اوراد و وظائف
سائنس اور نفسیات کی روشنی میں
تحریر۔۔۔ابن وصی
قسط نمبر3
ہالینڈ(ڈیلی روشنی نیوز انٹرنیشنل ۔۔۔ اوراد و وظائف سائنس اور نفسیات کی روشنی میں۔۔۔ تحریر۔۔۔ابن وصی ) عمل کے نہایت مفید اثرات مرتب ہوئے ہیں۔
ذکر قرات اور آواز کی لہریں:
1839 میں ، سائنس دان اریترک ولیم ابع Enrick William Duve نے دریافت کیا کہ دمات پر بعض آوازوں کی لہروں مثبت اور منفی اثر لال سکتی ہیں۔ جب اس نے کانوں کو مختلف آواز لہروں کی فریکو کینسیوں سنائی تو اس نے محسوس کیا کہ دماغ ان آواز کی ارتعال کے ساتھ ہی رد عمل کا اظہار کرتا ہے۔ سائنس دانوں کے مطابق دماغی خلیات ارتعاش کی مختلف حالتوں میں رہتے ہیں۔ ہر ایک علیہ ایک خاص نظام میں ارتعاش کرتا ہے اور وہ آس پاکس کے دوسرے خلیوں سے متاثر ہوتا ہے۔ کوئی نہیں خراب واقعہ دماغ کے ارتقال مسلم میں فرائی کاباعث بن سکتا ہے۔
بچہ کی پیدائش سے پہلے ہی اس کے دماغی خلیات متوازن انداز میں حال سے ارتعاش کرتے ہیں، لیکن پیدائش کے بعد، ہر عمل دماغ کے خلیوں اور جس طرح سے ارتعال ہوتا ہے اس پر اثرات ہے۔ لہذا اگر دماغ کے کچھ خلیے اعلی فریکو کینسی کو برداشت کرنے کے لئے تیار نہیں ہیں، تو اس سے وائبریشن نظام میں خرابی پیدا ہو سکتی ہے جس کے نتیجے میں بہت ساری جسمانی اور نفسیاتی پیاریوں کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ مختلف فریکو ماسی والی آواز میں انسانی دماغ پر مختلف اثرات ڈالتی ہیں۔ مسلسل اور شرابے میں رہتا ذہنی دباؤ اور ہارمون لیولز کو بڑھاتا ہے، اس کے بر عکس خاموشی بہت سی پریشانیاں ختم کرنے میں مددگار ہوتا ہے۔ اس سے بلڈ پر تاثر بھی نارمل رہتا ہے۔ بہت سے معائین کچھ قابل علاج بیماریوں اور
کچھ دوسری دائمی بیماریوں کے علاج کے لیے آواز لبر کے ارتعاش کا استعمال کرتے ہوئے لوگوں کا علاج کرتے ہیں جس میں روایتی دوائی ناکام ہو چکی ہو۔ انہوں نے کچھ نفسیاتی پاریوں جیسے شیزو فرینیا بے چینی، نیند کی دشواریوں اور کچھ بری عادات جیسے تمہا کو نوشی نے کی عادت وغیرہ کے آواز کی لہروںVibrational Brain wave Therapy Medicineکے علاج کو کافی کار آمد پایا ہے۔ ا کر دورہ کا عمل کرنے والا مریض بیاری، زخم، درد میں آرام محسوس کرتا ہے اور اس کی قوت عدالت جسم کی مرمت کرنا شروع کر دیتی ہے۔ دوسرے نفسیاتی عوارض میں بھی ذکر رورہ سے انسان ہے گلی شدید خوف، پریشانی، تفاوت ذہنی دباؤ قصد بلڈ پریشر، اعصاب کو سکون ملتا ہے اور جسمانی طاقت بھی بڑھتی ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ روحانی سکون بھی میسر آتا ہے۔
یقین کی قوت :
کیا جاتا ہے کہ اکثر لوگ ان مہلک بیماریوں سے نہیں مرتے کہ جس قدر کہ چین کے ٹوٹنے یا بکھرنے سے مرتے ہیں۔ چند ماہرین نے یقین کی اہمیت کو جانچنے کے لیے ایک تجربہ کیا۔ انہوں نے ایک فرد کے ہاتھ میں ڈرپ کی ٹیوب لگادی اور اس یوب کو بالٹی میں ڈال دیا۔ ہاتھ کی نبض سے جڑے ٹیوب کو ایک خاص طریقے سے بند رکھا گیا اور بالٹی میں کسی اور ذریعہ سے لال رنگ کا پانی چھوڑا جانے لگا۔ مذکورہ فرد اس حقیقت سے بے خبر تھا، اس کو ایسا لگتا رہا کہ اس کے ہاتھ سے خون نکل کر بالٹی میں جمع ہو رہا ہے۔ جب پانی آدمی بھر گئی تو اس فرد پر عشی طاری ہو گئی اور وہ بے ہوش ہو گیا۔ اس کے باوجود کہ اس کے جسم سے ایک قطرہ خون بھی نہیں خارج ہوا تھا…آخر کیوں ؟…
اس لیے کہ اسے یقین تھا کہ سارا عون اُس کا ہے اور اکانوں نکل جانے پر کمزوری اور نقاہت بہت بڑھ جاتی ہے اس لیے وہ بے ہوش ہو گیا۔
دعا سے علاج میں یقین کو نہایت اہمیت حاصل ہے۔ یہ یقین کس طرح پیدا ہو تا ہے؟ اور اس یقین سے انسان کو کیا فوائد حاصل ہوتے ہیں…؟اس موضوع پر بائیولوجی کے ماہرین نے ریسرچ کی ہے۔
