ارتعاش اور ارتعاش میں ہیجان محسوس کیا ۔ لاشعور نے نیا ذہن کو انسپائر کیا کہ ہیجان کو سکون غذا سے میسر آئے گا جسے ہم بھوک کہتے ہیں۔ یہ بھی بتایا کہ بھوک کی تسکین کے لئے وسائل موجود ہیں۔ فرد نے دستیاب شے کھا کر میں تقاضے کی تسکین کی ۔ شعور نے ذہن پر نقوش درج کر لئے کہ مادی وجود کھائے پئے بغیر زندہ نہیں رہ سکتا لہذا کھانے پینے کو اہمیت حاصل ہو گئی ۔ شعور اس اطلاع کی ج مستقل تکرار جاری رکھتا ہے کہ بھوک دور کرنے کے لئے کھانا کھانا ضروری ہے۔
مشاہدہ ہے کہ کھانا وقت پر نہ ملے تو ہم کہتے ہیں کہ بھوک مرگئی ۔ مگر عجیب بات ہے کہ معدہ کو غذا نہیں پہنچی اور طبیعت پھر بھی مطمئن ہے۔ کچھ لوگ کئی کئی دن بغیر غذا کے زندگی گزارتے ہیں۔ وجہ یہ نہیں کہ مادی وجود کھائے پئے بغیر زندہ رہ سکتا ہے بلکہ وجہ یہ ہے کہ اس دوران جسم میں پہلے سے ذخیرہ شدہ تو نائی ان کی غذا افتی ہے۔ بظاہر وہ کچھ نہیں کھارہے لیکن باطن ایسا نہیں ہے۔ صرف اللہ تعالیٰ کی ذات احتیاج سے پاک ہے۔ اللہ کھاتا ہے نہ پیتا ہے۔ اسے نیند آتی ہے اور نہ اونگھ! !
شعور تکرار کے ذریعے ذہن میں خوف اور غم پیدا کرتا ہے۔ جب ہم رحم مادر میں تھے تو شعوری کوشش کے بغیر بھی ہمیں غذا فراہم ہورہی تھی۔ پیدائش کے ابتدائی چند سالوں میں ہم نے بے نیازی کے ساتھ زندگی گزاری۔ لیکن جیسے ہی شعور کی حد کو پہنچتے ہیں تو بےنیازی فکر مندی میں تبدیل ہو جاتی ہے۔ شعور ایک وجود رکھتا ہے اور خود کو نمایاں کرنے کے لئے بار بار تکرار کرتا ہے۔ شعور میں وسعت بھی ہے اور محدودیت بھی۔ انحصار طرز زندگی پر ہے۔
آدمی ہو یا انسان دونوں شعور کے تحت زندگی گزارتے ہیں۔ انسان کا شعور ہو بہو لا شعور کا عکس ہے جب کہ آدمی نے اپنے شعور پر محدودیت کی مہر لگادی ہے۔ مثال کے طور پر ایک کام کا نتیجہ حق میں اور دوسرے کا مرضی کے مطابق نہیں آیا۔ اب آدمی پہلے نتیجہ کو بھول کر مایوس ہوتا ہے کہ دوسرا کام کیوں نہیں ہوا؟ چند ہفتے ، مہینے یا پھر سال آزردگی میں گزر جاتے ہیں۔ اس عرصہ میں اس فرد پر نا امیدی کی انیس غالب رہتی ہے۔ پھر ایک روز جس شے کی خواہش تھی اس کے نقائص سامنے آتے ہیں اور فرد کہتا ہے کہ شکر ہے کہ جو میں چاہ رہا تھا وہ ہوا نہیں ، میں بچ گیا۔ محمد ود شعور یہ نہیں سوچتا کہ جو کام نہیں ہورہا اس کے پیچھے کوئی وجہ ہوسکتی ہے۔ اس طرح اپنے معنی پہنانے اور اپنی مرضی کو اولیت دینے سے محدودیت کی مہر لگ جاتی ہے۔ محدود ذہن لاشعور کے راستہ میں مزاحم ہو کر نا خود کو نقصان پہنچاتا ہے اور یہ مزاحمت لاشعور اور شعور کے درمیان پردہ بن جاتی ہے۔ اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم میں اس پر دہ کو منشادہ فرمایا ہے۔
غشاوه عربی میں ایسی دھند کو کہتے ہیں جو اپنے پیچھے موجود منظر کو غیر موجود ظاہر کرے۔ غشاوہ کی حالت میں وہ خلیے جو لاشعور سے اطلاعات وصول کرنے کی اہلیت رکھتے ہیں ، مردہ ہو جاتے ہیں۔ ارشاد باری ہے، اللہ نے ان کے دلوں اور ان کے کانوں پر مہر لگا دی ہے اور ان کی آنکھوں پر پردہ پڑ گیا ہے۔ (البقرۃ: ۷) ان پردوں کے باعث حقیقت ہمارے لئے غیب اسے بن جاتی ہے۔
کہتے ہیں کہ ہم 10 کلو میٹر سے دور نہیں دیکھ سکتے لیکن سورج جو کروڑوں میل دور ہے اسے دیکھ رہے ہیں۔ بغیر کسی تحقیق کے اس استدلال کو مان لیتے ہیں اگر کہ سورج چوں کہ حجم ( سائز میں بڑا ہے، اس لئے جو ہم دیکھ لیتے ہیں۔ کیا ہم سورج کو ویسے ہی دیکھ رہے ہیں جیسے وہ ہے ۔؟ مادی علوم سورج کو سرخ گولا سمجھتے ہیں جب کہ روحانی ماہرین کا کہنا ہے کہ سورج توے کی مانند سیاہ ہے۔
