8 مارچ یوم نسواں
تحریر۔۔۔حمیراعلیم
ہالینڈ(ڈیلی روشنی نیوز انٹرنیشنل۔۔۔ 8 مارچ یوم نسواں۔۔۔ تحریر۔۔۔حمیراعلیم )آج میرا برتھ ڈے ہے جسے ساری دنیا کی خواتین مناتی ہیں۔جی ہاں کیونکہ آج آٹھ مارچ ہے جسے دنیا یوم خواتین کے نام سے جانتی ہے۔
اس دن کا آغاز 1908 میں نیویارک شہر سے ہوا جب 15000 خواتین نے کام کے کم اوقات، بہتر تنخواہوں اور ووٹ کے حق کے لیے مارچ کیا۔ ایک سال کے بعد سوشلسٹ پارٹی آف امریکہ نے پہلا قومی یومِ نسواں منایا۔ اسے بین الاقوامی بنانے کا خیال سب سے پہلے کلارا زیٹکن نامی خاتون کے ذہن میں آیا جو کہ ایک کمیونسٹ اور خواتین کے حقوق کی کارکن تھیں۔انھوں نے 1910 میں کوپن ہیگن میں انٹرنیشنل کانفرنس آف ورکنگ ویمن میں یہ خیال پیش کیا۔ وہاں 17 ممالک سے 100 خواتین موجود تھیں جنھوں نے متفقہ طور پر اس کی تائید کی۔
یہ پہلی مرتبہ آسٹریا، ڈنمارک، جرمنی اور سوئٹزرلینڈ میں 1911 میں منایا گیا۔ اس کی صد سالہ تقریب 2011 میں منائی گئی۔ لہذا، تکنیکی طور پر اس سال ہم خواتین کا 112 واں عالمی دن منانے جا رہے ہیں۔خواتین کے عالمی دن کو باقاعدہ طور پر 1975 میں تسلیم کیا گیا جب اقوام متحدہ نے بھی اسے منانا شروع کیا۔ اس کے لیے پہلی تھیم اقوام متحدہ نے 1996 میں چنا، جس کا نام ‘ماضی کا جشن اور مستقبل کی منصوبہ بندی’ تھا۔
جس دن روس میں خواتین کی ہڑتال شروع ہوئی تھی وہ جولیئن کیلنڈر میں 23 فروری تھی جو موجودہ کیلنڈر میں 8 مارچ ہے اور اسی لیے یہ آج کی تاریخ کو منایا جاتا ہے۔خواتین کا عالمی دن کئی ممالک میں قومی تعطیل کا دن ہے بشمول روس کے جہاں 8 مارچ کے آس پاس تین چار دنوں میں پھولوں کی فروخت دگنی ہو جاتی ہے۔چین میں حکومت کی جانب سے خواتین کو آدھے دن کی چھٹی دی جاتی ہے مگر بہت سی کمپنیاں یہ چھٹی اپنے ملازمین کو نہیں دیتیں۔
اٹلی میں اس دن مموسا بلوسمز پھول دیے جاتے ہیں۔ اس روایات کا آغاز کیسے ہوا یہ تو کسی کو معلوم نہیں مگر کہا جاتا ہے کہ یہ روم میں دوسری عالمی جنگ کے بعد شروع ہوا۔امریکہ میں مارچ کا مہینہ تاریخِ نسواں کے مہینے کے طور پر منایا جاتا ہے۔ اس حوالے سے ایک صدارتی اعلان بھی کیا جاتا ہے جس میں سال بھر کی خواتین کی کامیابیوں کو اعزاز دیا جاتا ہے۔
لیکن ہمارے ہاں حسب معمول اور حسب روایت اس دن کو منانے میں ہم مغرب کو بھی پیچھے چھوڑ گئے ہیں۔ ایلیٹ کلاس کی چند ایسی خواتین جو کہ پر آسائش زندگی سے لطف اندوز ہو رہی ہوتی ہیں جنہوں نے کبھی ہل کر پانی تک نہیں پیا ہوتا کبھی انڈہ تک نہیں ابالا ہوتا وہ آدھے ادھورے کپڑے پہن کر نہایت بیہودہ قسم کے پلے کارڈز اٹھا کر کچھ سسی ٹائپ مردوں کے ساتھ ڈھول بجاتے ناچتے ہوئے ایسے مطالبات کر رہی ہوتی ہیں جو مرد بھی کھلے عام نہیں کر پاتے۔
اس پر مستزاد وہ یہ دعوی کرتی ہیں کہ وہ مظلوم اورغریب طبقے کی ان خواتین کی نمائندگی کرتی ہیں جو گھر اور باہر باندیوں کی طرح کام بھی کرتی ہیں، بچے بھی پیدا کرتی ہیں اور شوہر، سسرال اور باس کا جسمانی، ذہنی اور نفسیاتی ٹارچر بھی برداشت کرتی ہیں۔اور ان کے لیے جو حقوق ہماری یہ فیشن ایبل الٹرا ماڈرن خواتین طلب کرتی ہیں ان کی فہرست کچھ یوں ہوتی ہے:” کھانا بنانا، گرم کرنا، سرو کرنا، کپڑے دھونا استری کرنا، بچے پیدا کرنا انہیں پالنا، شوہر کے حقوق زوجیت ادا کرنا حتی کہ ہر وہ کام جو ایک عورت کر رہی ہے اس پر ظلم ہے اور اسے ان سب سے بری الذمہ کر کے اپنی مرضی کا مالک بنا دیا جائے۔
اب وہ چاہے تو برہنہ پھرے، کسی بھی مرد یا عورت سے جسمانی تعلق قائم کرے، سڑکوں پر محافل میں ناچے گئے شراب پیے نشہ کرے کوئی کچھ نہ بولے۔ اور مرد کے برابر سمجھا جائے۔”
