Daily Roshni News

مراقبہ کیا ہے؟۔۔۔تحریر۔۔۔ڈاکتر وقار یوسف  عظیمی۔۔۔قسط نمبر3

مراقبہ کیا ہے۔

تحریر۔۔۔ڈاکٹر وقار یوسف عظیمی

قسط نمبر3

ہالینڈ(ڈیلی روشنی نیوز انٹرنیشنل۔۔۔مراقبہ کیا ہے؟۔۔۔تحریر۔۔۔ڈاکتر وقار یوسف  عظیمی ) مدد لے سکتی ہیں۔ مختلف پروفیشنز سے وابستہ افراد مثلاً اساتذہ، ڈاکٹر، انجینئر، وکیل، بینکار، بزنس ایگزیکٹیو اور دیگر شعبوں سے متعلق حضرات و خواتین ذہنی سکون، یکسوئی، فہم و فراست میں اضافے اور قوت کار کی بہتری کے لیے مراقبہ سے فائدہ اٹھا سکتے ہیں۔ قلب، نظام دوران خون، اینڈو کرائن نظام و غیر و پر اچھے اثرات کی وجہ سے مراقبہ صحت کے لیے بھی بہت مفید ہے۔ دوران مرض جلد شفایابی کےلیے مراقبہ معاون ہے۔

حالت صحت میں مختلف جسمانی نظاموں کی کار کردگی کو بہتر بنانے کے ساتھ ساتھ جلد کے لیے بھی مفید اثرات کا باعث بنتا ہے۔ جلد کی شفافیت، چہرے پر پر نکھار اور کشش و جاذبیت کے لیے مراقبے سے فائد و اٹھایا جا سکتا ہے۔ کم خوابی یا بے خوابی میں بھی مراقبہ مفید ہے۔ ٹھیک طرح مراقبہ کرنے سے گہری اور پر سکون نیند آتی ہے۔

راہ سلوک کے مسافر خود اپنی ذات سے آگہی کے لیے، اس کائنات کے رازوں کو سمجھنے کے لیے اور خالق کائنات کے عرفان کے لیے مراقبے سے مدد لیتے ہیں۔ غرض جسم کے معاملات ہوں یا روح کے، مادی دنیا ہو یا روحانی عالم مراقبہ ہر جگہ کسی نہ کسی طرح مفید و معاون ہے۔

مراقبےسےمدد:آپ اپنے لیے کسی بھی منزل کا انتخاب کرتے ہیں تو اس منزل تک پہنچنے کے لیے مختلف راستے آپ کے سامنے ہوں گے۔ زندگی کے سفر کو آسان بنانے، راستہ چلتے ہوئے قدموں کو درست سمت میں رکھنے، دوران سفر تھکن سے بچنے اور ذہنی سکون کے لیے مراقبہ ایک اچھا مددگار ہے۔ مراقبہ سے مدد لینے کے لیے مندرجہ ذیل امور کا خیال رکھنا ہو گا۔

1- اراده

2- مقصد کا تعین

3- وقت کا انتخاب

4- غذائی معمولات اور لباس کا جائزہ

 5- مثبت طرز فکر

 اراده :اس دنیا میں انسان کے ہر عمل (Action) کی بنیاد حیال“ ہے۔ کسی عمل کا خیال آتا ہے تو آدمی اس کام کے لیے فعال ہوتا ہے یا پھر اس خیال کونظر انداز کر دیتا ہے۔

خیال کیا ہے ؟ خیال! انسان کے لیے قدرت کی جانب سے کیا جانے والا ایک حیرت انگیز اہتمام ہے۔ کوئی انسان کسی مخیال پر عمل کرنا چاہے تو پھر اگلا مرحلہ ہے ارادہ۔

کسی بھی کام کے اچھے یا خراب نتیجے کا انحصار اس کام کے لیے کیے گئے ارادے پر بھی ہے۔ ارادہ مضبوط ہو گا تو اس کام میں انسان کی دل چیپسی اور توجہ زیادہ ہو گی۔ ارادہ کم زور ہو گاتو کام میں انسان کی دل چسپی بھی بس نام کی ہی ہو گی۔ ارادے کی مضبوطی انسان کو عمل کے لیے جذبہ اور طاقت فراہم کرتی ہے۔ مراقبہ کے لیے بھی پہلا مر حلہ ارادہ ہے۔ آپ مراقبہ کرنا چاہتے ہیں …؟