یونیورسٹی آف پنسلوانیا کے ریڈیا لوجی سائیکلوئی اور مذہبی تعلیم کے ماہر ڈاکٹر اینڈ ریونیو
برگ Andrew Newberg کا کہتا ہے و ما روج کے ساتھ باہم مل کر کام کرتا ہے اور ا ان پر روحانی خیالات کا تسلط ہماری زندگی کو بہتر بناتا ہے۔ روحانیت کا تعلق ہمارے دمالج سے انتہائی گہرا ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ مذہبی تصورات اور تجربات دماغ کے ایک خاص جسے محفوظ میں ہو جاتے ہیں۔ پروفیسر یو برگ نے ایسے دیگر موضوعات پر بھی کتابیں تحریر کی ہیں جن میں How God Changes Your Brain میں اس حوالہ سےاہم معلومات دی گئی ہیں۔
جب لوگ دعا میں مصروف ہوتے ہیں تو ان کا فرائل اوب ان کی رہنمائی کرتا ہے اور رجوع کرنے اور یکسو ہونے میں مدد دیتا ہے۔ بہت گہرائی سے کی جانے والی دعا یا عبادت کے دوران پر نیل لوب کی کار کردگی کم ہوتی جاتی ہے اور اس وقت انسان اپنے سے بہت قریب ہو جاتا ہے، وہ مجسم کو ہائی بن جاتا ہے، اس کا رواں رواں اپنے تجربات اور دل کی بات بیان کرتا ہے۔ عبادات اور مراقبہ سے دماغ میں کوئی مستقل مثبت تبدیلی لائی جاسکتی ہے۔ ایسے افراد جو طویل عرصے سے مراقبہ نہیں کرتے ہیں ان کا پیر بیل لوب حجم میں زیادہ ( Thick) دیکھا گیا ہے۔ نیوبرگ کا کہنا ہے کہ ایسے افراد جنہیں بنیادی طور پر کچھ والی عدم تناسب کا سامنا تھا آٹھ ہفتہ مراقبہ کے بعد ان کی ابن صلاحیتوں میں کافی اضافہ ہوا ہے۔ فرغل لوب کی بہتر کارکردگی کی وجہ سے ان کی یادداشت میں اضافہ نوٹ کیا گیا۔
ایک مطالعہ کے دوران یو برگ نے ایسے افراد کے دماغ کی اسکیٹنگ کی جو کمزور حافظہ رکھتے تھے، مراقبہ کی مشقوں کے بعد جب ان کے دماغ کی دوبارہ اسکیٹنگ کی گئی تو لوپ کے حجم میں اضافہ نوٹ کیا گیا اور یادداشت بھی بہتر ہوئی۔
ٹائم میگزین میں جیٹری کلوگر Jettey Kluger کے ایک مضمون کے مطابق بائیولوجی کے طالب علم ابتدائی نصاب میں ہی جسم کے مختلف اعضاء کی کار کردگی کے بارے میں جان لیتے ہیں۔ انسانی دماغ کے بارے میں پڑھتے ہوئے پیرئیل لوب Parcital Lob کا مطالعہ کرتے ہیں۔ جس کے بارے میں بائیولوجی میں بتایا جاتا ہے کہ پیر ٹیل لوپ سر کے بالکل اوپر دماغ کے دو حصوں میں سے ہوتا ہے اور یہ حسی اطلاعات کو وصول کر کے ان میں رہا پیدا کرتا ہے۔
ماہرین بائیولوجی کا کہنا ہے کہ پیر ٹیل لوب کا تعلق ہمارے یقین اور عقیدے سے بھی ہے۔ جب کوئی مخلص یکسوئی کے ساتھ دعاء عباد ہے یا مراقبہ میں مشغول ہوتا ہے تو اس وقت اس کے جسم میں انتہائی غیر معمولی تبدیلیاں رونما ہوتی ہیں، بہت سے ایسے فعال Finergetic مسلم تقلیل پاتے ہیں جو ہماری سوچ میں مثبت تبدیلی کا باعث بنتے ہیں۔ یہ کام پر کل لوب کے ار یعے انجام پاتا ہے۔ یہاں دماغ کے ایک حصے تھیلا میں Thalamus کا بھی اہم کردار ہے۔ پیر نیل لوب نشوز کا مرکزی حصہ جو حواس کو اطلاعات مہیا کرتا ہے۔ اس کی تحریکات ہمیں ایثار پسندی کی طرف مائل کرتی ہیں۔ بعض اوقات این مختلف ملک، وسوسوں اور خوف گرفتار ہو جاتا ہے لیکن اس دوران بھی ہمارا میاں عبادت کی طرف مائل نہیں ہوتا۔ اگر ذہن کو مذ ہب کی طرف راغب کیا جائے تو ہم بہت سی الجھنوں سے نجات پاسکتے ہیں۔ معالمین کے مطابق دعا مختلف قسم کے درد میں، نامیدی، پیش اور اپر نائن میں، مستقبل کے خدشات کے علاج میں مفید ہوتی ہے۔ ایسے مریض جو کسی جان لیوا مرض میں مبتلا ہوتے ہیں ان کی شخصیت کی ٹوٹ پھوٹ ، ان کی ذہنی کیفیات، ٹینشن، ڈپریشن اور ناامیدی کی حالت اور ان کے مرض کے لیے دعا اور یقین نہایت مفید ہے۔
بشکریہ ماہنامہ روحانی ڈائجسٹ مارچ 2020