کے لیے رکھ کر اپنے دل کو تسکین دوں۔”

یہ تھا وہ ماجرا جو گداگر نے انہیں سنایا۔

انہوں نے مناسب سمجھا کہ یہ ایک نابینا گداگر ہے، جائے گا کہاں؟ اپنے روپوں کی تھیلی اسے ایک لمحے کے لیے دینے میں کیا حرج ہے! اگر اس کے دل میں یہی خواہش ہے تو وہ بھی پوری ہو جائے۔ ایک نے روپوں کی تھیلی اس کے ہاتھ میں دیتے ہوئے کہا:

“لو بھائی فقیر! اپنی تمنا پوری کر لو۔”

گداگر نے تھیلی لیتے ہوئے ان کا شکریہ ادا کیا۔ تھوڑی دیر بعد ان میں سے ایک نے کہا:

“بھائی گداگر! اب ہمیں ہماری روپوں کی تھیلی واپس کر دو۔”

لیکن گداگر نے کمال سنجیدگی سے جواب دیا:

“تھیلی؟ کیسی تھیلی؟ واپس کیسے؟ یہ کیا بات ہے؟”

دوسرے ساتھی نے گداگر سے کہا:

“مذاق مت کرو، تھیلی جلدی واپس کر دو، ہمیں دیر ہو رہی ہے۔”

مگر گداگر نے تھیلی واپس کرنے سے انکار کر دیا۔ شراکت دار حیران رہ گئے اور مصیبت میں پھنس گئے۔

گداگر نے کہا:

“میں نے تمام عمر یہاں بیٹھے بیٹھے گزاری ہے، پیسہ پیسہ جوڑا ہے۔ تم کہاں سے بدبخت ڈاکو یہاں پہنچ گئے، جو میری ساری عمر کی کمائی اتنی آسانی سے چھین لینا چاہتے ہو؟”

شراکت داروں نے جب گداگر کے یہ الفاظ سنے تو حواس باختہ ہو گئے۔ گداگر اٹھ کر چلنے لگا تو دونوں نے زبردستی اپنی تھیلی اس سے چھیننے کی کوشش کی، لیکن گداگر نے زور زور سے چلانا شروع کر دیا:

“ڈاکو! ڈاکو! کوئی مدد کو پہنچے!”

پاس ہی ایک نہر بہہ رہی تھی۔ وہاں کے لوگ جائے وقوعہ پر پہنچ گئے اور دونوں شراکت داروں کو ڈاکو سمجھ کر گرفتار کر لیا۔ دونوں نے بہت کوشش کی کہ دیہاتی ان کی بات کا یقین کر لیں، لیکن بے سود! بستی کے لوگوں نے یہ تجویز منظور کی کہ ان “ڈاکوؤں” کو بادشاہ کے دربار میں حاضر کریں اور ان کی گرفتاری کے صلے میں انعام حاصل کریں۔

چنانچہ دونوں کو بمعہ گداگر بادشاہ کے دربار میں پیش کیا گیا۔

امیر عبدالرحمان عدالت کی کرسی پر متمکن تھے۔ درباری حاضر تھے۔ بادشاہ نے پہلے گداگر کا بیان سنا، پھر ملزموں کی داستانِ مظلومی سنی اور پھر حکم دیا:

“ایک کڑاہی لے آؤ اور اس میں پانی ڈال کر خوب گرم کرو!”

یہ سنتے ہی دونوں شراکت دار سہم گئے اور اپنی دردناک موت کا تصور کرنے لگے۔ ان کی آنکھوں میں اندھیرا چھا گیا۔ کڑاہی لائی گئی، اس میں پانی ڈال کر خوب گرم کیا گیا اور بادشاہ کے حکم کا انتظار ہونے لگا۔ بادشاہ غضبناک ہو کر بولے:

“لاؤ وہ روپوں کی تھیلی، اور اسے کڑاہی کے پانی میں ڈال دو!”

فوراً تعمیل ہوئی۔ بادشاہ نے پھر کہا:

“کڑاہی سے سب دور ہٹ جاؤ!”

چنانچہ سب پیچھے ہٹ گئے۔ بادشاہ خود آگے بڑھے، گرم پانی کی سطح پر غور سے دیکھا اور پھر واپس آ گئے۔ حکم ہوا:

“کڑاہی کا پانی گرا کر روپے شراکت داروں کے حوالے کر دیے جائیں!”

جو تھوڑی دیر قبل اپنی موت کا انتظار کر رہے تھے، اب خوشی سے پھولے نہ سما رہے تھے۔

بادشاہ نے فرمایا:

“نابینا گداگر کو مناسب سزا دی جائے!”

لوگوں میں چہ مگوئیاں شروع ہو گئیں۔ قاضی نے جرات کرتے ہوئے فیصلہ کی تفصیل سننے کی خواہش ظاہر کی۔

بادشاہ نے فرمایا:

“جن دو شخصیتوں کو ملزم ٹھہرایا گیا تھا، درحقیقت وہ بالکل بے گناہ تھے۔ انہوں نے گوشت فروخت کر کے روپیہ جمع کیا تھا، کیونکہ گرم پانی کی سطح پر چربی کے تیرتے ہوئے ذرات ظاہر ہوئے، جس سے یہ ثابت ہوا کہ یہ گوشت فروشوں کے ہاتھ کا میل تھا، جو گوشت کی چربی کی وجہ سے ان کے ہاتھوں پر لگا تھا اور وہی روپوں کو بھی لگ گیا تھا۔ تجربہ کیا گیا، جو صحیح نکلا!”

بادشاہ کے اس فیصلے سے حاضرینِ دربار بے حد خوش ہوئے۔

Loading