آپ کا یہ چاہنا خوش آئند ہو سکتا ہے لیکن اس چاہنے کو عملی شکل دینے کے لیے ایک مضبوط ارادے کی ضرورت ہے۔ اس سے یہ بات واضح ہوتی ہے کہ کسی راہ پر چلنے اور کسی منزل کو پانے کے لیے صرف چاہنا یا خواہش کرنا ہی کافی نہیں ہوتا۔

جو لوگ صرف خواہشات تک ہی محدود رہتے ہیں، ان کی خواہشات ان کے لیے ایک قید خانہ بن جاتی ہیں، جو لوگ اپنی خواہشات کو عملی اقدام سے جوڑ دیتے ہیں جلد یا بدیر انہیں کام یابی ضروری ملتی ہے۔ کبھی ایسا بھی ہوتا ہے کہ کوشش تو کسی ایک خاص مقصد کے لیے کی گئی لیکن راہ میں مزید کئی کامیابیاں بھی مل گئیں۔ اس سے یہ حقیقت آشکارا ہوئی کہ کسی ایک کام کے لیے عملی جدوجہد دیگر کئی کام یابیوں کا ذریعہ بھی بن سکتی ہے۔اس حقیقت کو شاعر خواجہ حیدر علی آتش نے ان الفاظ میں بیان کیا ہے

سفر ہے شرط مسافر نواز بہتیرے ہزار ہا شجر سایہ دار راہ میں ہے

مقصد کا تعین:کسی بھی کام کو شروع کرتے وقت اس کام یا کوشش کا مقصد بالکل واضح ہو نا چاہیے۔

یہ بات بھی عام مشاہدے میں ہے کہ اکثر لوگ اپنی کوششوں کو کسی نہ کسی مقصد سے تو وابستہ قرار دیتے ہیں لیکن اس مقصد کے حاصل سے بے خبر یا بے پر وا ہوتے ہیں۔ اس کی نہایت واضح مثال ہمارے معاشرے میں تعلیم کے عمومی اثرات ہیں۔

یہ بات ہمارے سامنے ہے کہ ہمارے ہاں مختلف مضامین میں گریجویشن کرنے والے بے شمار طلبہ و طالبات اپنے اپنے مضمون میں کتنی قابلیت کے حامل ہیں۔ اب ان طلبہ وطالبات نے یہ مقصد تو حاصل کر لیا کہ وہ تعلیم یافتہ یا گری ہولڈر کہلائیں لیکن تعلیم کا عمل ان کی قابلیت میں اضافہ کا باعث ہو اور اس عمل سے ان کی شخصیت کی تعمیر ہو، اُسے انہوں نے بالکل نظر انداز کر دیا، نتیجتا ڈگری ہولڈر تو ہزاروں لاکھوں ہو گئے لیکن معاشرے کو حقیقی معنوں میں قابل افراد دست یاب نہ ہو پائے۔

کسی بھی کوشش کے پیچھے مقصد اور اس مقصد سے وابستہ نتائج زیادہ سے زیادہ واضح ہو نا چاہیں۔ آپ مراقبہ کرنا چاہیں تو پہلے یہ طے کیجیے کہ مراقبہ آپ کیوں کرنا چاہتے ہیں۔ مراقبہ کئی مقاصد کے حصول کے لیے کیا جا سکتا ہے، مثال کے طور پر: مثبت طرز فکر Positive Thinking ذہنی یا اعصابی دباؤ کا مقابلہ Stress Management، جھنجھلاہٹ، غصه و غیره پر کنٹرول Control on Emotions خوف اور وسوسوں Phobias سے نجات، ذہنی یکسوئی، گہری اور پر سکون نیند، حصول علم اور تفہیم کی صلاحیت کی بیداری Comprehension قوت مدافعت کی بہتری، بچے خواب، چھٹی جس کی صلاحیت کو پروان چڑھانا، روحانی صلاحیتوں کی بیداری۔ غرض یہ کہ جسمانی ذہنی یار وحانی مقاصد کی ایک طویل فہرست ہی سے اپنے ذوق اور ضرورت کے مطابق آپ کسی ایک یا زاید مقاصد کے لیے مراقبے سے فائد واٹھا سکتے ہیں۔

ایک طالب علم پڑھتے وقت ذہنی یکسوئی اور تفہیم کی صلاحیت کو مراقبہ کے ذریعہ بہتر بنا سکتا ہے۔ کسی مرض میں مبتلا مریض مثلاً ہائی بلڈ پریشر، ذیا بیلیس یا کسی نفسیاتی مرض میں مبتلا شخص مراقبے کے ذریعہ شفایابی کے عمل کو تیز کر سکتا ہے۔

