Daily Roshni News

۔67 کروڑ۔۔۔۔۔ ؟ تحریر۔۔۔۔۔۔ شاہد احمد

67 کروڑ۔۔۔۔۔ ؟

تحریر۔۔۔۔۔۔ شاہد احمد

بشکریہ ماہنامہ قلندر شعور ستمبر2019

ہالینڈ(ڈیلی روشنی  نیوز انٹرنیشنل ۔۔۔67 کروڑ۔۔۔۔۔ ؟ تحریر۔۔۔۔۔۔ شاہد احمد)

غشاوہ عربی میں ایسی دھند کو کہتے ہیں جو اپنے پیچھے موجود منظر کو غیر موجود ظاہر کرے۔غشاوہ کی حالت میں وہ خلیے جو لاشعور سے اطلاعات وصول کرنے کی اہلیت رکھتے ہیں ، مردہ ہو جاتے ہیں۔

وجود میں موجود تقاضے متوجہ کرتے ہیں کہ متعلقہ وسائل کی ضرورت ہے۔ بھوک، پیاس، میل ملاپ سب تقاضے ہیں جن کے حصول کے لئے آدمی ساری زندگی شعوری طور پر کوشاں رہتا ہے۔ خلا کی تسخیر ، فلک بوس عمارتیں، جدید تحقیقی آلات اور گھریلو استعمال کی اشیا بلاشبہ ترقی کا ثبوت ہیں لیکن مادی شعور ترقی کے باوجود عدم تحفظ کا شکار ہے اور آرام و آسائش کے حصول کے لئے خوف اور اندیشوں کی تحریک پیدا کر کے مستقبل کو محفوظ کرنے کی تکرار کرتا ہے۔ عدم تحفظ کی وجہ یہ ہے کہ وہ جس نظر سے خود کو اور دنیا کو دیکھ رہا ہے، اس نظر میں تغیر ہے ۔ جب دنیا اسے بدلتی ہوئی نظر آتی ہے تو وہ اس عمل کو اپنی نظر کے بجائے دنیا پر گمان کرتا ہے ۔ جب آدمی چیزوں کو بدلتا ہوار دیکھتا ہے تو خوف پیدا ہوتا ہے کہ چیزوں کی طرح حالات بھی بدلیں گے لہذا وہ ہر وقت خود کو محفوظ کرنے کی کوشش میں رہتا ہے۔

غور کریں ۔ شعور ایسا وجود ہے جسے زندہ رہنے کےلئے وسائل فرد کی مرضی و منشا کے بغیر مہیا ہوتے ہیں۔ مثلاً نظام تنفس کے تحت سانس لینے کے عمل پر توجہ کی جائے تو عام آدمی روزانہ ایک منٹ میں 16 دفعہ ایک گھنٹے میں 960 اور ایک دن میں 23 ہزار 40 مرتبہ سانس لیتا ہے۔ اگر عمر 80 سال ہے تو اس حساب سے فرد اپنی پوری عمر میں اوسطاً سڑسٹھ کروڑ ستائیس لاکھ اڑسٹھ ہزار (672,768,000) سانس لیتا ہے۔ سانس لینا ارادی عمل نہیں ہے۔ ارادہ سے سانس لینے کا تجربہ کریں تو ہم بمشکل 24 سانسیں لینے کے بعد تھک جائیں گے ۔ نظام ہضم سے لے کر جگر گردوں اور پھیپھڑوں کا نظام ہماری کوشش کے بغیر جاری ہے۔ جسمانی مشینری اپنے افعال ہرگز شعور کے تحت انجام نہیں دیتی۔ پابندی کا یہ عالم ہے کہ ہمارے پاس جسم کو تحریک دینے والی ایجنسی کو نام دینے کے لئے بھی الفاظ نہیں اس لئے ہم اسے لاشعور کہتے ہیں۔ لاشعور کا مطلب ہے کوئی شعور نہیں ۔ عربی میں شے کی نفی کے لئے لفظ لا استعمال ہوتاہے۔ شعور کی نفی کے تحت صادر ہونے والے اعمال کو لاشعور کا نام دیا گیا۔ لامحدود اور لاشعور میں مشترک عصر یہ ہے کہ محدود اور شعور کی جس وسعت سے ہم واقف نہیں ، لا محدود اور لاشعور کہہ دیتے ہیں۔ قارئین ! اس نقطہ پر غور کیجئے۔

