Daily Roshni News

مسعود رانا۔[6 اگست 1941ء ـ 4 اکتوبر 1995ء]

بشیر عنوان صاحب کے قلم سے
مسعود رانا
[6 اگست 1941ء ـ 4 اکتوبر 1995ء]

مسعود رانا میرپورخاص سندھ میں ایک راجپُوت کاشت کار گھرانے میں پیدا ہوئے۔ ان کے والد چوہدری احمد علی رانا کا تعلق زمین داروں کے متوسّط طبقے سے تھا۔ جو سندھ میں نہری نظام کے قیام کے بعد، جالندھر سے نقلِ مکانی کرکے مستقل طور پر میرپورخاص میں آباد ہوگئے تھے۔
مسعود رانا نے اپنی ثانوی تعلیم گورنمینٹ ہائی اسکول اور اعلا ثانوی تعلیم شاہ عبد اللّطیف کالج میرپورخاص سے
حاصل کی۔ دورانِ تعلیم ہی ان کی گائیکی کی صلاحیت سامنے آئی۔ ان کے اساتذہ نے بھی ان کی بہت حوصلہ افزائی کی۔ اللہ نے ان کو بہت اچھی آواز سے نوازا تھا۔ ابتدا میں وہ اونچے سُروں کے بادشاہ محمد رفیع کے گائے ہوئے گیتوں کی نقل بڑی کامیابی سے کرتے تھے۔ گائیکی کے فن میں ان کا استاد کوئی نہیں تھا۔ تاہم شام ڈھلے وہ اپنے دوست غلام قادر اور بلاول بیلجیئم کے ساتھ غریب آباد گوشت مارکیٹ کے سامنے واقع لال محمد بلوچ کی سائیکل کی دکان پر گانے بجانے کی مشق کیا کرتے تھے۔ اس طرح ان تینوں کا فن نکھرتا گیا۔ مسعود رانا تو بہت اعلا مقام تک پہنچے لیکن بلاول بیلجیئم بھی بینجونوازی کے استاد کہلائےاور غلام قادر نے بھی سندھی گائیکی میں بڑا نام کمایا۔ بالخصوص انھوں نے سیّد مرتضٰی ڈاڈائی کا کلام “زہر کھے بھی زم زم کرے پی ڈِٹھو سیں /مر ن کھاں آگے ہی مرے موں ڈِٹھو سیں” گا کر لازوال شہرت حاصل کی ۔

مسعود رانا کے خاندان میں ان سے پہلےگانے بجانے کی کوئی روایت موجود نہیں تھی۔ اس لیے شروع میں ان کے والد ان کی گائیکی کےحامی نہیں تھے۔ لیکن اسکول اور کالج کےقومی دنوں کے فنکشنوں میں اساتذہ کی جانب سے ان کی بہت زیادہ تعریف سن کر خاموش ہوگئے۔ اسی دوران 1955ء میں حیدرآباد میں ریڈیو پاکستان کا آغاز ہوا تو وہ ریڈیو کی گائیکی کے لیے منتخب کرلیے گئے۔ان ہی دنوں کراچی میں ایک سالانہ نمائش ہوا کرتی تھی۔جس میں گلوکاری کا مظاہرہ بھی شامل تھا۔ مسعود رانا وہاں گلوکاری کا مظاہرہ کیا کرتے تھے۔ ان ہی دنوں کراچی کی فلمی صنعت کا آغاز بھی ہوچکا تھا۔ ان کو پہلی بار “انقلاب” فلم میں گانے کا موقع ملا ۔اس کے بعد ” بنجارن” فلم میں بھی ایک گانا گایا۔ لیکن ان کا پہلا مقبول گانا فلم “شرارت” کا تھا، جس کے بول تھے،” اے دل تجھے اب ان سے یہ کیسی شکایت ہے۔” ان کا دوسرا مقبول گیت پنجابی فلم ” ڈاچی” کا تھا، “تانگے والا خیر منگدا” اس کے بعد ان پر کامیابی کے دروازے کھلتے چلے گئے اور دیکھتے ہی دیکھتے وہ اردو اور پنجابی فلموں کے مقبول گلوکار بن گئے۔
بالخصوص “ہم راہی” فلم کے سات گانے گاکر تو ان کی شہرت بامِ عروج پر پہنچ گئی۔
مسعود رانا نے اردو اور پنجابی کے علاؤہ سندھی زبان میں بھی کچھ گیت گائے۔ ان کے گائے ہوئے غیر فلمی اور قومی نغمے بھی خاصے مشہور ہوئے۔جن میں سے کچھ درجِ ذیل ہیں:

*سندھی گیت*:

• مہمان آہیوں ، ہلیا وییندا سیں، ،ہی دیس چھڈے،”ضیاء محی الدین کا شو”،1972ء میں گایا
• سندھڑی آ ، ہی سوہنی سندھڑی آ ،(گیت انور قمبرانی)

*غیر فلمی نغمات*:

• خیالِ ترکِ تمنّا نہ کرسکے تُوبھی/اُداسیوں کا مداوہ نہ کرسکے تُو بھی (ناصر کاظمی)
•دل کو جب بے کلی نہیں ہوتی/زندگی زندگی نہیں ہوتی (صوفی تبسّم)