رنگ دیکھنے کا قانون یہ ہے کہ جب درخت پر لگے ہوئے سیب پر سورج کے ذریعے آنے والی روشنی پڑتی ہے تو سورج منشوری نظام کے تحت سیب کو تمام رنگ کی روشنیاں فراہم کرتا ہے۔ سیب اپنی عمر کی مناسبت سے رنگوں کو ظاہر کرتا ہے۔ پہلے ہرا پھر پیلا پھر سرخ اور آخر میں گہرا چاکلیٹی رنگ ہو جاتا ہے۔
محدود شعور بھی مخلوق ہے۔ اس وجود اختیار کرنے سے فرد اس کی صفات کے مطابق چیزوں کو دیکھتا ہے۔ محدود شعور جو رنگ ہمیں دکھانا چاہتا ہے، اس شے کے اندر موجود دیگر رنگوں کو مغلوب کر دیتا ہے یا اطراف میں اس کے متضاد رنگ غالب کر دیتا ہے۔ فرض کریں اگر ہمیں سیاہ یا سرخ رنگ کا باکس تیار کرنا ہو تو ہمارے پاس با کس کو سیاہ یا سرخ دکھانے کا ایک طریقہ یہ ہے کہ ہم باکس کے اطراف کو سفید رنگ سے روشن کر دیں۔ اس سے باکس پر سیاہ رنگ یا کوئی بھی رنگ نمایاں ہو جائے گا۔
شعور زندگی کے مراحل کس طرح طے کرتا ہے اور اگر یہ محدود ہو جائے تو کیا نتیجہ سامنے آتا ہے، اس حوالہ سے تحریر پڑھئے ۔
شعور میں داخل ہونے سے پہلے کوئی انسان باپ کی شفقت اور ماں کی مامتا سے واقف نہیں ہوتا۔ شعوری دبستان میں قدم رکھتے ہی انسان کے اندرنیا جوش اور نئے دلولے پیدا ہوتے ہیں۔ وہ اپنے اندر تخلیقی صلاحیتوں کی طرف متوجہ ہو جاتا ہے۔ اور یہ تخلیقی صلاحیتیں اسے بالآخر ایسے نقطہ پر لے آتی ہیں جس نقطہ کا آغاز ہی نئی نئی تخلیقات سے ہوتا ہے ۔ کوئی بندہ جب اس نقطہ میں داخل ہوتا ہے تو اس کے اندر باپ کی شفقت اور ماں کی مامتا کے سوتے پھوٹنے لگتے ہیں۔ نتیجہ میں بالکل اپنے جیسی جیتی جاگتی تصویر بنا لیتا ہے۔ یہ تصویر بھی انسانی مشین کا کل پرزہ ہے اور اس پرزے کی فیڈنگ کے لئے ایک آٹومیٹک نظام جاری و ساری ہے۔ آدم زاد اس تصویر کو زندہ اور متحرک رکھنے کے لئے وسائل تلاش کرتا ہے اور وسائل کی تلاش میں اتنا آگے بڑھ جاتا ہے کہ اس سے خود آگا ہی منحرف ہو جاتی ہے۔ تصویر کو اللہ تعالیٰ نے اولا د اور وسائل کو اموال کہا ہے۔ اللہ تعالیٰ کے فرمان کے مطابق مال اور اولا د انسان کے لئے فتنہ ہیں۔ اللہ تعالی نے مال اور اولاد کو فتنہ فرمایا ہے۔ اور بندہ اپنی پوری توانائیوں کے ساتھ ، اپنی پوری صلاحیتوں کے ساتھ ، اپنی پوری دانائی کے ساتھ اس فتنہ سے قریب ہو رہا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے مال اور اولاد کو فتنہ کیوں کہا؟ یا درکھئے ! ہر وہ چیز جو عارضی ہے، حقیقت نہیں ہوتی اور جو چیز حقیقی نہیں وہ حق سے قربت حاصل نہیں کر سکتی۔ مال ہو یا اولاد یہ سب عارضی اور غیر حقیقی تصویریں ہیں۔ بندہ جب ان عارضی اور غیر حقیقی تصویروں کو اپنی زندگی کا مقصد بنا لیتا ہے تو یہ سب اس کے لئے مصیبت اور فتنہ بن جاتی ہیں ۔ “ ( کتاب : آواز دوست )
محدود زندگی میں جتنا لا محدودیت کا تذکرہ ہوگا، ذہن میں وسعت پیدا ہوتی جائے گی۔ جب بچہ اسکول نہیں جاتا تو اس کے الفاظ کا ذخیرہ اسکول جانے والے بچے سے کم ہوتا ہے۔ بات ماحول کی ہے۔ مادی شعور میں رہنے والے کا ذہن محدود اور مادیت سے ماورا زندگی سے واقف ہونے والے ماحول میں شعور بھی مادیت سے ماورا ہوتا ہے۔ غور طلب ہے کہ وہ کون سی شے ہے جو اس دوران ایک مرحلہ سے دوسرے مرحلہ میں داخل ہو رہی ہے۔؟ وہ شعور ہے۔