کوئی انہیں بتائے کہ محترمہ جن خواتین کی آپ نمائندہ بنی پھر رہی ہیں ان بیچاریوں کو تو ان سب باتوں کے بارے میں سوچنے کی بھی فرصت نہیں کجا کہ وہ یہ مطالبات کریں اور انہیں پورا کرنا چاہیں۔پھر آپ کس کے لیے یہ سب کرتی پھر رہی ہیں؟؟؟؟
کیونکہ آپ تو پہلے ہی یہ سب کچھ کر رہی ہیں۔آپ کا اس مارچ میں آنا اور حلیے و حرکات اس کا واضح ثبوت ہیں۔بات دراصل یہ ہے کہ ان خواتین کے پاس کرنے کو تو کچھ ہوتا نہیں چنانچہ یہ فیمینیزم کا پرچار کرنے لگتی ہیں۔اور چونکہ ان کے دماغ بھی چڑیا کے دماغ جتنے ہوتے ہیں تو لبرلز ان کا شکار بڑی اچھی طرح کر لیتے ہیں۔اور یہ اندھا دھند ان کی تقلید کرتی ہیں جیسے کہانی میں بچے پائیڈ پائپر کی کرتے ہیں۔اور جناب لبرلز کا تو موٹو ہی یہ ہے کہ ہمارے فیملی سسٹم کو تباہ کیا جائے۔
ایک عورت ہونے کے ناطے میں ان خواتین کو بتانا چاہتی ہوں کہ بناء کسی قاعدے، قانون اور پابندی کے تو جنگل میں بھی رہنا ناممکن ہوتا ہے ہم تو پھر مہذب دنیا کے رہائشی ہیں۔جہاں ہر ملک کے قوانین کو فالو کرنا پڑتا ہے ورنہ جرمانے کے ساتھ ساتھ سزا بھی ملتی ہے۔اور بحیثیت مسلمان عورت کے مجھے میرے رب کے احکام پر عمل کرنا ہے تاکہ میری یہ دنیا اور آخرت پرسکون رہے۔میں سور جیسی مکروہ اور غلیظ جانور تو ہوں نہیں کہ گندگی میں لتھڑے رہنا اور اپنے ہی محرم رشتوں سے جسمانی تعلق رکھنا پسند کروں۔برہنگی، مادر پدر آزادی اور اپنی ذمہ داریوں سے لاتعلقی تو کوئی جانور یا پرندہ بھی نہیں دکھاتا۔ چڑیا بھی بچے پیدا کرتی ہے تو اس کے بڑے ہونے تک اس کی ذمہ داری اٹھاتی ہے۔تو کیا میں اشرف المخلوقات ہو کر ان جانوروں اور پرندوں سے بھی گئی گزری بن جاوں؟
ویسے اگر ان کے مطالبات مان لیے جائیں اور انہیں مردوں کی طرح نہ صرف اپنے بلکہ شوہر اور بچوں کے اخراجات بھی اٹھانے پڑیں، مردوں کے درمیان انہی جیسی زندگی گزارنی پڑے تو یقین مانیے دو دن میں یہ توبہ کر کے نیک پروین بن کے گھر میں بیٹھ جائیں گی۔کیونکہ یہ کینفوزڈ خواتین ہیں جو یہ چاہتی ہیں کہ انہیں عورت ہونے کے استحقاق عزت اور مارجن تو ملے لیکن ان کو فرائض نہ ادا کرنے پڑیں۔سوچیے اگر ایسی کسی عورت کوگھر کے مرد کہہ دیں کہ ہم تو اپنا کوئی فرض پورا نہیں کر سکتے آپ جائیے اور خود بھی کمائیے ہمیں بھی کھلائیے۔گھر میں سانپ نکل آئے اور مرد کہہ دیں آپ خود مار لیجئے ہمارا تو یہ کام ہی نہیں ہے۔ڈاکو آ جائیں تو وہ کمرہ بند کر کے چھپ جائیں کہ جائیے خود لڑیے ہمیں کیا؟
آپ کے ساتھ بغیر نکاح کے جسمانی تعلق قائم کر کے آپ کو بچوں سمیت اکیلا چھوڑ جائے اور آپ کے گھر کا کوئی مرد آپ کا سہارا نہ بنے کہ ہمارا فرض تو نہیں ہے۔آپ بس میں سوار ہوں اور کسی مرد کے ساتھ ٹکڑا جائیں اور وہ اسے اپنی عزت پہ حملہ تصور کرتے ہوئے آپ کو دو چار جڑ دے اور اس کارخیر میں باقی حضرات بھی اپنا حصہ ڈالیں تو کیا یہ برابری آپ کو خوشی خوشی گوارا ہو گی؟؟؟؟
مجھے صد فیصد یقین ہے کہ آپ کا جواب نفی میں ہو گا۔تو محترمہ جائیے گھر جائیے اور کسی مثبت کام میں وقت ، انرجی اور پیسہ لگائیے۔جن خواتین کے نام پر آپ سڑکوں پر بھٹک رہی ہیں جو آپ کی ہیلپرز ہیں ان کی مدد کیجئے اور انہیں ریلیکس ہونے کا موقعہ دیجئے یقین مانیے فرصت کی یہ چند گھڑیاں ان کے لیے کسی نعمت مترقبہ سے کم نہیں ہوں گی۔انہیں ان کی تنخواہ ان کے کام کی مناسبت سے دیجئے بلکہ کچھ ایکسٹرا دیجئے تاکہ ان کے کچھ مالی مسائل کم ہو سکیں۔یہی ان کے لیے سب سے بڑا تحفہ ہو گا۔نہ اپنا وقت برباد کیجئے نہ دوسروں کا۔