Daily Roshni News

ذات کا محاسبہ۔۔۔ تحریر۔۔۔بانو قدسیہ۔۔۔قسط نمبر1

ذات کا محاسبہ

تحریر۔۔۔بانو قدسیہ

ہالینڈ(ڈیلی روشنی نیوز انٹرنیشنل ۔۔۔ ذات کا محاسبہ۔۔۔ تحریر۔۔۔بانو قدسیہ)کھلی گٹھری کی طرح وہ بکھرا رہتا تھا۔ اس نے کئی راتیں ہمسائے کے چھنارے درخت کو کھڑکی میں سے دیکھ کر گزاری تھیں۔ ذی شان کواس درخت کے پتے ڈالیاں چاندنی راتوں میں خاموش چمک کے ساتھ بہت پراسرار وحدت لگتی تھیں۔ وہ سوچتا کہ اتنے سارے پتوں کے باوجود درخت کی اکائی کیسے قائم رہتی ہے۔ اگر یہ پتے ڈالیوں سے علیحدہ ہو جائیں تو ان بکھرے پتوں کو کیسے سمیٹا جا سکتا ہے۔

تب تک اسے معلوم نہیں تھاکہ پتے درخت کے اپنے وجود سے پیدا ہونے والے تھے اور وہ جن خواہشات کی وجہ سے بکھرا تھا وہ سب اس کے بیرون سے آئی تھیں۔ کبھی کبھی کار چلاتے ہوئے اسے احساس ہوتا کہ جس طرح جاپانی خودکشی کرتے ہیں اور ہار اکیری کرتے وقت اپنی کھوکھری کے ساتھ تمام انتڑیاں اور پیٹ کے عضلات نکال پھینکتے ہیں، ایسے ہی اس کے بھی کسی عمل سے اس کا انتڑ پٹیا بکھر گیا اور اب وہ جلد اور پٹھوں کی مضبوط ڈھال نہیں تھی جس میں اس کے بکھرے ہوئے وجود کو منڈھا جاتا۔ اس بات کا ایک بار اسے ہلکا سا خیال ان چھ ماہ کی چھٹیوں میں آیا تھا، جب اس نے ایف اے کا امتحان دے کر بی اے کے داخلے سے پہلے اپنے لیے بہت لمبے چوڑے پلان بنائے تھے۔ صبح سوئمنگ پھر ورزش پھر گٹار کے سبق، شام کو فرنچ کی کلاسیں، رائڈنگ وغیرہ تمام دوستوں کے ساتھ فرداً فرداً سچ کا رشتہ، ماں باپ کی عزت، بہن بھائیوں سے محبت، رشتہ داروں کا پاس۔ ایف۔ اے۔ کے امتحانوں سے پہلے اسے نہ دوسروں سے اتنی توقعات تھیں نہ ہی وہ اپنے وجود کو اس قدر گانٹھ کر رکھتا تھا لیکن امتحانوں کے دنوں میں اس نے بڑی محنت کی۔ پرچے اچھے ہوئے اور پہلی بار اسے احساس ہوا کہ وہ اپنی ذات کا محاسبہ اور مواخذہ کیے بغیر زندہ نہیں رہ سکتا۔ محاسبہ چاہے کسی غیر کا ہو یا اپنا ہو ہمیشہ کڑا ہوتا ہے۔ اس میں چونی دونی کی چھوٹ نہیں ملتی۔ اس محاسبے تلے وہ بہت جلد کثیر المقاصد ہوتا چلا گیا لیکن ایف اے پاس تھا اس لیے اسے علم نہ ہو سکا کہ فوارے کی طرح وہ بہت سے چھیدوں سے نکل کر پھوار تو بن سکتا ہے آبشار کی صورت اختیار نہیں کر سکتا۔ جب تمام تجارتوں کا گیدڑ بننے کی خاطر اسے اپنا سونا، کھانا پینا، آرام، گپ بازی ترک کرنا پڑتی تو اندر عاجز آ جانے کا خیال ابھرتا۔ اسے لگتا جیسے وہ کسی مبہم سے عارضے میں مبتلا ہے لیکن اس نے اپنے آپ سے ایسی توقعات وابستہ کر رکھی تھیں کہ اپنے بنائے ہوئے ضابطے سے باہر نکلنا اس کے بس کی بات بھی نہ تھی۔

ایک روز وہ الکٹرونک کی ہابی میں مشغول اپنے اردگرد بہت سے سرکٹوں کے کاغذ چیسیں تاریں گتے کا دیا پھیلائے بیٹھا تھا کہ ماموں آ گئے۔ ماموں خوش زبان، متوسط طبقے کے کچھ بے فکرے کچھ ذمے دار آدمی تھے۔ انہوں نے اپنی کائنات اس قدرنہیں پھیلا رکھی تھی کہ اس کے نیچے انہیں خوف آنے لگے۔

’’مچھلی کا شکار کھیلنے جا رہے ہیں، چلوگے؟‘‘

’’کہاں ماموں۔۔۔ میں یہ چھوٹا سا سرکٹ مکمل کر لوں۔‘‘

ماموں آرام سے کرسی میں بیٹھ گئے۔

’’ذی شان!‘‘

’’جی ماموں!‘‘

’’تم بہت اچھے آدمی ہو۔‘‘

’’تھینک یو ماموں۔‘‘

’’باوجود کہ تمہارے ابو امی نے تم پر زیادہ توجہ نہیں دی۔ تم میں ایک اچھے انسان بننے کی تمام خوبیاں اور خرابیاں موجود ہیں۔‘‘

’’بات یہ ہے بیٹا Activity بہت اچھی چیز ہے لیکن کثیر المقاصد انسان اتنا ہی پراگندہ ہو جاتا ہے جس قدر سست الوجود کام سے نفرت کرنے والا پوستی۔۔۔ اپنے آپ کو کہیں دھجیوں میں نہ بانٹ دینا۔۔۔ سالم رہنا۔۔۔ سالم۔‘‘ وہ ماموں کی بات بالکل نہ سمجھتا تھا پھر بھی اس نے سوال کیا، ’’وہ کیسے ماموں آج کی زندگی میں سالم کیسے رہا جا سکتا ہے۔‘‘

’’بس خواہشات کا جنگل نہ پالو۔۔۔ آرزو کا ایک پودا ہو تو آدمی منزل تک بھی پہنچتا ہے اور بکھرتا بھی نہیں۔‘‘

ذی شان چونکہ گوشت پوست کا بنا ہوا انسان تھا اور انسان جو بھی سیکھتا ہے یا تو ذاتی لگن سے سیکھتا ہے یا اپنے تجربے کی روشنی میں خوف سے سیکھتا ہے۔ اس لیے تجربے کی کمی کے باعث ذی شان کو ماموں کی باتیں کتابی لگتیں۔ پھر یہ بات بھی تھی کہ ماموں متوسط طبقے کاآدمی تھا۔ اس کی قمیض کے کالر پر ہلکی سی میل ہوتی۔ ماموں کارہن سہن معمولی تھا۔ ایسے لوگوں کی باتیں سنی تو جا سکتی ہیں لیکن ان کی سچائی پر عمل نہیں کیا جا سکتا۔

ذی شان کے لیے زندگی ایک دوڑ کی شکل اختیار۔۔۔جاری ہے۔

بشکریہ ماہنامہ  روحانی ڈائجسٹ

Loading