 خواتین یا مرد مراقبہ کے ذریعہ اپنی شخصیت کو زیادہ پر کشش بنا سکتے ہیں۔

سوال یہ ہے کہ یہ سب کیسے ہو گا…؟

اس کا انحصار مراقبہ میں آپ کی دل چسپی، مراقبہ کے لیے صحیح طریقہ کار اختیار کرنے اور چنددیگر امور پر ہے۔

 وقت کا انتخاب:یہ تو ایک عام فہم بات ہے کہ مختلف کاموں کے لیے مختلف اوقات مخصوص ہوتے ہیں۔ مثال کے طور پر ورزش کے لیے بہترین وقت صبح کا ہے۔ مراقبہ دن یارات میں کسی بھی وقت کیا جاسکتا ہے۔ تاہم مناسب ہو گا کہ اس کے لیے صبح سویرے یارات سونے سے پہلے کا وقت مقرر کر لیا جائے۔ کئی حضرات و خواتین صبح اُٹھ کر فورا کام کی تیاریوں میں مصروف ہو جاتے ہیں اور ورزش، مراقبہ یا ایسی اور کسی سر گرمی کے لیے وقت نہیں نکال سکتے۔ ایسے حضرات و خواتین دو پہر، شام یا رات میں مراقبہ کر سکتے ہیں۔ مراقبہ کے لیے دن میں حسب سہولت کوئی بھی وقت مقرر کر لیں۔ اس وقت کی پابندی کی جائے۔

 مراقبہ کا دورانیہ ؟:مراقبہ کے دورانیہ اور مدت کا انحصار اس بات پر ہے کہ آپ کس مقصد کے لیے مراقبہ کرنا چاہتے ہیں۔ اسٹریس، ٹینشن، نیند کی کمی یا ٹوٹ ٹوٹ کر نیند آنے کی شکایت، مختلف امراض کی پیچیدگیوں سے بچاؤ، قوت مدافعت کی بہتری، جسمانی صحت کی بحالی ، جلد کی صفائی اور جلد کی چمک دمک میں اضافے جیسے مقاصد ہوں یاذ ہنی صلاحیتوں میں اضافے، یاد داشت کی بہتری، بچے خواب کی صلاحیت بڑھانے، چھٹی حس

کی بیداری، وجدان کے ذریعے فہم و فراست اور تخلیقی صلاحیتوں کو فائدہ پہنچانا جیسے مقاصد ہوں یا کشف والہام اور دیگر روحانی مقاصد ہوں ! ان سب کے لیے مراقبہ کے دورانیے اور مدت کا تعین علیحدہ علیحدہ ہو گا۔

میرے مشاہدات کے مطابق زیادہ تر خواتین و حضرات نے ذہنی سکون، بہتر نیند ، جسمانی صحت کی بهتری، حسن و کشش میں اضافے کے لیے مراقبہ سے استفادہ کرنا چاہا۔ ان مقاصد کے لیے مراقبہ کا دورانیہ روزانہ کم از کم ہیں منٹ ہو نامناسب ہے۔ ایک اہم سوال یہ ہے کہ مراقبہ کتنے عرصے تک کیا جائے ؟

اس کا انحصار مراقبے کے مقصد اور مراقبہ کرنے والے کی اپنی دل چسپی اور استعداد پر ہے۔ یہ مدت چند ہفتے بھی ہو سکتی ہے اور چند ماہ بھی۔ کسی کام کو بطور علاج کیا جائے تو اس سے اکتاہٹ یا بوریت کا احساس بھی جلد ہی غالب آسکتا ہے لیکن اگر کوئی کام شوق اور جذبے کے ساتھ کیا جائے تو اس کام سے وابستگی میں خوشی اور سکون کا احساس ہوتا ہے۔ کئی لوگوں نے بطور علاج چند ہفتوں کے لیے مراقبہ شروع کیا۔ دل چسپ بات یہ ہے کہ انہوں نے جن مسائل کی وجہ سے مراقبہ شروع کیا تھا وہ مسائل بھی بفضل تعالی حل ہو گئے لیکن مسائل حل ہو جانے کے باوجود انہوں نے مراقبہ جاری رکھا کیونکہ مراقبہ ان کے لیے ایک وقتی ضرورت سے بڑھ کر ایک جذبے Passion کی حیثیت اختیار کر گیا تھا۔

 غذائی معمولات:انسان کے ذہن و جسم پر مراقبہ کے نہایت مفید۔۔۔جاری ہے۔

بشکریہ ماہنامہ روحانی ڈائجسٹ جون2022

Loading