*قومی نغمات*:

• ساتھیو مجاہدو جاگ اٹھا ہے سارا وطن
• اے وطن ہم ہیں تری شمع کے پروانوں میں
• ملّت کا پاسباں ہے محمد علی جناح

مسعود رانا نےتین سو سے زائد فلموں میں چھے سو سے زیادہ نغمات گائے، جن میں سے نصف سے زائد نغمات پنجابی زبان میں ہیں۔اس طرح وہ سب سے زیادہ پنجابی گیت گانے والے گلوکار بھی کہلاتے ہیں۔

انھوں نے بہترین گلوکار کا “نگار ایوارڈ” دو بار حاصل کیا۔پہلی بار 1965ء میں فلم “مجاہد” کے نغمے”ساتھیو مجاہدو جاگ اُٹھا ہے سارا وطن” کے لیے۔
اور دوسری بار 1971ء میں فلم ” آنسو” کے نغمے “تیرے بِنا یوں گھڑیاں بِیتیں جیسے صدیاں بِیت گئیں” کے لیے۔

مسعود رانا کے مقبول گیتوں کی تعداد بہت زیادہ ہے۔ان میں سے چند اردو اور پنجابی گیتوں کے مکھڑے نیچے درج ہیں:

• “جان کہہ کے جو بلایا تو برا مان گئے” ، نخشب کی مہنگی ترین فلم “مےخانہ” کا نغمہ جو 1964ءمیں،ریڈیو سیلون پر بہت دنوں تک اوّل پوزیشن حاصل کرتا رہا۔
•تمھی ہو محبوب مرےمیں کیوں نہ تمھیں پیار کروں
•مراخیال ہو تم میری آرزو تم ہو
•حالِ دل آج ہم سنائیں گے
•میرا محبوب آگیا
•یہ مانا کہ تم دل رُبا نازنیں ہو
•یہ وعدہ کیا کہ محبت کریں گے
•او میرے شوخ صنم
•فسانۂ دل ہے مختصر سا
•تیری یاد آگئی غم خوشی میں ڈھل گئے
•ہار دینا نہ ہمت کہیں ایک سا وقت رہتا نہیں
•آگ لگا کر چھپنے والے سن میرا افسانہ
•مرجھائے ہوئے پھولوں کی قسم
• عاشقاں توں سوہنامکھڑا لُکان لئی سجناں نے بوہے اگے چِک تان لئی
• ربّا ویکھ لیا تیرا میں جہاں

مسعود رانا بے پناہ مردانہ وجاہت کے مالک تھے۔ اسی وجہ سے انھیں “شاہی فقیر” نامی فلم میں ہیرو کا کردار بھی دیا گیا۔ اسی طرح پنجابی فلم ” دو مُٹیاراں” میں انھوں نے سائڈ ہیرو کا کردار ادا کیا۔ مگر دونوں فلمیں ناکام ثابت ہوئیں۔

میرپورخاص مسعود رانا کا اپنا شہر تھا۔مگر یہاں انھوں نے عام پبلک میں اپنے فن کا مظاہرہ کبھی نہیں کیا۔ تاہم 1973ء میں وہ ڈپٹی کمشنر میرپورخاص منظر اکبر کی دعوت پر سیلاب متاثرین کے لیے امدادی فنڈ جمع کرنے پہنچے تو انھوں نے تھرپارکر جیم خانہ کلب میں محدود پیمانے پر صرف کلب ممبروں کے لیے اپنے فن کا مظاہرہ کیا اور حاصل شدہ رقم امدادی فنڈ میں جمع کرادی۔
میرپورخاص میں مسعود رانا کا خاندان لال پاڑا اور ڈھولن آباد دونوں جگہ آباد تھا۔ جب ان کےبھائی بہنوں کی شادی ہوئی تو اس میں شرکت کے لیے ان کے ساتھی گلوکار، مالا اور احمد رشدی بھی تشریف لائے تھے۔ مگر وہ بھی فیملی فنکشن تک محدود رہے۔
1993ء کا ذکر ہے۔ایک دن میں نے دیکھا کہ مسعود رانا ڈھولن آباد روڈ کے فٹ پاتھ پر پیدل ٹہلتے ہوئے ریلوے اسٹیشن کی طرف آرہے ہیں۔ میں بھی مخالف سمت سے اسی فٹ پاتھ پر پیدل چلا آرہا تھا۔ میرا رخ ان ہی کی جانب تھا۔ وہ سفید دھاری دار شرٹ اور سیاہ پتلون میں ملبوس تھے۔ آج کے لوگ اپنے وقت کے مقبول ترین گلوکار کو پہچاننے سے قاصر تھے۔ لیکن میں نے انھیں پہچان لیا اوراضطراری کیفیت میں بے اختیار ان کو سلام کر دیا۔ انھوں نےکھرج بھری دھیمی آواز میں میرے سلام کا جواب دیا اور متحیّر اندازمیں آگے بڑھ گئے ۔ شاید سوچ رہے ہوں کہ ان کے آبائی شہر میں انھیں شناخت کرنے والا واحد شخص کون ہوسکتا ہے؟

• • •

***** ***** *****
تحریر و تلاش : بشیر عنوان
***** ***** *****

Loading