ایک امریکی ماہر حیاتیات کے مطابق ہمارا لاشعور خود کار سپر کمپیوٹر کی طرح کام کرتا ہے ۔ یہ ایک سیکنڈ میں 40 ملین Bits کی حد تک معلومات پروسیس کرتا ہے اور ہمارے 95 فی صد معاملات کو کنٹرول کرتا ہے۔ یہ اعداد و شمار مادی ذہن کی تحقیق کا نتیجہ ہیں اس لئے حتمی نہیں ، کیوں کہ پوری زندگی لاشعور کے تابع ہے۔ سمجھنے کے لئے اگر ہم اس تحقیق کے مطابق بات آگے بڑھا ئیں تو یہ کہنا بے جا نہیں ہے کہ مادی تحقیق اس نتیجہ پر پہنچ چکی ہے کہ ہماری 95 فی صد زندگی شعوری کوشش اور اختیار و ارادہ کے بغیر گزر رہی ہے جب کہ ایسا نہیں ہے۔

 الہامی کتابیں راہ نمائی کرتی ہیں کہ شعور کو اپنی تمام سے تر کار کردگی کے لئے اطلاعات لاشعور سے ملتی ہیں۔

مخلوقات مظاہر کو کیسے دیکھتی ہیں، اس کی اطلاع لا شعور شعور کو فراہم کرتا ہے۔ مثلاً ہر نوع گلاب کو گلاب اس لئے دیکھتی ہے کہ شعور کو گلاب کی اطلاع دینے والی آہ ایجنسی لاشعور کا سورس آف انفارمیشن ایک ہے۔

ہم لاشعور کی راہ نمائی میں شے سے متعلق اطلاعات وصول کرتے ہیں اور ایجادات کرتے ہیں ۔ اللہ نور السموات والارض کے تحت کائنات کا ہر مظہر اپنے ہونے کا احساس اور دیگر مظاہر کا ریکارڈ رکھتا ہے اور یہ معلومات ایک دوسرے کو منتقل کرتا ہے۔ مخلوق ان معلومات کو ذہنی سکت کے مطابق قبول کرتی ہے۔ مثلا گلاب اپنی معلومات زمین پر موجود تمام مخلوقات کو یکساں طور پر فراہم کرتا ہے۔ جواب میں کوئی گلاب کو گلابی دیکھتا ہے جب کہ بعض مخلوقات کو گلاب دیگر رنگوں میں نظر آتا ہے۔

گلاب کی پتیوں پر الٹراوائلٹ پرت ہوتی ہے جو محمد ود شعور سے نظر نہیں آتی۔ آدمی کا شعور الٹرا وائلٹ شعاعوں کو نہیں دیکھتا اور اپنے دیکھنے کو گلابی رنگ کہتا ہے۔ نکتہ یہ ہے کہ لاشعور میں موجود گلاب محدود شعور سے نظر آنے والے گلاب سے مختلف ہے۔ آدمی اور دیگر مخلوقات کو ایک ہی اطلاع فراہم کی گئی۔ حشرات کی نگاہ الٹرا وائلٹ رنگوں پر چلی جاتی ہے جب کہ آدمی سکت و استعداد کے تحت گلاب کو نہیں ، محدود شعور کے دیکھنے کو دیکھتا ہے۔ ہم 95 فی صد اطلاعات کو نظر اندازکر کے پانچ فی صد محدود شعور کو اہمیت دیتے ہیں۔

جسمانی تقاضوں پر غور کریں تو ایک طرز یہ ہے کہ آدمی کو بھوک لگی اور اس نے کھانا کھایا۔ جب کہ دوسرا انداز فکر بتاتا ہے کہ آدم نے معدہ اور آنتوں میں۔۔۔۔جاری ہے۔

Loading