مسکراہت کا صدقہ
ہالینڈ(ڈیلی روشنی نیوز انٹرنیشنل ۔۔۔ مسکراہت کا صدقہ۔۔۔تحریر۔۔۔ڈاکٹر صفدر محمود)مجھے اس بابے کی بات اتنی اچھی لگی کہ میں اندر ہی اندر کھل اٹھا۔ بابا چہرے پر لیبی سفید نورانی ریش مبارک سجائے نوجوانوں کی مانند چلا جار ہا تھا۔ ایک ڈاکٹر سفید کوٹ پہنچے، گلے میں اسٹیتھو اسکوپ (ٹوٹیاں) لٹکائے اور اپنے اسٹنٹ کے ساتھ تیز تیز قدم اٹھاتے وارڈ کی جانب بڑھ رہا تھا۔ اس کا چہروان کا ہوا اور بہت متفکر لگ رہا تھا۔ بابے نے اسے السلام علیکم کہہ کر پیار سے روکا اور کہنے لگا کہ : ڈاکٹر صاحب! آپ مریضوں کو دیکھنے وارڈ میں جارہے ہیں؟ ان میں کچھ معمولی مرض میں مبتلا ہوں گے اور کچھ جان لیوا مرض کا شکار ہوں گے ۔ ان میں کچھ آنکھوں میں زندگی کی اس کے چراغ جلائے لیٹے ہوں گے اور کچھ قبر کے خوف اور موت کی آمد کے تصور سے نا امیدی کے اندھیروں میں ڈوبے ہوں گے۔
ڈاکٹر صاحب ! آپ وارڈ میں چہرے پر مسکراہٹ کے پھول کھلا کر داخل ہوں تو اس سے مریضوں کی نصف بیماری رفع ہو جائے گی۔ قبر سے فرار ممکن نہیں۔ قبر کو بہر حال آنا ہے لیکن آپ اپنے چہرے پر قبر سجا کروارڈ میں نہ جائیں۔ ڈاکٹر بابے کی بات سن کر مسکرا اٹھا اور جواب دیئے بغیر وارڈ میں داخل ہو گیا۔
بابے کی یہ بات تیر کی مانند میرے دل میں گھس گئی اور میں سوچنے لگا کہ اس بزرگ نے کتنے پتے اور راز کی بات کی ہے اور زندگی کا راز بیان کر دیا ہے۔ زندگی کی آخری حقیقت ہی ہے کہ قبر کو بہر حال آنا ہے۔ پھر وقت سے پہلے قبر کو چہرے پر کیوں سجایا جائے ؟ جب تک زندہ ہولوگوں کو زندگی کا پیغام کیوں نہ دیا جائے۔
زندگی کا پیغام کیا ہے …. زندگی کا پیغام فقط ایک مسکراہٹ ہے۔ پھول کھلتا ہے تو مسکراہٹ لئے آتا ہے۔ پھول مرجھاتا ہے تو اپنے چہرے پر قبر کا سماں پیدا کئے جھڑ جاتا ہے اور لوگوں کے قدموں تلے مسلا جاتا ہے۔ جب تک پھول مسکر اتار ہتا ہے، وہ گلے کا ہار ، کلائی کا زیور اور دلہن کا سنگھار بنتا ہے۔ پھول جب تک کھلا رہتا ہے اسے مزاروں اور قبروں پر ڈالا جاتا ہے کہ مزار اور قبر اس کی خوشبو سے مہک اٹھیں۔ یہ مرحوم یا صاحب مزار کو زندگی کی تمنا اور دعا دینے کی علامت ہوتی ہے، ایک ایسی خواہش جو نہ پوری ہو سکتی ہے اور نہ ہی نظر آتی ہے بلکہ یہ خواہش نہیں در اصل عقیدت ہوتی ہے۔
غور کیا جائے تو خواہش اور عقیدت کا آپس میں گہرا رشتہ اور تعلق ہے اور یہی تعلق پھول کو قبر پر لے جاتا ہے۔
پھول کا جو بن چند روزہ ہوتا ہے۔ پھول کی زندگی چند ہفتے ہوتی ہے لیکن اس کا جو بن اور مختصر سی زندگی انسانی نگاہوں کو فقط یہ پیغام دینے آتی ہے کہ موت سے فرار ممکن نہیں۔ اس لئے جب تک زندہ ہو، مہکتے رہو، کھلے رہو، خوشبو بکھیرتے رہو اور زندگی کا پیغام دیتے رہو اور اسی مسکراہٹ کے ساتھ دنیا سے رخصت ہو جاؤ۔ زندگی کا عارضی اور بے ثبات ہونا موت کا پیغام نہیں بلکہ چہرے پہ مایوسی کی قبر بنا لینا موت کا پیغام ہے۔ اس لئے دنیا کا ہر مذہب اور ضابطہ حیات حسن اخلاق پر زور دیتا ہے۔ جس اخلاق کا مرکز اور منبع منکر بہت ہوتی ہے وہ مسکراہٹ جو دلوں کو مسخر کرتی اور امید کے چراغ روشن کرتی ہے۔
