حوصلہ افزائی ٹوٹے ہوئے اعتماد کو جوڑتی ہے۔
تحریر۔۔۔مشکور الرحمنٰ
ہالینڈ(ڈیلی روشنی نیوز انٹرنیشنل ۔۔۔ حوصلہ افزائی ٹوٹے ہوئے اعتماد کو جوڑتی ہے۔۔۔ تحریر۔۔۔مشکور الرحمنٰ)دنیا میں ہر شخص یہ چاہتا ہے کہ لوگ اس کے بارے میں اچھے خیالات رکھیں۔ ہم اس بات کے متمنی رہتے ہیں کہ ہمارے ساتھی ہماری کوششوں کی دادد دیں۔ یہ حوصلہ افزائی کی کرشمہ سازی تھی کہ سڑکوں پر اخبار بیچنے والے لڑکے کروڑ پتی بن گئے اور کمزور نحیف لوگ طاقتور پہلوان بن گئے۔ حوصلہ افزائی نے سینکڑوں بلکہ ہزاروں انسانوں کی زندگیوں میں انقلاب برپا کر دیے۔ زخم خوردہ دلوں پر مرہم رکھ دیا اور نہ جانے کتنے آدمیوں کو تباہی و بربادی اور خود کشی سے بچالیا۔
چند طالب علموں پر ایک تجربہ کیا گیا۔ ٹیچر نے کل اس کے کچھ طلباء کو یہ کہنا شروع کر دیا مشکور کہ تم انگریزی اور ریاضی میں بہت نالائق ہو۔ مجھے ڈر ہے کہ تم ان دونوں سجیکٹ میں فیل ہو جاؤ کے یا پھر تمہارے نمبر بہت کم آئیں گے۔ جبکہ کلاس کے کچھ طلباء کو کچھ نہیں کہا گیا اور انہیں نارمل انداز میں ہی تعلیم دی گئی اور کچھ طلباء کی حوصلہ افزائی کی گئی اور انہیں یہ یقین دلایا گیا کہ اگر تم محنت کرو تو بہت اچھے نمبر لے سکتے ہو۔
جب امتحان کا نتیجہ آیا تو طلباء کا وہ گروپ جے ٹیچر اٹھتے بیٹھتے انگریزی اور ریاضی میں کمزوری کے طعنے دیتے تھے ان میں سے کئی طلباء انگریزی اور ریاضی میں فیل ہو گئے اور وہ طلباء جنہیں نارمل انداز میں پڑھایا گیا تھا ان میں سےکچھ کے نمبر بہت اچھے اور کچھ کا نتیجہ ویسای آیا میسا پہلے آیا کرتا تھا لیکن حیرت انگیز طور پر وہ طلباء جن کی حوصلہ افزائی کی گئی تھی ان میں زیادہ تر طلباء کے بہت اچھے نمبر آئے تھے۔
حوصلہ افزائی ٹوٹے ہوئے اعتماد کو بحال کرنے کا بہترین ذریعہ ہے۔ کسی کی حوصلہ افزائی کرنے میں آپ کا کچھ خرچ بھی نہیں ہوتا۔ صرف تھوڑی سی توجہ کی ضرورت ہے اور ذرا سا وقت دینا ہوتا ہے۔ حوصلہ افزائی کی مختلف صورتیں ہوا کرتی ہیں۔ کہیں پر صرف ایک مختصر سا پر چالکھ دینا کافی ہو جاتا ہے کہیں دو چار لفظوں سے کام چل جاتا ہے۔ کسی موقع پر صرف ایک ذرا سا اشارہ ہی کافی ہوتا ہے۔ کبھی صرف گرم جوشی سے مصافحہ کر لینے ہی سے خاطر خواہ اثر ہو جاتا ہے۔
بچے اور نوجوان بہت جلد ہمت ہار بیٹھے ہیں، لہذا ان کی حوصلہ افزائی کی مختلف صور تین اختیار کرنی ہوتی ہیں۔ کبھی ذرا سی مدد کر دینے سے کام چل جاتا ہے۔ کبھی انعام و اکرام کی امید اپنا سحر دکھا دیتی ہے۔ کبھی گزشتہ کامیابی کی یاد مہمیز کا کام کر جاتی ہے بچے آپ کے ہوں یا دوسروں کے ان کی دل کھول کر حوصلہ افزائی کیجیے۔ اگر آپ کسی جگہ افسر ہیں تو یاد رکھیے کہ جس طرح سے مشین تیل ڈالنے سے رواں ہو جاتی ہے، اس طرح حوصلہ افزائی کی بدولت آپ کے ماتحت اور ملازم نہایت اچھی طرح اپنے فرائض منصبی انجام دینے لگتے ہیں۔