اللہ سبحانہ تعالی کو صدقہ بے حد پسند ہے۔ صدقہ بیماری سے نجات اور آنے والی مصیبت یا آفت کو روکتا ہے۔ بابا کہتا تھا کہ اگر زندگی کی مصیبتوں اور رکاوٹوں سے محفوظ رہنا چاہتے ہو تو ہر روز صدقہ دیتے رہو۔ صدقہ دس روپے کا بھی ہو سکتا ہے اور دس ہزار روپے کا بھی لیکن ایک صدقہ بلا قیمت اور بیش قیمت ہو تا ہے اور وہ صدقہ مسکراہٹ کا ہے… مسکراہٹ اور کی، دعا اور احترام و محبت کی، مسکراہٹ طنز، چوٹ اور تمسخر کی بھی ہوتی ہے جو دلوں پر ایٹم بم گراتی اور ذہنوں کو ویران کر جاتی ہے۔
کچی مسکراہٹ دلوں میں پھول کھلاتی ہے جبکہ طنزیہ مسکراہٹ دلوں کو ابدی زخم لگا جاتی ہے۔ مطلب یہ کہ مسکراہٹ انسان کی نمائندگی کرتی ہے، انسان کے باطن کی عکاسی کرتی ہے ، انسان کا نقش اور یاد ہوتی ہے۔ چنانچہ یہ فیصلہ بھی خود آپ ہی کو کرتا ہے کہ آپ پھول بن کر لوگوں کے دلوں میں مہکنا چاہتے ہیں باز خم بن کر کر اہنا چاہتے ہیں۔ بہر حال یادرکھئے کہ مسکراتا چہرہ اللہ کا نور اور سہانی صبح کا طلوع ہوتا ہے جو زندگی کا پیغام دیتا ہے جبکہ مایوس اور آدم بیزار چہرہ غروب آفتاب کی مانند ہوتا ہے جو اپنے ساتھ تاریکی لاتا اور شکست آرزو اور خزاں کا دردا جاگر کرتا ہے۔ گویا مسکراہٹ صاف باطن اور زندگی کی علامت ہے، زندگی کا راز اور زندور ہنے کا سب سے بڑا آسرا ہے۔
استاد کہا کرتا تھا کہ ولایتی گلاب اور دیسی گلاب میں بڑا فرق ہوتا ہے۔ ولایتی گلاب دیکھنے میں گلاب لگتا ہے لیکن خوشبو سے محروم ہوتا ہے جبکہ دیسی گلاب کی خوشبو پورے کمرے میں پھیل جاتی ہے اور اس کی مہک ہماری طبیعت کو ترو تازہ اور معطر کر دیتی ہے۔ وہ پھول ہی کیا جس کی خوشبو نہ ہو ۔ ان کی بات سن کر مجھے یہ خیال آتا تھا کہ حسن ہو تا ہے نگاہ کے لئے جو چیز دیکھنے میں حسین لگے اس سے نظروں کی تسکین ہوتی ہے اور ذہن حسن کے قریب میں کھو جاتا ہے، چاہے اس میں خوشبو ہو یا نہ ہو۔ خوشبو کا تعلق ناک اور سونگھنے کی حس سے ہے اگر حسن اور خوشبو اکٹھے ہو جائیں تو لطف دو گنا بلکہ دو آتشہ ہو جاتا ہے لیکن اگر حسن اور خوشبو الگ الگ بھی رہیں تو ان کی اپنی اپنی جگہ اور اہمیت ہوتی ہے۔ خوشبو نہ بھی ہو تو گلاب بہر حال گلاب ہی رہتا ہے اور بقول شخصے آپ گلاب کو جس نام سے بھی پکاریں اس سے فرق نہیں پڑتا۔ میں جب بھی امریکہ یا مغربی ممالک میں جاتا ہوں تو مجھے استاد کی یہ بات بہت یاد آتی ہے۔ وہ ولایتی گلاب کی تشبیہ اور موازنہ مغرب کی مسکراہٹ سے کیا کرتے تھے اگر آپ کو مغربی ممالک میں کچھ عرصہ رہنے کا موقع ملا ہے تو آپ نے مشاہدہ کیا ہو گا کہ یہاں ہر چہرہ آپ کو دیکھ کر ہلکا سا مسکراتا ہے، ہائے“ یا گڈ مارنگ کہتا ہے اور آگے بڑھ جاتا ہے۔ یہ ان کی تربیت یا عادت ہوتی ہے جسے آپ شخصیت کا ناگزیر یا Built in حصہ کہہ سکتے ہیں۔ استاد مغرب کی اس مسکراہٹ کو ٹیکنیکل Technical مسکراہٹ قرار دیتا تھا جو دوسرے پر نظر پڑتے ہی ابھرتی ہے اور پھر غائب ہو جاتی ہے۔ اسی ٹیکنیکل مسکراہٹ کو استاد ولایتی گلاب سے تشبیہ دیتا تھا کہ یہ مسکراہٹ ایک گلاب ہے جس میں خوشبو نہیں۔۔۔جاری ہے۔
بشکریہ ماہنامہ روحانی ڈائجسٹ مارچ 2017