آپ یہ دیکھیں گے کہ حوصلہ افزائی کرنے سے لوگ دل کھول کر کام کرنے لگتے ہیں اگر کوئی افسر اپنے ماتحت کی حوصلہ افزائی کر دیتا ہے تو ماتحت اپنے افسر کی ذات میں ایک سحر انگیز کیفیت محسوس کرنے لگتا ہے۔
بعض لوگ دوسروں کی رائے کا خیال نہیں کرتے اور ان کی حوصلہ شکنی کرتے رہتے ہیں۔ ان میں بعض بچوں کے والدین بھی شامل ہیں۔ وہ بچوں کے شوق اور صلاحیتوں کو مد نظر رکھنے کے بجائے اپنی خواہشات ان پر مسلط کرتے ہیں۔ اس رویے کے رد عمل میں بچوں میں احساس کمتری، احساس محرومی اور بد دلی پروان چڑھنے لگتی ہے۔
جیسے کہ نائلہ کو پینٹنگ بنانے کا جنون کی حد تک شوق تھا لیکن اس کے گھر والے اسے وقت کا زیاں سمجھتے تھے اس لیے اسے بطور سبجیکٹ بھی پینٹنگ رکھنے کی اجازت نہیں دی گئی۔ نائلہ اپنے شوق اور علم کے مطابق کوئی چھوٹی موٹی پینٹنگ اپنی ماما یا پاپا کو دکھاتی تو وہ سختی سے ڈانٹ دیتے اور اس کی ڈرائنگ بھی پھینک دیتے۔ نائلہ کا کہنا ہے کہ صرف یہی نہیں بلکہ وہ کسی اور کھیل میں بھی حد سے زیادہ توجہ دیتا پسند نہیں کرتے تھے وہ کھیل کے وقت کو بھی اسٹڈی روم میں صرف کرنے کے قائل ہیں نائلہ کے والدین کے ان رویوں نے نائلہ کی صلاحیتوں کو زنگ لگادیا اور ایک قابل لڑکی احساس کمتری میں مبتلا ہو گئی۔
آخر ایسا کیوں ہوتا ہے….؟ ہم اپنے اندر کسی کی تعریف یا حوصلہ افزائی کرنے کا ظرف کیوں نہیں رکھتے جو کسی کا حق بھی ہوتا ہے اور ہمارا فرض بھی۔ کسی کی خوبصورتی کی تعریف کرنا، کسی اچھے عمل کو سراہنا، کسی کی اچھی بات کو اپنانا …. یہ حقیقت ہے کہ ہمیں ایسا کرنا مشکل نظر آتا ہے۔ اس کے برعکس ہم چاہتے ہیں کہ ہماری تعریف کی جائے۔ ہماری اچھی یا بری بات کی ہاں میں ہاں ملائی جائے۔ ہمیں سرابا جائے اس سے ہمارے اندر اعتماد پیدا ہوتا ہے۔ یادرکھیے ! تعریف اور خوشامد میں بہت تھوڑا سا فرق ہوتا ہے، تعریف صرف کسی جائز اور قابل فخر عمل کی ہوتی ہے اور خوشامد میں ہم کسی کو گمراہ کرتے ہیں۔ اس کے برے عمل کو بھی سراہتے ہیں اور حیرت کی بات یہ ہے کہ ایسا کرتے ہوئے ہمیں کوئی وقت بھی نہیں ہوتی۔ خوشامد میں ہم کسی سے اپنا کوئی کام نکلوا ر ہے ہوتے ہیں یا اس کی نظروں میں اچھا بننے کی کوششیں کر رہے ہوتے ہیں، اسے یہ باور کراتا مقصود ہوتا ہے کہ ہم اس کے خیر خواہ ہیں۔ در حقیقت خوشامد کرنے والا دوسرے فرد کے کرداراور شخصیت کو توڑ رہا ہوتا ہے۔ اسے ایک غلط Dose دے رہا ہوتا ہے جس طرح کسی کو نیند کا انجیکشن دے دینا یا کوئی نشہ آور عادت ڈال دینا۔ ہاں! ہم خوشامد کر کے کسی کو اس نشے میں مبتلا ہی کر رہے ہوتے ہیں۔ اس کے برعکس جو اس کے جائز حقدار ہوتے ہیں ان کی تعریف یا حوصلہ افزائی کرنا برا سمجھتے ہیں۔ یا یہ کہہ دیتے ہیں کہ تعریف کر دینے سے فلاں کا دماغ آسمان پر چڑھ جائے گا۔
حالانکہ خوشامد سے ہم دوسرے آدمی کا دماغ پستیوں میں دھکیل دیتے ہیں۔ ظاہر کی بات ہے کہ وہ دوسروں کو اپنے آگے حقیر محسوس کرنے لگے گا۔ اس میں اتنا قصور اس شخص کا نہیں ہو گا جس کی خوشامد کی جارہی ہے بلکہ وہ شخص جو خوشامد کر رہا ہے، سراسر خطا کار ہے، کسی کے اخلاق کی غلط تعمیر کرنا بہت بڑا جرم ہے۔
سب سے پہلے ماں باپ ہی اپنی اولاد کی تربیت کے ذمہ دار ہوتے ہیں۔ انہیں اچھی بات پر حوصلہ افزائی کرنا اور بری بات پر ٹوکنا لازم ہوتا ہے۔ بعض اوقات دیکھنے میں آیا ہے کہ خود ماں باپ اپنی اولاد کی غلط تربیت کے ذمہ دار ہوتے ہیں ۔ ان کا بچہ کسی سے جھگڑا کرے اور مار کھائے تو والدین طیش میں آکر اس سے کہیں گے کہ جاؤ تم بھی مار کر آؤ اور جب ان کا بچہ چھوٹے چھوٹے جھگڑوں سے لڑنا سیکھ جاتا ہے تو ماں باپ خوش ہو کر کہتے ہیں ” بہت اچھا کیا جو تمہیں پتھر مارے تم اسے اینٹ سے جواب دو“ یہ ایک برے فعل کی غلط حوصلہ افزائی ہے۔ آپ تصور کر سکتے ہیں کہ ذراسی غلط ر ہنمائی سے بچے کے اخلاق و کردار کی تعمیر کتنی بری طرح Damage ہو گی۔ جب ہم کسی کی کسی اچھے عمل پر تعریف یا حوصلہ افزائی کرتے ہیں۔ تو اس عمل کی قیمت و اہمیت بہت بڑھ جاتی ہے۔ آج آپ کسی چھوٹی بات پر اپنے اعلی ظرف کا مظاہرہ کریں گے تو کل اس کا مثبت رد عمل بھی پائیں گے۔ کیونکہ کسی عمل کی تکمیل میں حوصلہ افزائی ، ریڑھ کی ہڈی کا کام دیتی ہے۔ انسان کو اعتماد بخشتی ہے اور بلندی کی راہ پر گامزن رکھتی ہے۔ کتنی اچھی اور بڑی بات ہے کہ آپ کے چند ہمت افزار لفظ کسی دوسرے کی ڈھاریں اور ہمت بن جاتے ہیں۔
تعریف اور خوشامد، حوصلہ افزائی اور حوصلہ شکنی …. سے انسان کا کردار بنتا بھی ہے اور بگڑتا بھی ہے اور یہ سارے کا سارا انحصار آپ کے چند لفظوں پر ہے۔ اگر یہ بروقت ادا ہو جاتے ہیں تو اس کے مثبت نتائج میں آپ کا بڑا ہاتھ ہو گا اور اگر یہ قاط فعل اور غلط وقت پر خوشامد اور حوصلہ شکنی کی صورت میں ادا ہوتے ہیں تو کسی انسان کی اخلاقی بلندی کا بڑا Loss ہو گا اور اس کے ذمہ دار خوشامد کرنے والے بھی ہوں گے۔
اپنے لفظوں کو سوچ سمجھ کر ادا کریں اور اس کے حق دار کو ہی ادا کریں۔ یہ لفظ کسی کی قسمت بنانے اور بگاڑنے میں اہم کردار ادا کرتے ہیں۔ جہاں تک ہو سکے خوشامد سے پر ہیز کریں۔ اپنے کسی مطلب کے عوض کسی دوسرے کو ذہنی طور پر Decline کرنا ایک انتہائی نا پسندیدہ عمل ہے۔
بشکریہ ماہنامہ روحانی ڈائجسٹ جون 2015